• KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm

ایم کیوایم پاکستان حلقہ بندیوں کے معاملے پر جماعت اسلامی کو بھی قائل کرنے میں ناکام

شائع January 4, 2023
خالد مقبول صدیقی نے کہا جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم سمجھتی ہے کہ بنیادی جمہوریت کے بغیر جمہوریت کی موجودگی ادھوری سی ہے — فوٹو: ڈان نیوز
خالد مقبول صدیقی نے کہا جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم سمجھتی ہے کہ بنیادی جمہوریت کے بغیر جمہوریت کی موجودگی ادھوری سی ہے — فوٹو: ڈان نیوز

متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے وفد نے کراچی میں حلقہ بندیوں کے حوالے سے جماعت اسلامی کے رہنماؤں سے ملاقات کی تاہم وہ حافظ نعیم الرحمٰن کو قائل نہیں کر سکے، جن کا کہنا ہے کہ حلقہ بندیوں کے حوالے سے ہمارے تحفظات ہیں لیکن انتخابات وقت پر ہونے چاہئیں۔

ادارہ نورِ حق میں جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمٰن کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے ایم کیو ایم پاکستان کے کنوینر خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم سمجھتی ہے کہ بنیادی جمہوریت کے بغیر جمہوریت کی موجودگی ادھوری سی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہماری بدنصیبی یہ ہے کہ جن ادوار میں بھی جمہوریت رہتی ہے، اس زمانے میں بنیادی جمہوریت بڑے سوالات اور قدغن لگے ہوئے ہوتے ہیں، پاکستان کی مورثی سیاست، خاندانی حکومتیں بنیادی حکومتوں (تھرڈ ٹیئر) کو اپنے لیے خطرہ سمجھتی ہیں۔

خالد مقبول صدیقی کا کہنا تھا کہ بلدیاتی انتخابات جو کراچی اور حیدر آباد میں ہونے جارہے ہیں، ہمارا نکتہ نظر یہ ہے کہ اس میں انتخابات سے قبل پہلے ہی دھاندلی ہو چکی ہے، پہلے ہی کراچی کو آدھے سے کم گنا گیا ہے، ووٹر لسٹ بھی کنفیوژنگ ہے، کراچی اور حیدر آباد میں دو حتمی ووٹر لسٹیں موجود ہیں، اس کے علاوہ سب سے بڑا ہاتھ حلقہ بندیوں میں دکھایا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کراچی کے ایسے علاقے جہاں پر جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم پاکستان کے ووٹر زیادہ بڑی تعداد میں ہیں، وہاں حلقہ بندیاں 80 سے 90 ہزار افراد اور بعض صورتوں میں اس سے بھی زیادہ کی یونین کونسلیں بنی ہیں، کراچی میں ایسی یونین کونسلیں بھی ہیں جو 20 سے 25 ہزار افراد پر مشتمل ہیں، بعض جگہ پر 40 ہزار افراد پر یو سی بنی ہے لیکن وہاں پر ووٹرز کی تعداد صرف 2 ہزار ہے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ نارتھ ناظم آباد میں ایک یو سی ایسی بھی ہے جہاں پر 72 ہزار کی آبادی اور ووٹرز کی تعداد 75 ہزار ہے، بہت سارے قانونی نکات اور اعداد و شمار یہ بات ثابت کرتے ہیں کہ کراچی اور حیدر آباد میں پہلے ہی دھاندلی ہو گئی ہے، اگر کچھ کسر رہ گئی ہے تو الیکشن والے دن ہوگی۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں کہ انتخابات وقت پر ہوں اور تسلسل کے ساتھ ہوں لیکن شرط یہ ہے کہ وہ شفاف اور دیانتداری سے ہوں اور سب کو برابری کا موقع ہے، جو کہ اس حالات میں ہمیں نہیں لگتا کہ ہمیں میسر ہے، خاص طور پر سندھ کے شہری علاقوں کو، ہم عدالتوں میں بھی گئے ہیں، مذاکرات بھی کیے ہیں اور بات چیت کا پورا موقع دیا ہے، شاید ضرورت اس بات کی ہے کہ عوامی رائے کو ہموار کرنے کے لیے اب احتجاج کریں جو آئینی و قانونی حق ہے، ہم حلقہ بندیوں کے حوالے سے 9 جنوری کو احتجاج کرنے جا رہے ہیں۔

خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ جس طرح ہم متاثر ہیں، جماعت اسلامی بھی متاثر ہے، ان کے پاس آئے تھے، ہمیں ان کا نکتہ نظر بڑی وضاحت سے پتا ہے، سوال یہی چھوڑ کر جارہے ہیں کہ کیا اس حلقہ بندیوں کے بعد انتخابات کے نتائج قابل قبول ہوں گے؟ ایک دھاندلی ہو چکی ہے اور کیا وہ انتخابات مفید بھی ثابت ہوں گے، گزارشات لے کر آئے تھے، انتظار کریں گے، انہوں نے بڑی ہمدری کے ساتھ ہماری باتیں سنی ہیں، کئی چیزوں پر ہمارا اتفاق ہے، شاید ترجیحات تھوڑی سی مختلف ہوں۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے پیپلزپارٹی کے ساتھ مذاکرات جاری ہے۔

