کیا قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ساتھ کروانے ضروری ہیں؟
ملک میں ایک ایسا وقت بھی رہا ہے جب اسمبلی کی تشکیل کے کچھ عرصے بعد ہی اس کی تحلیل کی باتیں شروع ہوجاتی تھیں۔ حزبِ مخالف حکومت کے خاتمے کے لیے احتجاج شروع کرتی اور کبھی لانگ مارچ تو کبھی تحریکِ نجات کا اعلان ہوتا۔ اس سے ہٹ کر حکومتِ وقت کے خلاف اپوزیشن جماعتوں کے سیاسی اتحاد بنتے جن کا بنیادی نکتہ ’حکومت ہٹاؤ‘ ہوتا۔
اسمبلیوں کی تخلیق کے بعد ان کی تحلیل کے خدشے کا ایک ہی سبب تھا اور وہ تھا صدرِ مملکت کا اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار۔ صدرِ مملکت آئین میں دیے گئے اسی اختیار کو اپنی خوشنودی کی بنیاد پر استعمال کرکے اسمبلی کو اس کی میعاد پوری ہونے سے پہلے ہی تحلیل کردیتے۔ ایسا ایک مرتبہ نہیں بلکہ کئی مرتبہ ہوا اور 5 اسمبلیاں اپنی میعاد ہی مکمل نہ کرسکیں۔
قبل از وقت اسمبلیوں کی تحلیل کا سلسلہ اس وقت رکا جب 2002ء میں قائم ہونے والی اسمبلیوں نے اپنی میعاد مکمل کی اور صدر پرویز مشرف نے اسمبلی تحلیل کرنے کے اختیار کو استعمال نہیں کیا۔ تب سے اب تک اسمبلیوں نے اپنی مدت تو مکمل کی لیکن وزرائے اعظم اور وزرائے اعلیٰ کو میعاد مکمل کرنے کا موقع نہیں ملا۔
پہلے جنرل ضیاالحق کے دور میں 8ویں ترمیم کے تحت 58 (2) بی کے تحت صدرِ مملکت کو قومی اسمبلی اور گورنروں کو صوبائی اسمبلیاں توڑنے کا اختیار ملا جو 1997ء میں نواز شریف نے 13ویں آئینی ترمیم کے ذریعے ختم کیا۔ اس کے بعد جنرل پرویز مشرف کے دور میں 17ویں آئینی ترمیم کے ذریعے یہ اختیار بحال کیا گیا جسے پھر پیپلز پارٹی کی حکومت نے 18ویں ترمیم کے ذریعے آئین سے خارج کردیا۔
ان گزشتہ 20 برسوں میں 4 قومی اسمبلیاں وجود میں آئیں اور 9 وزرائے اعظم بنے۔ 2002ء کی قومی اسمبلی نے 3 وزرائے اعظم کو دیکھا، یعنی میر ظفر اللہ خان جمالی، چوہدری شجاعت حسین اور شوکت عزیز۔ 2008ء سے 2013ء تک مخدوم یوسف رضا گیلانی اور راجا پرویز اشرف وزیرِاعظم رہے اور 2013ء سے 2018ء کے دوران مسلم لیگ (ن) کی حکومت تو قائم رہی لیکن پہلے نواز شریف اور پھر شاہد خاقان عباسی وزیرِاعظم بنے۔
1985ء سے 1996ء تک 4 حکومتیں میعاد پوری کرنے سے پہلے ہی ختم کردی گئیں۔
1985ء میں غیر جماعتی انتخابات کے بعد محمد خان جونیجو وزیرِاعظم بنے لیکن فوجی صدر جنرل ضیاالحق نے مئی 1988ء میں ان کی حکومت 58 (2) بی کے تحت تحلیل کر دی۔
1988ء میں بینظیر بھٹو اقتدار میں آئیں لیکن ان کی حکومت کو صدرِ مملکت غلام اسحٰق خان نے اگست 1990ء میں توڑ دیا۔ 1990ء میں نواز شریف پہلی مرتبہ وزیرِاعظم منتخب ہوئے تو صدر غلام اسحٰق خان نے اپریل 1993ء میں ان کی حکومت کو بھی برطرف کردیا۔ پھر بینظیر بھٹو کو 1993ء میں جب دوبارہ اقتدار ملا تو انہوں نے اپنے قابلِ بھروسہ سردار فاروق خان لغاری کو صدرِ مملکت منتخب کرایا لیکن قریبی ترین ساتھی ہونے کے باوجود فاروق لغاری نے صدارتی اختیار کا استعمال کیا اور نومبر 1996ء کو بینظیر بھٹو کی حکومت کو گھر بھیج دیا۔
پھر جب 1996ء میں نواز شریف دوسری مرتبہ وزیرِاعظم بنے تو انہوں نے اقتدار میں آنے کے ساتھ ہی اسمبلی تحلیل کرنے کے صدارتی اختیار کو آئینی ترمیم کے ذریعے ختم کردیا مگر اس کے باوجود ان کی حکومت مدت پوری نہیں کرسکی اور 12 اکتوبر 1999ء کو اس وقت کے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے حکومت کا تختہ الٹ دیا۔
