• KHI: Zuhr 12:26pm Asr 4:50pm
  • LHR: Zuhr 11:56am Asr 4:20pm
  • ISB: Zuhr 12:01pm Asr 4:25pm
  • KHI: Zuhr 12:26pm Asr 4:50pm
  • LHR: Zuhr 11:56am Asr 4:20pm
  • ISB: Zuhr 12:01pm Asr 4:25pm

دسمبر میں ترسیلات زر میں 19 فیصد کمی

شائع January 14, 2023
ماہرین کے مطابق ترسیلات زر میں کمی کی ایک وجہ ڈالر کی قیمت میں انٹربینک، اوپن اور گرے مارکیٹ میں فرق بھی ہے—فائل/فوٹو
ماہرین کے مطابق ترسیلات زر میں کمی کی ایک وجہ ڈالر کی قیمت میں انٹربینک، اوپن اور گرے مارکیٹ میں فرق بھی ہے—فائل/فوٹو

اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) نے کہا ہے کہ دسمبر 2022 کے دوران بیرونی ترسیلات زر 2 ارب ڈالر رہیں جو گزشتہ برس اسی مہینے کے مقابلے میں 19 فیصد کم ہے۔

سمندر پار پاکستانیوں کی جانب سے نومبر 2022 میں 2.1 ارب ڈالر کی ترسیلات ہوئی تھیں جس میں دسمبر میں 3.2 فیصد گراوٹ ہوئی اور مسلسل چوتھے مہینے ترسیلات زر میں تنزلی ریکارڈ کی گئی۔

رپورٹ کے مطابق بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے آفیشل چینلز کے بجائے دیگر ذرائع سے ترسیلات کے باعث مسلسل چوتھے مہینے میں گراوٹ ہوئی کیونکہ گرے مارکیٹ میں کہیں زیادہ شرح مبادلہ کی پیش کش کی جاتی ہے۔

ڈان ڈاٹ کام کو اسمٰعیل اقبال سیکیورٹیز کے ہیڈ آف ریسرچ فہد رؤف نے کہا کہ ترسیلات زر میں کمی کو امریکی ڈالر کی قیمت میں انٹربینک، اوپن اور گرے مارکیٹ میں قیمت کے فرق سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔

اس وقت انٹربینک میں ڈالر کی قیمت 228 روپے ہے لیکن اوپن مارکیٹ میں قیمت تقریباً 237 روپے اور گرے مارکیٹ میں 250 سے زائد ہے، جس کے نتیجے میں ماہرین کا خیال ہے کہ لوگوں آفیشل چینلز کے بجائے غیرقانونی طریقوں کو ترجیح دے رہے ہیں، جیسا کہ حوالہ اور ہنڈی وغیرہ ہے۔

فہد رؤف نے حکومت پر زور دیا کہ ڈالر کو کھلا رکھیں تاکہ اس کے نتیجے میں برآمد اور ترسیلات زر کی کارکردگی بہتر ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ بنگلہ دیش میں بھی ترسیلات زر میں تیزی سے کمی دیکھی گئی تھی جب اوپن مارکیٹ اور آفیشل ریٹ میں ڈالر کی قیمت 25 ٹکا اضافہ ہوا تھا اور انہوں نے ترسیلات زر کے لیے شرح مبادلہ میں اضافہ کردیا اور اس کے اثرات مثبت پڑے۔

رواں مالی سال میں جولائی سے دسمبر کے دوران مجموعی طور پر 14.1 ارب ڈالر کی ترسیلات زر ہوئی اور گزشتہ برس کے اسی دورانیہ کے مقابلے میں 11.1 فیصد کی کمی ہوئی۔

دسمبر میں ہونے والی ترسیلات زر میں سب سے زیادہ سعودی عرب سے 51 کروڑ 63 لاکھ ڈالر، متحدہ عرب امارات سے 32 کروڑ 87 لاکھ ڈالر، برطانیہ سے 31 کروڑ 42 لاکھ اور امریکا سے 23 کروڑ 5 لاکھ ہوئیں۔

دوسری جانب بینکرز اور کرنسی ایکسپرٹس خبردار کر رہے ہیں کہ انٹربینک میں ڈالر کی مصنوعی قیمت سے پاکستان کو بھاری نقصان ہوسکتا ہے اور انٹربینک میں ڈالر کی کم قیمت سے گرے مارکیٹ مستحکم ہوجاتی ہے جہاں ترسیلات زر کے لیے پرکشش موقع ملتا ہے۔

کارٹون

کارٹون : 19 ستمبر 2024
کارٹون : 17 ستمبر 2024