• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

صدر علوی نے عمران خان اور جنرل باجوہ کے درمیان اختلافات کی وجہ ’سوشل میڈیا‘ کو قرار دے دیا

شائع January 12, 2023
— فوٹو: بی بی سی / ویب سائٹ
— فوٹو: بی بی سی / ویب سائٹ

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا ہے کہ سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان اور سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے درمیان اختلافات کی بڑی وجہ سوشل میڈیا تھا۔

بی بی سی اردو کو انٹرویو دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ غلط فہمیاں پیدا ہونے کی وجہ سوشل میڈیا کو غیرضروری اہمیت دینا تھا، دونوں میں اختلافات کی دیگر وجوہات میں سے ایک اہم وجہ سوشل میڈیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ملک میں فیصلہ ساز قوتیں سوشل میڈیا کو صحیح طریقے سے ’ہینڈل‘ نہیں کر پاتیں۔

صدر ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ وہ تمام معاملات میں اختلافات کم کرنے کی کوشش کرتے رہے، اور آئندہ بھی کریں گے، سوشل میڈیا کو جب ہم ضرورت سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں تو خرابی پیدا ہوتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں یوٹیوب دو سال تک بند رہا، اس کی وجہ یہ تھی کہ رائے بنانے والے لوگ اس کو سنبھال نہیں سکے۔

ڈاکٹر عارف علوی نے مزید کہا کہ ملک میں فیصلہ کرنے والے افراد سوشل میڈیا کو درست طریقے سے ہینڈل نہیں کر پا رہے، میرے خیال میں بہتر انداز میں ہینڈل کرنا چاہیے۔

عمران خان اور سابق آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کے درمیان تعلقات کے پس منظر میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ یہ تو سب میڈیا میں موجود ہے، میرے پاس کوئی خاص معلومات نہیں ہیں۔

ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ کچھ غلط فہمیاں تھیں، جو عوام میں بھی آ رہی تھیں، میری کوشش ہوتی تھی کہ غلط فہمیاں ختم ہوں، (مطلب) بیٹھو، بات کرو اور آگے بڑھو، صدر پاکستان کے طور پر میری آئینی ذمہ داری ہے کہ فیڈریشن کو اکٹھا کروں۔

انہوں نے سیاسی جماعتوں اور اسٹیبلشمنٹ کو تجویز دیتے ہوئے کہا کہ تعاون اختلاف سے بہتر ہے، یہ پاکستان کے لیے ضروری ہے، پبلک میں بھی اور پرائیوٹ بھی سب کو یہی نصیحت کرتا ہوں۔

بی بی سی کے مطابق ان سے سوال پوچھا گیا کہ کیا پی ٹی آئی چیئرمین اور جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کے درمیان تنازع کی بڑی وجہ ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی کی تعیناتی تھی؟ اس کے جواب میں عارف علوی نے بتایا کہ وہ کسی ایک خاص شخص یا واقعے کی بات نہیں کریں گے۔

ڈاکٹرعارف علوی نے کسی کا نام لیے بغیر کہا کہ تمام جماعتیں ہی سخت رویے کا اظہار کر رہی تھیں اور ان کا مشورہ نہیں مانا گیا۔

صدر مملکت نے مزید کہا کہ میری بات سنی گئی ہوتی تو زیادہ بہتر ہوتا، اس وقت کے سروے دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ ساری قوم یہی کہہ رہی تھی کہ بات چیت کی جائے، مجھے سمجھ نہیں آیا کہ کون زیادہ متذبذب تھا، میں کہتا ہوں کہ درگزر کرو تو لوگ ایسا کر نہیں پاتے۔

بی بی سی نے بتایا کہ ڈاکٹر عارف علوی نے کسی فرد واحد کا نام نہیں لیا کہ وہ پی ٹی آئی چیئرمین کی بات کر رہے ہیں یا سابق آرمی چیف کی، تاہم ان کا یہ ضرور کہنا تھا کہ ’سیاسی میدان میں آج ہر کوئی بدلہ ہی لے رہا ہے‘۔

ان سے سوال کیا گیا کہ کیا ان خبروں میں صداقت ہے کہ ان کی جانب سے منعقد کروائی گئی ملاقاتوں میں پاکستان تحریک انصاف سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو مزید توسیع دینے کے لیے قائل کرنے کی کوشش کر رہی تھی، جس پر عارف علوی کا کہنا تھاکہ’میں ان باتوں سے واقف نہیں کہ کیا پیش کش تھی’۔

انہوں نے مزید کہا کہ میں نے یہ کہا تھا کہ مل بیٹھ کر غلط فہمیاں دور کی جائیں، کوئی بھی جماعت ہو، اپوزیشن، حکومت یا اسٹیبلشمنٹ، میں کردار ادا کرنے کو تیار ہوں کہ لوگ قریب آئیں۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024