2018ء میں عمران خان وزیرِاعظم بنے اور 2 مرتبہ اعتماد کا ووٹ بھی لیا لیکن اپریل 2022ء میں عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی کے بعد اس وقت کے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے وزارتِ عظمیٰ کی کرسی سنبھالی۔
سرسری جائزہ لیا جائے تو قیامِ پاکستان اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد کسی بھی وزیرِاعظم نے آئینی میعاد مکمل نہیں کی۔ پاکستان بننے کے بعد 11 برسوں میں 7 وزرائے اعظم تبدیل ہوئے اور 1973ء سے اب تک 16 وزرائے اعظم بنے۔ ذوالفقار علی بھٹو وہ واحد وزیرِاعظم تھے جنہوں نے مدت پوری ہونے سے پہلے ہی اسمبلیوں کو تحلیل کرکے انتخابات کروائے تھے۔
اس کے علاوہ ایک میعاد میں ایک سے زیادہ وزرائے اعلیٰ کی تبدیلی معمول کی بات رہی ہے اور خاص طور پر پنجاب، سندھ اور بلوچستان اس حوالے سے نمایاں رہے۔ لیکن وزیرِاعلی پنجاب پرویز الٰہی نے اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری پر دستخط کرکے پارلیمانی تاریخ میں نئی روایت ڈالی ہے۔
اب جبکہ پنجاب اسمبلی تحلیل ہوچکی اور خیبر پختونخوا کی اسمبلی بھی جلد ہونے کا امکان ہے مگر قومی اسمبلی، سندھ اور بلوچستان کی اسمبلیاں ابھی قائم ہیں جو ملک کی پارلیمانی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ ہے۔ اس سے پہلے 1993ء میں اس سے ملتی جلتی صورتحال نے اس وقت جنم لیا جب صدرِ مملکت غلام اسحٰق خان نے نواز شریف کی حکومت برطرف کرتے ہوئے قومی اسمبلی کو تحلیل کردیا تھا اور چاروں صوبائی اسمبلیاں بدستور قائم رہی تھیں۔
سپریم کورٹ کی جانب سے نواز شریف حکومت کو بحال کرنے کے بعد سیاسی کشیدگی میں اضافہ ہوا اور آخرکار کاکڑ فارمولے کے تحت نہ صرف صدرِ مملکت اور وزیرِاعظم مستعفی ہوئے بلکہ تمام اسمبلیوں کو توڑ کر نئے انتخابات کروائے گئے۔ اس طرح تمام اسمبلیوں کی میعاد ایک ساتھ ختم ہوئیں۔
ماضی میں ملک میں عام انتخابات کا ایک مخصوص پیٹرن رہا ہے جس کے تحت پہلے تو قومی اسمبلی اور پھر صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات الگ الگ دن ہوتے تھے۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں 2 دن وفقہ رکھا جاتا۔ پھر اس کو تبدیل کرکے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی دن کرنے کی ریت ڈالی گئی جس کی پذیرائی ہوئی۔
جب صدر فاروق لغاری نے بینظیر بھٹو کی حکومت کو برطرف کیا تو اس کے بعد فروری 1997ء میں پہلی مرتبہ ملک میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی دن ہوئے اور اس کے بعد قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے الگ الگ دن انتجاب کرانے کی روایت ختم ہوگئی۔ اس سے پہلے 2 دن کے وفقے سے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہوتے تھے یعنی پہلے قومی اور پھر چاروں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کرائے جائے تھے۔ ملک میں اس بات پر زور دیا جاتا رہا کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی میعاد میں فرق نہ پڑے حالانکہ آئینی طور پر ایسی کوئی پابندی نہیں ہے۔
