پی ٹی آئی نے وائٹ پیپرمیں حقیقت کے برعکس چیزیں دکھائیں، وزیر خزانہ
وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے حکومت کے خلاف جاری کیے گئے وائٹ پیپر کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کی معاشی صورت حال سے متعلق چند چیزیں حقائق کے برعکس دکھائی گئیں۔
اسلام آباد میں وفاقی وزرا کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے کہا کہ پی ٹی آئی نے دعویٰ کیا کہ جب 2018 میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت ختم ہوئی تھی تو مالیاتی قرضہ جی ڈی پی کا 7.6 فیصد تھا جو کہ بالکل غلط بیانی ہے کیونکہ جب ہم نے اس وقت حکومت چھوڑی تو مالیاتی خسارہ 5.8 فیصد تھا۔
’پی ٹی آئی نے 2019 میں مالیاتی خسارے میں 7.9 فیصد اضافہ کیا‘
اسحٰق ڈار نے کہا کہ تحریک انصاف نے ایک اور دعویٰ کیا کہ مالیاتی خسارے کو ایک ہی سال میں 3.7 کھرب سے بڑھا کر 5.5 کھرب تک ٹیکس لگا کر جی ڈی پی کا 5.5 فیصد کر دیا گیا۔
اسحٰق ڈار نے کہا حقیقت یہ ہے کہ 2019 میں پی ٹی آئی نے مالیاتی خسارہ 7.9 فیصد بڑھایا حالانکہ ہم نے مالی سال 2018 میں وہ خسارہ 5.8 فیصد پر چھوڑا تھا ۔
ان کا کہنا تھا کہ جب اگست 2018 میں پی ٹی آئی نے حکومت سنبھالی تو پالیسی ریٹ 7.5 فیصد تھی جو جولائی 2019 میں 575 بیسز پوائنٹس بڑھ کر 13.25 ہو گئی، اس لیے 325 بیسز پوائنٹس کی بنیاد پر ڈسکاؤنٹ ریٹ میں اضافے کا دعویٰ بے بنیاد اور حقائق کے منافی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی نے جو ٹیکس کی بات کی ہے وہ اعداد و شمار بھی کم بتائے گئے ہیں کیونکہ ہم نے مالی سال 2018 میں 3843.8 ارب کے ٹیکس وصول کیے جبکہ انہوں نے 3828.5 ارب کے ٹیکس وصول کیے یعنی اس میں بھی 0.4 فیصد کمی ہے۔
اسحٰق ڈار کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی نے کہا کہ ہمیں اقتدار دیا جائے تو ہم ایک سال میں دوگنا ٹیکس وصول کریں گے یعنی 8 ہزار ارب سے زیادہ ٹیکس لینے کا دعویٰ کیا گیا تھا جو کبھی مکمل نہیں ہوا۔
’2018 میں معاشی ترقی 6.1 فیصد تھی‘
اسحٰق ڈار نے کہا کہ پی ٹی آئی نے دعویٰ کیا تھا کہ ترقی کی نمو 1.4 فیصد تک نیچے چلی گئی ہے جبکہ مہنگائی میں 10.5 فیصد اضافہ ہوا ہے مگر یہ اعداد و شمار بھی غلط بتائے گئے ہیں کیونکہ مالی سال 2018 میں معاشی ترقی 6.1 فیصد تھی۔
انہوں نے کہا کہ مالی سال 2019 میں پی ٹی آئی کی اپنی ترقی کی شرح 3.12 فیصد تک گر گئی تھی۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) نے پرانی بیس کی بنیاد پر 2018 میں مہنگائی کی شرح 3.9 فیصد چھوڑی جو نئی بیس پر 4.7 فیصد تھی جبکہ پی ٹی آئی کے پہلے سال پرانی بیس کی بنیاد پر مہنگائی کی شرح 7.3 فیصد اور نئی بیس کی بنیاد پر 6.8 فیصد تھی۔
انہوں نے کہا کہ جب پی ٹی آئی نے حکومت لی تو پالیسی ریٹ 7.5 فیصد تھی اور جب ہم نے حکومت چھوڑی تھی تو یہ 6.5 فیصد پر تھا۔
اسحٰق ڈار نے کہا کہ جب نگران حکومت نے اقتدار پی ٹی آئی کے حوالے کیا تو پالیسی ریٹ 7.5 تھا اور پی ٹی آئی حکومت نے جولائی 2019 تک اس کو 13.25 پر لے گئے جو کہ 575 بیسس پوائنٹس کا اضافہ تھا لہٰذا پی ٹی آئی کا اس حوالے سے بھی بیان غلط ہے۔
وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ پی ٹی آئی نے دعویٰ کیا کہ 50 لاکھ ملازمتیں پیدا کی گئیں جو کہ حقیقت کے برعکس ہے کیونکہ اعداد و شمار کے مطابق ہر حکومت میں 32 لاکھ نوکریاں پیدا کی جاتی ہیں اور 2019 سے 2012 کے درمیان 32 لاکھ ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوئے ہیں۔
’حکومت نے 6 ماہ کے دوران 3 ہزار 429 ارب اکٹھے کیے‘