انتخابات ملتوی کرنا کسی صورت درست نہیں سمجھتے، حافظ نعیم

جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمٰن کا کہنا تھا کہ جہاں تک بلدیاتی انتخابات کا تعلق ہے، 2009 سے 2015 تک بلدیاتی انتخابات نہیں ہوئے، پیپلز پارٹی کی حکومت 2008 سے 2013 تک وفاق میں بھی رہی تھی اور ایم کیو ایم ان کی اتحادی تھی، 2013 میں بلدیاتی ایکٹ آیا تھا، لیکن اس پورے عرصے میں بلدیاتی انتخابات نہیں ہوئے اس پورے عرصے میں عدالت اور الیکشن کمیشن کے ذریعے لڑ جھگڑ کر اس وقت انتخابات ہوئے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ ملک کا المیہ ہے کہ ایک چیز کو درست کرنے جاتے ہیں تو دوسری چیز سامنے آجاتی ہے، دوسری کو درست کرتے ہیں تو تیسری آتی ہے، لیول پلیئنگ فیلڈ تو پاکستان کے عوام کو حاصل ہی نہیں ہے۔

حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ المیہ ہے کہ آمروں کے زمانے میں تو بلدیاتی انتخابات ہو جاتے ہیں لیکن جمہوری حکومتیں، بڑی بڑی جماعتیں انتخابات کرانے سے گریزاں ہوتی ہیں، ایسا لگتا ہے کہ یہ اپنے ہی لوگوں کو جو جیت سکتے ہیں، انہیں بھی اختیار نہیں دینا چاہتے، یہ سب ہی بڑی جماعتوں کا حال ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہاں ووٹر لسٹیں کبھی درست نہیں ہوتیں، اس کے لیے ہم بھی 2013 میں سپریم کورٹ گئے تھے، ہم نے بہت ساری چیزیں نکالیں اور اسے درست کروانے کی کوشش کی، فیصلہ بھی ہو گیا لیکن پھر ویسے ہی لسٹ بن گئی، انتخابات پھر بھی ہوئے، 2013، 2015، 2018 اور سارے ضمنی انتخابات بھی ہوئے، جس میں ساری جماعتیں حصہ لے رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 2018 میں غیر منظور شدہ مردم شماری پر انتخابات تو ہو گئے، اس میں سب نے حصہ لیا، اس لیے کہ انتخابات کا ہونا، انتخابات کے نہ ہونے سے بہت بہتر ہوتا ہے، اختیار مل جائے تو بہت اچھی بات ہے۔

حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے ہمارا نکتہ نظر بہت واضح ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ لڑائی لڑنی چاہیے، ہم نے 29 دن کا دھرنا دیا، اب بھی ہم کہتے ہیں کہ مکمل اختیار ہونا چاہیے اور اختیارات کا ہونا انتخابات کے انعقاد کے راستے میں رکاوٹ بھی نہیں ہے، جس دن انتخاب ہو رہا ہو اس دن بھی اختیارات مل سکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ حلقہ بندیوں کے حوالے سے ہمارے تحفظات ہیں، ہم نے اس کے لیے بہت لڑائی کی، عدالت میں گئے، الیکشن کمیشن میں بات کی، لیکن ان حلقہ بندیوں اور ووٹر لسٹ جو طویل عرصے سے خراب چل رہی ہے، اس کی نشاندہی کرنے کے باوجود ہمارا نکتہ نظر یہ ہے کہ کراچی شہر اپنا میئر چاہتا ہے، اپنے ٹاؤن کے چیئرمین چاہتا ہے تاکہ ہم گلی محلوں کے مسائل حل کریں۔

انہوں نے کہا کہ جو جماعت بھی بلدیاتی انتخابات جیت کر آئے گی اس کے پاس منتخب ہونے کا اتنا بڑا کریڈٹ ہوگا، اب یہ ویسے بھی عام بلدیاتی انتخاب نہیں رہا، پورے پاکستان کی نظریں کراچی کے بلدیاتی انتخاب پر ہیں، اگر وہ قوت صحیح معنوں میں آتی ہے اور اگر اپوزیشن بھی کرنی پڑے اس میں اتنا زبردست ٹف ٹائم دیا جاسکتا ہے کہ اختیار کی جنگ مزید قوت سے لڑی جاسکتی ہے، انتخابات کو ملتوی کرنا کسی صورت درست نہیں سمجھتے۔

امیر جماعت اسلامی کراچی کا کہنا تھا کہ ہمیں اس بات سے بالکل اتفاق نہیں ہے کہ انتخابات کو کسی بھی صورت میں ملتوی کیا جائے، ہم چاہتے ہیں کہ اب جو بھی ہے انتخابات ہوں، اور کراچی کے حق اور اختیار کی لڑائی وہ جماعتیں اپنے اپنے پلیٹ فارم سے لڑیں، جس کو عوام زیادہ سپورٹ کرے گی وہ زیادہ قوت سے لڑ سکے گا۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں بعض چیزوں سے ایسی سازش کی بو بھی آرہی ہے کہ جس کے نتیجے میں کہیں ایسا نہ ہو کہ پچھلی دفعہ کی طرح دو، چار سال مزید آگے بڑھانے کی کوشش کریں، فیصلہ کیا ہے کہ کل وزیراعلیٰ ہاؤس پر دھرنا کر رہے ہیں تاکہ پیپلز پارٹی پر یہ دباؤ ڈالا جائے کہ وہ اپنی پوزیشن کو واضح کریں اور انتخابات کا انعقاد کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ 8 جنوری کو ’اعلان کراچی‘ کے نام سے بہت بڑا جلسہ کریں گے، جس میں کراچی کے تمام مسائل کو پیش کریں گے اور آئندہ کا لائحہ عمل بھی بتائیں گے، ہم اپنی جدوجہد کو جاری رکھے ہوئے ہیں، توقع ہے کہ 15 جنوری کو انتخابات ہوں گے جس میں ہم بھرپور انداز میں حصہ لیں گے۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024