آئینی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ آئین میں ایسی کوئی قدغن نہیں ہے کہ عام انتخابات ایک دن ہی ہوں لیکن روایت ایسی قائم ہوجاتی ہے جس پر عمل کرنا ایک طرح سے ضرورت بن جاتا ہے۔ ایک دن اور ایک ہی وقت میں عام انتخابات کروانے کی روایت تو ہے لیکن کوئی قانونی پابندی نہیں ہے۔
پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیوں کے انتخابات 3 ماہ اور باقی اسمبلیوں کے انتخابات اکتوبر میں ہوتے ہیں تو اسمبلیوں کی میعاد میں 6 ماہ کا فرق ہوجائے گا جسے ختم کرنے کے لیے کوئی نیا فارمولا اپنانا پڑے گا اور اس کے بغیر یہ فرق ختم کرنا آسان نہیں ہوگا۔
اس وقت یہ بھی ایک ابہام گردش کر رہا ہے کہ اب اگر صرف پنجاب اسمبلی کے انتخابات ہوتے ہیں تو اس اسمبلی کی میعاد کا کیا ہوگا۔ پنجاب اسمبلی کی میعاد کے بارے میں ابہام کا جواب خود آئین میں بالکل واضح ہے۔ آئین میں اسمبلیوں کی مدت متعین ہے اور اس لیے کسی بھی اسمبلی کے انتخاب جب بھی ہوں اس کی میعاد 5 برس ہی ہوگی اور ماسوائے کسی ترمیم کے اس میں کوئی ردوبدل نہیں کیا جاسکتا ہے۔
میعاد مکمل ہونے سے پہلے اسمبلی تحلیل ہونے کی صورت میں آئین میں انتخابات کروانے کی مدت واضح طور پر درج ہے۔ اسمبلی کی میعاد مکمل ہونے پر 2 ماہ اور نامکمل میعاد پر 3 ماہ میں انتخابات ہونے ہیں اور اسی عرصے کے لیے نگران حکومت قائم کی جائے گی۔
ماضی میں صرف ایک مرتبہ انتخابات کی تاریخ اور نگران حکومت کی معیاد کو بڑھایا گیا جب دسمبر 2007ء کو بینظیر بھٹو کی راولپنڈی میں ہلاکت ہوئی۔ اس وقت انتخابات 8 جنوری 2008ء کو ہونے تھے لیکن غیر معمولی حالات کی وجہ سے انتخابات کو ایک ماہ کے لیے مؤخر کیا گیا اور پھر عام انتخابات 18 فروری کو ہوئے۔
یہ بھی عام گمان رہا ہے کہ فلاں فلاں موسم میں انتخابات کا انعقاد کچھ مشکل ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ تاثر بھی زائل ہوچکا ہے کیونکہ ملک میں عام انتخابات ہر طرح کے موسم میں منعقد ہوئے ہیں۔
1977ء کے عام انتخابات مارچ میں ہوئے۔ 1985ء، 1988ء، 1990ء، 1993ء اور 2002ء کے انتخابات اکتوبر اور نومبر کے درمیان ہوئے۔ 1997ء کے انتخابات فروری میں ایسے وقت ہوئے جب ماہ رمضان تھا۔ 2008ء کے انتخابات سردی کے موسم میں، 2013ء کے شدید گرمی یعنی مئی میں اور 2018ء کے انتخابات جولائی میں برسات کے موسم میں ہوئے۔
اعلیٰ عدلیہ ایسی درخواستیں بھی مسترد کرچکی ہے جن میں صدارتی انتخابات کو اس لیے مؤخر کرنے کی استدعا کی گئی کہ ارکان اسمبلی حج کے فریضے کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب میں تھے۔
ماضی کو دیکھا جائے تو اپریل میں دونوں اسمبلیوں کے انتخابات کروانے میں بظاہر کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی۔
عباد الحق گزشتہ 30 برس سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ آپ بی بی سی سمیت ملکی و بین الاقوامی صحافتی اداروں سے منسلک رہے ہیں جہاں آپ سیاسی و عدالتی امور کو کور کرتے رہے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
عباد الحق گزشتہ 30 برس سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ آپ بی بی سی سمیت ملکی و بین الاقوامی صحافتی اداروں سے منسلک رہے ہیں جہاں آپ سیاسی و عدالتی امور کو کور کرتے رہے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