• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

اسمبلیاں تحلیل ہوئیں تو پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کیلئے تیار ہیں، مسلم لیگ (ن)

شائع January 14, 2023
شہباز شریف نے پارٹی کے مستقبل کے لائحہ عمل پر تبادلۂ خیال کیا—فائل فوٹو: جاوید حسین
شہباز شریف نے پارٹی کے مستقبل کے لائحہ عمل پر تبادلۂ خیال کیا—فائل فوٹو: جاوید حسین

مسلم لیگ (ن) نے واضح کیا ہے کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیاں تحلیل ہوئیں تو صوبوں میں انتخابات لڑنے کے لیے تیار ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پنجاب اسمبلی کو تحلیل کرنے کے لیے سمری پر وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی کے دستخظ کے تناظر میں وزیر اعظم شہباز شریف نے مسلم لیگ (ن) کے سینیئر رہنماؤں کے ساتھ ملاقات میں پارٹی کے مستقبل کے لائحہ عمل پر تبادلۂ خیال کیا۔

پارٹی رہنماؤں نے اس بات پر تبادلۂ خیال کیا کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کی بھرپور کوششوں کے باوجود پرویز الہٰی کس طرح اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔

دوسری جانب گورنر پنجاب بلیغ الرحمٰن نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ’تمام قانونی پہلوؤں کا جائزہ لینے کے بعد اسمبلی کی تحلیل کی سمری پر دستخط کریں گے‘، اس حوالے سے آج اُن کی وزیر اعظم شہباز شریف سے ملاقات بھی متوقع ہے۔

پارٹی کے ایک اندرونی ذرائع نے بتایا کہ ’پارٹی سربراہ نواز شریف کی واپسی بھی اس اہم اجلاس میں موضوع بحث رہی، مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کا خیال تھا کہ اگر پارٹی کو انتخابات کے میدان میں اترنا ہے تو نواز شریف کی پاکستان میں موجودگی ضروری ہے‘۔

انہوں نے بتایا کہ وزیر اعظم نے شرکا سے کہا کہ وہ انتخابات کے امکانات پیدا ہونے کی صورت میں معذرت خواہانہ رویے کے بجائے جارحانہ حکمت عملی اپنائیں۔

اجلاس میں وزیر دفاع خواجہ آصف، وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ اور وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے داخلہ عطا اللہ تارڑ بھی موجود تھے۔

رانا ثنا اللہ نے اجلاس کو بتایا کہ ’پنجاب اسمبلی میں حکمراں اتحاد کے 5 ناراض اراکین اسمبلی کو پرویز الہٰی آخری لمحات میں منانے میں کامیاب ہوگئے تھے، اگر ایسا نہ ہوتا تو صورتحال وفاقی اتحاد کے حق میں ہوتی‘۔

رانا ثنا اللہ نے نواز شریف کو ایک فون کال کے ذریعے اعتماد کے ووٹ کے دوران پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ق) کے اراکین کو منحرف کرنے میں مسلم لیگ (ن) کی ناکامی کی وجوہات کی وضاحت کی۔

اجلاس کو آگاہ کیا گیا کہ پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ق) کا اتحاد توڑنے میں مسلم لیگ (ن) کی ناکامی کا ایک بڑا سبب پارٹی کا اسٹیبلشمنٹ اور آصف علی زرداری پر زیادہ انحصار ہے۔

پارٹی ذرائع کے مطابق رانا ثنا اللہ نے تجویز دی کہ گورنر پنجاب بلیغ الرحمٰن سمری پر دستخط نہ کریں اور 48 گھنٹے مکمل ہونے کے بعد (ہفتہ کی شام کو) اسمبلی تحلیل ہونے دی جائے۔

تاہم اجلاس میں کسی کی جانب سے بھی اس تجویز کی تائد نہیں کی گئی، ذرائع کے مطابق امکان ہے کہ گورنرپنجاب اسمبلی تحلیل کی سمری پر دستخط کردیں گے۔

’غیر آئینی اقدام‘

اجلاس کے بعد رانا ثنا اللہ نے صحافیوں کو بتایا کہ مسلم لیگ (ن)، پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی جانب سے اسمبلیوں کی تحلیل کے غیر آئینی اقدام کا حصہ نہیں بننا چاہتی۔

خیال رہے کہ عمران خان نے پنجاب اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد خیبرپختونخوا اسمبلی تحلیل کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔

رانا ثنا اللہ نے بتایا کہ ’وزیراعظم نے سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا، ہم نے اسمبلیوں کی تحلیل کے غیر قانونی اور غیر آئینی عمل کا حصہ نہ بننے کا فیصلہ کیا ہے‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’ایک مارشل لا ایڈمنسٹریٹر ماضی میں اسمبلیاں تحلیل کر دیتا تھا اور اب ایک سیاسی آمر (عمران خان) ایسا کر رہا ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے پوری کوشش کی کہ صوبائی اسمبلی کی تحلیل کا حصہ نہ بنیں، اگر پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات ہوئے تو مسلم لیگ (ن) اس کے لیے تیار ہے‘۔

خواجہ آصف نے کہا کہ ’مسلم لیگ (ن) الیکشن میں جانے سے نہیں ڈرتی، اگر اسمبلی تحلیل ہوتی ہے تو ہم پنجاب میں الیکشن کے لیے تیار ہیں، سب دیکھ لیں گے کہ بالاخر عمران خان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے‘۔

