حکومت پنجاب سپورٹ پرائس کے اعلان میں ہچکچاہٹ کا شکار، گندم بحران سنگین ہونے کا خدشہ
پاکستان کسان اتحاد کے صدر نے کہا ہے کہ حکومت پنجاب کی جانب سے کھاد پر سپورٹ پرائس کا اعلان نہ کرنے اور کھاد کی بلیک مارکیٹ کے سبب گندم کا بحران شدید تر ہوگیا ہے لہٰذا حکومت ملک بھر میں زرعی ایمرجنسی نافذ کرے۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق پاکستان کسان اتحاد کے صدر خالد محمود کھوکھر نے لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ حکومت کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان گندم درآمد کرنے والا ملک بن چکا ہے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ اگر ان پالیسیوں میں فوری طور پر اصلاح نہیں کی گئی تو رواں سال ملک کو مزید گندم درآمد کرنا ہوگی۔
انہوں نے اصرار کیا کہ زائد قیمت پرگندم درآمد کرنے سے پاکستان مقامی کاشتکاروں کی قربانی دے کر غیر ملکی کسانوں کی مدد کر رہا ہے۔
خالد محمود کھوکھر نے مزید کہا کہ سندھ نے 4 ہزار روپے فی من گندم کی سپورٹ پرائس کا اعلان کیا ہے لیکن افسوس کی بات ہے کہ ابھی تک پنجاب اور خیبرپختونخوا نے ایسا نہیں کیا، دو صوبوں کے کسانوں نے گندم کی کاشت کے علاقے میں اضافہ نہیں کیا کیونکہ فی الحال وہ سپورٹ پرائس کے حوالے سے لاعلم ہیں۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ گندم کی اسمگلنگ کو روکنے کے لیے پنجاب حکومت کو گندم کی سپورٹ پرائس فوری طور پر 4 ہزار روپے فی من مقرر کرنی چاہیے۔
پاکستان کسان اتحاد کے صدر نے کہا کہ نومبر میں گندم کی جو فصل بوئی گئی تھی، کھاد کی قلت کی وجہ سے وہ بہت کمزور ہوتی دکھائی دے رہی ہے جس کا مطلب ہے کہ رواں سال گندم کی فی ایکڑ پیداوار بہت کم ہوگی۔
خالد محمود کھوکھر نے کہا کہ نومبر 2022 میں گندم کی بوائی کے دوران ڈی اے پی قیمت 14 ہزار تھی جو گزشتہ ربیع کے سیزن میں 6 ہزار روپے تھی۔
انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت ڈی اے پی فرٹیلائزر (کھاد) پر سبسڈی دینے میں کسانوں کو مدد فراہم نہیں کر رہی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ جنوری میں حکومت نے کھاد کے 2 یونٹ بند کردیے ہیں جس سے گندم کی فصل متاثر ہوگی۔
خالد محمود کھوکھر نے سوال کیا کہ پاکستان میں گندم کی پیداواری قیمتوں میں اضافے کے بجائے حکومت دیگر ممالک سے اضافی قیمتوں میں گندم درآمد کرکے غیر ملکی کسانوں کو فائدہ کیوں فراہم کر رہی ہے؟ حکومت خود انحصاری اور فوڈ سیکیورٹی میں دلچسپی کیوں نہیں لے رہی؟
انہوں نے افسوس کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ بلیک مارکیٹ میں یوریا کے فی تھیلے کی سرکاری قیمت 2 ہزار 440 کے مقابلے 3 ہزار روپے میں فروخت ہو رہا ہے اور اس کے باوجود یہ کسانوں کو میسر نہیں ہے۔
انہوں نے زور دیتے ہوئے کا کہ حکومت فوری طور پر تمام یوریا صنعتوں میں اپنی سپلائی بحال کرنے کا حکم دے۔
پاکستان کسان اتحاد کے صدر نے مزید کہا کہ حکومت اب ڈی اے پی میں جی ایس ٹی پر بات کر رہی ہے جو گندم اور دیگر فصلوں کے لیے تباہ کن ثابت ہوگا، پڑوسی بھارت سمیت دیگر ممالک کی طرح کسانوں کو براہ راست سبسڈی فراہم کی جائے۔
انہوں نے ٹیوب ویل کے لیے بجلی پر جی ایس ٹی ختم کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔
جی ایس ٹی اور دیگر ٹیکس کھیتی باڑی کے شعبے پر عائد ہوتا ہے جس سے ان کسانوں کو نقصان ہورہا ہے جو مہنگی زراعتی اشیا کو نقد رقم میں خریدنے سے بھی قاصر ہیں۔
خالد محمود کھوکھر نے زور دیتے ہوئے کہا کہ گندم، کپاس اور دیگر فصلوں کے لیے نئے جدید قسم کے بیجوں کی پیداوار کے لیے نئی تحقیق اور پیشرفت کی ضرورت ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ دیگر ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں پاکستان میں گندم اور چاول کے لیے فی ایکڑ زراعتی پیداوار نصف سے بھی کم ہے، اگر حکومت بیجوں کی تحقیق اور ترقی پر توجہ دے تو پیداوار کے فقدان کو کم کیا جاسکتا ہے۔
خالد محمود کھوکھر نے کہا کہ پاکستان کو اپنی خوراک خود پیدا کر کے زرمبادلہ کے ذخائر کو محفوظ کرنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان 14 ارب لاگت کی گندم، کپاس، دالیں، چائے کی پتی اور مرچوں کے علاوہ دیگر زراعتی اشیا درآمد کرتا ہے اور اگر کسان دوست پالیسیاں متعارف کروائی جائیں تو اس درآمدی بل میں 50 فیصد کمی آسکتی ہے۔