وزیر خزانہ نے کہا کہ گزشتہ حکومت کے برعکس موجودہ حکومت نے 6 ماہ کے دوران 3 ہزار 429 ارب اکٹھے کیے ہیں کیونکہ انہوں نے جون تک آدھے مالی سال میں 2 ہزار 920 ارب اکٹھے کیے، جس کا مطلب ہے کہ ایف بی آر نے 17.20 فیصد کی پیش رفت کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ مالی سال 2023 کے 30 جون تک 7 ہزار 440 ارب ٹیکس اکٹھا کرنے کا ہدف ہے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ تحریک انصاف کی حکومت نے اپنے ابتدائی تین سالہ حکومت میں ہم پر شدید تنقید کی کہ ہم نے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 19.2 ارب پر چھوڑا تھا لیکن اب پی ٹی آئی کی حکومت بھی جاتے جاتے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 17.3 ارب پر چھوڑ گئے ہیں۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ نواز شریف کی قیادت میں چلنے والی مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے آپریشن ضرب عضب اور ردالفساد لڑا اور اندرونی سیکیورٹی معاملات حل کرنے کے لیے مالی معاونت کی اور اس کے علاوہ سب سے اہم معاملہ لوڈشیڈنگ تھا وہ بھی ختم کیا۔
انہوں نے کہا کہ اگر مالی سال 2017-18 کے تحت بنائے گئے برآمدات ماڈل پر چلتے تو 247 ارب میں 12.7 فیصد کی برآمدات ہو سکتی تھیں اور مہنگائی کا طوفان لانے کے بغیر 16 برس تک گزار سکتے تھے۔
جی ڈی پی نمو پر بات کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ ہم نے اوسط 4 اعشاریہ 5 فیصد سے شروع کرکے 6 عشاریہ ایک فیصد پر ختم کی اور اگر اوسط نکالی جائے تو 5 سال میں ہماری جی ڈی پی نمو 4 اعشاریہ 7 فیصد ہے جبکہ پی ٹی آئی کی اوسط 4 سالہ نمو 3.5 فیصد ہے۔
انہوں نے کہا کہ ڈالر کی مد میں ہم نے جی ڈی پی میں 112 ارب ڈالر اضافہ کیا جبکہ تحریک انصاف نے اپنے پورے دور میں صرف 61 ارب ڈالر کا اضافہ کیا۔
مہنگائی کے حوالے سے کنزیومر پرائس انڈیکس (سی پی آئی) پر بات کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا ہماری حکومت میں سی پی آئی کی اوسط مہنگائی کی شرح 5.1 فیصد اور غذائی اشیا میں مہنگائی کی شرح اوسط 4.5 فیصد تھی، تاہم تحریک انصاف کے دور میں یہ بالترتیب 9.7 اور 11 فیصد تھی۔
انہوں نے کہا کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ 2013 سے لے کر 2018 تک کی مدت میں مسلم لیگ (ن) کی میکرو اکنامک صورت حال کی تعریف، تصدیق اور تائید بین الاقوامی اداروں نے بھی کی ہے، 2016 میں پاکستان کو دنیا کی 24ویں بڑی معیشت کا اعزاز حاصل ہوا اور 2030 کے اختتام تک پاکستان کو گروپ۔20 کا رکن بننے کی پیش گوئیاں بھی ہوئیں۔
’نواز شریف کے سامنے پی ٹی آئی کے لوگوں کی لائنیں لگی تھیں‘
وزیر خزانہ نے کہا کہ پی ٹی آئی کی حکومت کی چار سالہ ناقص اور بدانتظامی پر مبنی پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان کی معیشت بری طرح متاثر ہوئی، 2021 میں عالمی بینک کی فہرست میں پاکستان کی معیشت 41 ویں نمبر پر تھی جبکہ 2022 میں اکنامک ریسرچ یوکے کی رینکنگ میں 47 ویں پوزیشن پر آئی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان کبھی ڈیفالٹ نہیں کرے گا، افواہیں پھیلانا بند کی جائیں، جن کو زیادہ شوق ہے وہ اپنے سیاسی شوق کو پورا کرنے کے لیے اس طرح کی مہم میں ناکام ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ لندن میں نواز شریف کے سامنے پی ٹی آئی کے لوگوں کی لائنیں لگی تھیں مگر ہم نے ملک کو بچانا تھا۔
’ریاست کو ڈیفالٹ اور سری لنکا بننے سے بچایا ہے‘
اسحٰق ڈار نے کہا کہ ہم نے ریاست کو ڈیفالٹ اور سری لنکا بننے سے بچایا ہے، ہم نے اپنی سیاست کی قربانی دی ہے، اتحادی جماعتوں نے مل کر ملک کو ڈوبنے سے بچایا۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ پی ڈی ایم کی حکومت نے تیل کی قیمتیں آئی ایم ایف کے ساتھ کی گئی شرائط کی وجہ سے بڑھائیں۔
اسحٰق ڈار نے کہا کہ حکومت نے جان بچانے والی ادویات کے لیے ایل سیز کھولنے کا کہا ہے، ادویات اور خوراک کی درآمد پہلی ترجیح اور پیٹرولیم مصنوعات دوسری ترجیح ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ چین اور سعودی عرب سے بہت جلد اچھی خبریں آئیں گی اور جن لوگوں نے ملک کو جس بھنور میں چھوڑا تھا ہم نے اس کو اس گرداب سے نکالا ہے۔
ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ آ ئی ایم ایف کے ساتھ 9 ویں جائزے پر بات چیت جاری ہے اور اسی مہینے میں مکمل ہوجائے گا۔