عطا اللہ تارڑ نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) آنے والے روز میں کسی بھی قسم کے چیلنج سمیت انتخابات کے لیے بھی پوری طرح تیار ہے’۔

انہوں نے اپنی ہی حکومت تحلیل کرنے پر پی ٹی آئی کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ ’پی ٹی آئی مرکز میں مسلم لیگ (ن) کی زیر قیادت حکومت کو گرانا چاہتی تھی لیکن اس نے پنجاب میں اپنی ہی حکومت کو گھر بھیج دیا‘۔

ان کا کہنا تھا ’ہماری مرکزی قیادت جلد ہی بیرون ملک سے واپس آئے گی، ہماری توجہ اب پارٹی کی آئندہ حکمت عملی پر ہے‘۔

’گورنر پنجاب کی قانونی ماہرین سے مشاورت‘

دریں اثنا گورنر پنجاب بلیغ الرحمٰن نے پنجاب اسمبلی کی تحلیل کی سمری پر اپنی قانونی ٹیم سے مشاورت کی، اس سلسلے میں ان کی (آج) وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات متوقع ہے۔

میڈیا سے گفتگو میں گورنر پنجاب نے کہا کہ ایک جمہوریت پسند انسان کے لیے اسمبلی کو تحلیل کرنا ایک مشکل کام ہے لیکن آئین میں ایسا کرنے کی شق موجود ہے۔

بلیغ الرحمٰن نے کہا کہ ’یہ میرا فرض ہے کہ میں تمام پہلوؤں کا جائزہ لوں، سمری پر دستخط کرنے کا فیصلہ تمام آئینی و قانونی پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا جائے گا‘۔

انہوں نے کہا کہ نگراں سیٹ اپ اور اگلے الیکشن کی تاریخ بھی دینا ہے اس لیے ان تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ کریں گے۔

’پراسرار گمشدگی‘

دوسری جانب پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ ’وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف حمزہ شہباز کو اسمبلی کی تحلیل کے بعد نگراں سیٹ اپ کی تشکیل پر مشاورت کے لیے خط لکھیں گے، تاہم وہ گزشتہ ایک ماہ سے زائد عرصے سے ملک سے باہر ہیں‘۔

حمزہ شہباز کی واپس کے حوالے سے مسلم لیگ (ن) تاحال واضح نہیں ہے، مسلم لیگ (ن) میں حمزہ شہباز کے قریبی رہنما نے بتایا کہ ’اگر حمزہ شہباز فوری طور پر امریکا سے واپس نہیں آئے تو وہ بیرون ملک سے وزیر اعلیٰ پنجاب کے خط کا جواب دے سکتے ہیں‘۔

وزیر اعظم شہباز کے بڑے بیٹے حمزہ شہباز اپنی ’طویل غیر حاضری‘ کی وجہ سے پارٹی میں تنقید کی زد میں آئے، خاص طور پر اس اہم اجلاس کے دوران اُن کی غیرحاضری تنقید کا سبب بنی جس میں وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی نے اعتماد کا ووٹ لیا۔

ان کی غیر موجودگی نے ان قیاس آرائیوں کو جنم دیا کہ شریف خاندان کے اندورنی معاملات کچھ ٹھیک نہیں ہیں، یہ قیاس آرائیاں خاص طور پر پارٹی میں مریم نواز کی بطور چیف آرگنائزر تعیناتی کے بعد زور پکڑ گئیں۔

علاوہ ازیں اسپیکر پنجاب اسمبلی سبطین خان نے ایک نجی نیوز چینل کو بتایا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الہٰی اسمبلی تحلیل کرنے کا فیصلہ واپس لینے پر تب ہی غور کر سکتے ہیں جب وفاقی اتحاد عام انتخابات کی تاریخ دینے پر راضی ہو جائے۔

انہوں نے کہا کہ ’میں نے سنا ہے کہ لندن میں نواز شریف نے اپنی پارٹی کارکنان کو انتخابات کی تیاری شروع کرنے کی ہدایت کی ہے، پنجاب اسمبلی کی تحلیل کے بعد نگراں سیٹ کے لیے اپوزیشن لیڈر سے وزیراعلیٰ مشاورت کریں گے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’اگر 3 روز کے اندر کوئی اتفاق رائے نہ ہوا تو صوبائی حکومت اور اپوزیشن اس حوالے سے نام میرے پاس جمع کرائیں گے جن میں سے نگراں وزیراعلیٰ کے انتخاب کے لیے کوئی ایک نام الیکشن کمیشن کو بھجوایا جائے گا‘۔

دریں اثنا رانا ثنا اللہ نے دعویٰ کیا کہ پرویز الٰہی نے مسلم لیگ (ن) کے کچھ لوگوں سے رابطہ کیا تھا کہ وہ اسمبلی میں وزیراعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد پیش کریں لیکن انہوں نے انکار کردیا۔

سبطین خان نے اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے اسے محض پروپیگنڈہ قرار دیا کیونکہ اپوزیشن کے پاس وزیراعلیٰ کو ہٹانے کے لیے مطلوبہ 186 ووٹ نہیں ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024