پنجاب کی بدلتی سیاست: کوئی تو ہے جو سجے دکھا کر کھبے مار رہا ہے
پنجاب کی صورتحال پر ایک پنجابی جملہ جو دماغ میں آیا وہ یہ کہ کوئی تو ہے تو سجے دکھا کر کھبے مار رہا ہے۔
عمران خان شاید بنے ہی سب کو غلط ثابت کرنے کے لیے ہیں۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے کچھ اندازے اور تجزیوں کی مثالوں کو شامل کرتے ہیں۔
کہا گیا کہ وہ قومی اسمبلی میں واپس آئے گا،
مگر نہیں آیا۔
وہ صوبائی اسمبلیاں نہیں توڑےگا،
پرویز الہٰی ساتھ نہیں دےگا،
ساتھ دیا۔
ق لیگ ٹوٹ جائےگی،
نہیں ٹوٹی۔
پی ٹی آئی فارورڈ بلاک بنےگا،
نہیں بنا۔
اعتمادکا ووٹ نہیں لیا جاسکےگا، لے لیا۔
کون کہتا تھا کہ عمران خان کو سیاست نہیں آتی؟
سچ لکھنے میں شرمندگی کیا، کل شام تک ایک انٹرویو کے دوران میرا تجزیہ بھی یہی تھا کہ اسمبلیاں ٹوٹتی نظر نہیں آرہیں، لیکن پھر جو ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ سب کیسے ہوا اور کیونکر ہوا اور اب آگے کیا ہوگا؟
10 اپریل 2022ء سے 12 جنوری 2023ء کے درمیان بہت کچھ ہوا، وہ بھی ہوا جو نہیں ہونا چاہیے تھا۔ خان کو قابو کرنے کے لیے ہر حربہ استمال کیا۔ جان سے مارنے کی کوشش، نااہل کردینے کی دھمکیاں، پارٹی توڑنے کی کوشش، پارٹی رہنماوں کو خریدنے کی بولیاں، دہشتگردی کے پرچے، توہینِ مذہب کے الزام اور پھر سب سے بڑھ کر خود بقول خان صاحب کے گندی گندی آڈیو لیکس اور ویڈیوز جاری کرنے کی دھمکیاں۔
مگر عمران خان سب کا مقابلہ کرتے رہے لیکن یہ کہنا غلط ہوگا کہ اکیلا کرتا رہا کیونکہ چند ساتھیوں کی وفاداری و محبت ساتھ رہی جن میں سرِفہرست فواد چوہدری جو مرد آہن کی طرح ساتھ کھڑے تھے اور میڈیا میں بھرپور دفاع کرتے رہے۔ ان کے بعد اسد عمر، زلفی بخاری، مراد سعید اور دیگر کچھ نام بھی موجود ہیں۔
17 دسمبر کو جب عمران خان نے پنجاب اور خیبرپختوانخوا کے وزرائے اعلیٰ کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے 23 دسمبر کو اسمبلیاں توڑنے کے اعلان کیا تو اس کے بعد چیئرمین تحریک انصاف پر دباؤ شدت اختیار کرگیا، خاص کر دوسرے ہی دن چوہدری پرویز الہی کے فرمائشی انٹرویو کے بعد، جس میں انہوں نے واضح طور پر بتایا کہ اسٹیبلشمنٹ نہیں چاہتی کہ اسمبلیاں ٹوٹیں لیکن اس بار وہ نہیں ہوا جو اسٹیبلشمنٹ چاہتی تھی بلکہ وہ ہوا جو عمران خان چاہتے تھے۔
اس دوران مسلم لیگ (ن) طنزاً کہتی رہی کہ اگر مگر چھوڑیں، بس اسمبلیاں توڑیں۔
اس تمام کھیل کے بعد مجھے اس تھیوری پر یقین ہوتا جارہا ہے کہ کوئی تو ہے جو سجے دکھا کر کھبے مار رہا ہے۔ پرویز الہیٰ کی جانب سے اعتماد کا ووٹ لینے سے پہلے جو مسلم لیگ (ن) کو اعتماد حاصل تھا آخر وہ کہاں سے آیا تھا؟
پھر میڈیا میں بڑے بڑے رابطے رکھنے والے صحافیوں کے تجزیے بھی یہی تھے کہ پنجاب خان صاحب کے ہاتھوں سے نکل جائے گا اور وہاں ایک بار پھر (ن) لیگ کی حکومت بن جائے گی۔ اسی طرح زرداری صاحب کے خاص الخاص کی لاہور آمد۔ کوئی تو تھا جو یہ اعتماد دے رہا تھا اور ضرورت سے زیادہ دے رہا تھا۔
کیا اب بھی کسی کو شک ہے کہ اگلی اسمبلیاں ٹوٹیں گی، نئے انتخابات ہوں گے اور دو تہائی اکثریت سے تحریک انصاف سے حکومت بنائے گی؟
پنجاب فتح کرنے کے بعد وفاق میں انتخابات جب بھی ہوں خان صاحب کی وفاق میں واپسی کوئی نہیں روک سکتا۔ ویسے یاد آیا کہ وزیرِاعظم اور ’ دیگر’ کو جب دیار غیر میں یہ اطلاع ملی ہوگی تو ایک لمحے ہی کو سہی آنکھوں کے آگے اندھیرا تو آیا ہوگا، پیروں تلے زمین تو کھسکی ہوگی۔ صرف یہی سوچ کر نہیں کہ خان جیت گیا بلکہ یہ سوچ کر بھی کہ لندن میں کیا منہ دکھائیں گی کیونکہ ذرائع کے مطابق پرویز الہیٰ کے اعتماد کا ووٹ لینے پر بھی کافی عزت افزائی ہوئی تھی۔
پنجاب اسمبلی تحلیل کرنے سے متعلق سمری پر دستخط اور گورنر پنجاب تک پہنچائے جانے کے بعد آئین کے تحت کل رات پنجاب اسمبلی ٹوٹ جائے گی اور 90 دن کے اندر الیکشن کمیشن پر نئے انتخابات کرانا لازم ہے۔ کل کے بعد نگراں حکومت کے قیام پر کام ہوگا۔ جس کے لیے پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز کو پیغام پہنچا دیا ہے کہ آئیے مذاکرات کیجیے۔
ویسے تو سب جانتے ہیں کہ یہ مذاکرات بے نتیجہ نکلیں گے اور نگراں سیٹ اپ ’بوائز‘ ہی لگائیں گے الیکشن کمیشن کے۔
لیکن اب طے کرنا ہے کہ پاکستان پر ایک اور تجربہ کرنا ہے کہ 2 صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات الگ اور وفاق اور باقی 2 کے الگ ہوں گے یا پاکستان کو مزید تجربات کی بھینٹ نہیں چڑھانا اور پورے ملک میں قبل از وقت انتخابات کرانے ہیں۔
آخری بات یہ کہ اس امتحان میں سرخرو ہوکر مونس الہیٰ نے سیاست میں اپنا مستقبل محفوظ کرلیا، اب وہ کیا کچھ حاصل کرسکتے ہیں، یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا۔
تبصرے (6) بند ہیں