فیڈ کا بحران: مرغی کا گوشت ’بیف‘ سے بھی مہنگا ہونے کا خدشہ
ملک میں مہنگائی میں اضافے کا سلسلہ جاری ہے اور دارالحکومت اسلام آباد میں منگل کو مرغی کے گوشت کی قیمت 650 روپے فی کلو گرام تک پہنچ گئی ہے جس کے بعد تاجروں اور پولٹری فارمرز نے خبردار کیا ہے کہ مرغی کے گوشت کی نسبتاً کم نرخوں پر دستیابی قصہ پارینہ بن سکتی ہے اور فیڈ کا بحران جاری رہا تو جلد ہی چکن گائے کے گوشت جتنی مہنگی ہو سکتی ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے مزید کہا کہ مرغی کے گوشت کی قیمت 800 روپے فی کلو سے بھی زیادہ یا تقریباً سرخ گوشت کے برابر پہنچ سکتی ہے جبکہ اسلام آباد میں زندہ برائلر مرغی 370 روپے فی کلو تک فروخت ہو رہی ہے۔
دوسری جانب پاکستان پولٹری ایسوسی ایشن (پی پی اے) اور آل پاکستان سالوینٹ ایکسٹریکٹرز ایسوسی ایشن (اے پی ایس ای اے) نے دھمکی دی ہے کہ اگر حکومت نے فوری طور پر ان کے ان 2 صنعتوں کو تباہی سے بچانے کے مطالبات تسلیم نہیں کیے تو کل بروز جمعرات پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں احتجاج کیا جائے گا۔
اکتوبر 2022 سے پولٹری مصنوعات کی قیمتوں میں اس وقت سے تیزی سے اضافہ ہونا شروع ہوا جب کسٹم حکام نے جی ایم او سویا بین کی ترسیل بند کر دی تھی جو کہ زیادہ تر امریکا اور برازیل سے آتا ہے۔
قانونی مسائل کی وجہ سے اب تک 9 شپمنٹ بندرگاہ پر پھنسے ہوئے ہیں اور اعلیٰ امریکی سفارت کار کی مداخلت کے باوجود صورتحال میں بہتری نہیں آسکی۔
پاکستان میں جینیاتی طور پر تبدیل شدہ حیاتیات(جی ایم او) ) اور اس کی مصنوعات کی درآمد کی اجازت نہیں ہے کیونکہ پاکستان جی ایم او بیجوں کے خلاف عالمی مہم کا دستخط کنندہ ہے۔
وزیر خوراک طارق بشیر چیمہ نے حال ہی میں قومی اسمبلی کے پینل کو بتایا کہ پاکستان صرف نان جی ایم او سویا بین درآمد کی اجازت دیتا ہے، انہوں نے دعویٰ کیا کہ امریکی نمائندے نے ان سے کراچی بندرگاہ پر پھنسے ہوئے سویا بین کے جہازوں کی ایک ساتھ کلیئرنس پر زور دیا۔
خوراک کی کمی
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ سویابین کا استعمال پولٹری فیڈ کا ایک اہم اور کلیدی جزو ہے، ’غیر قانونی شپمنٹس‘ کی وجہ سے ملک میں قلت کے درمیان فیڈ ملیں بڑھتی مانگ کو پورا کرنے سے قاصر ہیں جس کے نتیجے میں خوراک کی قیمتوں میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیا ہے، 50 کلو چکن فیڈ کی قیمت صرف 3 ماہ کے دوران 2000 روپے اضافے کے بعد اب 7000 روپے تک پہنچ گئی ہے۔
دوسری جانب صنعت سے وابستہ اہم افراد نے چکن کی بڑھتی قیمتوں کے سبب انڈوں سے چوزے نکالنے والے پلانٹس اور فیڈ ملز کے کردار کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔
پنجاب پولٹری فارمرز ایسوسی ایشن کے صدر میاں طارق جاوید نے پاکستان پولٹری ایسوسی ایشن (پی پی اے) کی اعلیٰ قیادت پر مبینہ طور پر غیر قانونی درآمدات کے ذریعے پیسے بنانے، سویابین سپلائی پر اجارہ داری قائم کرنے کی کوشش اور اسی طرح کی دیگر درآمدات پر پابندی لگانے کے لیے لابنگ کرنے پر تنقید کی۔
انہوں نے کہا کہ یہ مسئلہ جینیاتی طور پر موڈیفائیڈ سویا بین کی درآمد سے متعلق ہے، قانون کے تحت اس در آمد کی اجازت نہیں تھی لیکن اسے بغیر کسی نوٹس کے درآمد کیا گیا۔
ادھر، پی پی اے حکام نے اس الزام پر رد عمل دینے سے انکار کر دیا کہ ایسوسی ایشن کے سینئر اراکین جی ایم او سویا بین کی غیر قانونی درآمد میں ملوث ہیں۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ مسابقتی کمیشن آف پاکستان (سی سی پی) کی جانب سے کی گئی 2 مختلف انکوائریوں میں ایک دن کے برائلر چوزوں کے ساتھ ساتھ پولٹری فیڈ ملز میں پی پی اے کی ملی بھگت اور پرائس فکسنگ کا انکشاف ہوا۔
پی پی اے ممبرز نے ایک انکوائری کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ سے 10 سال کے لیے حکم امتناع حاصل کیا اور مئی 2021 میں فیڈ ملز نے بھی لاہور ہائی کورٹ سے سی سی پی کی جانب سے جاری شوکاز کی کارروائی کے خلاف حکم امتناع حاصل کرلیا۔
پورٹ پر پھنسے ہوئی سویابین شپمنٹس سے متعلق معاملہ پیچیدہ ہو گیا ہے جبکہ درآمد کنندگان اور وزارت فوڈ سیکیورٹی کے حکام کے مؤقف میں اختلاف ہے۔
جینیٹیکلی موڈیفائڈ آرگائزم بیجوں سے متعلق معاملہ وزارت موسمیاتی تبدیلی کے دائرہ کار میں آتا ہے، دونوں وزارتوں کا مؤقف ہے کہ پاکستان یورپی یونین کے بیشتر ممالک کی طرح جی ایم او بیجوں کے خلاف ہونے والے معاہدے کا دستخط کنندہ ہے۔
تاہم آل پاکستان سالوینٹ ایکسٹریکٹرز ایسوسی ایشن (اے پی ایس ای اے) نے جی ایم او سیڈز درآمد کرنے کی حمایت کی، اس کا مؤقف ہے کہ امریکا، برازیل، ارجنٹینا اور دیگر برآمد کنندگان نے جی ایم او سویابین اور فیڈ تیار کیا۔
اے پی ایس ای اے کے رہنما نواب شہزاد علی نے کہا کہ یورپی یونین بھی پولٹری اور مویشیوں کی خوراک کے لیے امریکا سے جی ایم او سویا بین درآمد کر رہی ہے، ہمیں بھی اس سلسلے میں کوئی راستہ نکالنا ہوگا ۔
دوسری جانب، پی پی اے اور اے پی ایس ای اے نے دعویٰ کیا کہ وہ روکے گئے بحری جہازوں کے لیے یومیہ 4 لاکھ ڈالر ادا کر رہے ہیں جب کہ مرغی کے گوشت کی قیمت میں صرف ایک ماہ میں سویابین کی عدم دستیابی کی وجہ سے بڑھی ہے۔
شہزاد علی نے وزیر اعظم سے فوری مداخلت اور ایسوسی ایشنز کے نمائندہ وفد کو ملاقات کا وقت دینے کی اپیل کرتے ہوئے خبردار کیا کہ اگر حکومت نے معاشی تباہی کو نہ روکا تو وہ 5 جنوری بروز جمعرات ٹھوکر نیاز بیگ میں احتجاج کرنے پر مجبور ہوں گے۔