• KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am
  • KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am

پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کا اجلاس، اختلافات ختم کرنے کی کوششیں بے نتیجہ ثابت

شائع January 3, 2023
سابق صدر آصف علی زرداری کی زیر صدارت اجلاس میں دونوں جماعتوں کی جانب سے بریفنگ دی گئی — فائل فوٹو: پی پی پی ٹوئٹر
سابق صدر آصف علی زرداری کی زیر صدارت اجلاس میں دونوں جماعتوں کی جانب سے بریفنگ دی گئی — فائل فوٹو: پی پی پی ٹوئٹر

وزیر اعظم شہباز شریف کی متحدہ قومی موومنٹ (پاکستان) اور پیپلز پارٹی کے درمیان اختلافات ختم کرنے کی کوششیں تاحال بےنتیجہ ثابت ہوئی ہیں جو کہ مرکز میں ان کی اہم اتحادی جماعتیں ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ روز دونوں جماعتوں کے قائدین نے وفاقی وزیر اقتصادی امور سردار ایاز صادق اور وزیر داخلہ رانا ثنااللہ کے ہمراہ بلاول ہاؤس میں ملاقات کی اور بلدیاتی انتخابات سے قبل دونوں فریقین کے درمیان ڈیڈ لاک کے حوالے سے مختلف آپشنز کا جائزہ لیا۔

ایک گھنٹے تک جاری رہنے والے اجلاس میں ایم کیو ایم کی جانب سے کراچی اور حیدر آباد میں 15 جنوری کے بلدیاتی انتخابات نئی حلقہ بندیوں تک ملتوی کرنے کے مطالبے پر پیپلزپارٹی قائل نہ ہوسکی، جس کے بعد یہ اجلاس بغیر کسی نتیجے کے اختتام پذیر ہوگیا۔

تاہم دونوں جماعتوں نے اس حوالے سے کوئی راستہ تلاش کرنے کے لیے مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھنے پر پر اتفاق کیا۔

اجلاس سے باخبر ذرائع نے بتایا کہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم دونوں اپنے اپنے نقطہ نظر اور مطالبے پر قائم ہیں۔

ماضی کے برعکس شرکا میں سے کسی نے بھی اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو نہیں کی اور اجلاس میں زیر بحث کوئی بھی تفصیلات بتائے بغیر وہاں سے چلے گئے۔

سابق صدر آصف علی زرداری کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں دونوں جماعتوں کی جانب سے بریفنگ دی گئی، تاہم وہ کسی اتفاق رائے پر پہنچنے میں ناکام رہے۔

پیپلزپارٹی کے ذرائع نے بتایا کہ ’پی پی پی نے واضح طور پر شرکا کو آگاہ کیا کہ نئی حلقہ بندی ایک طویل مدتی عمل ہے اور اسے مکمل ہونے میں 4 ماہ لگ سکتے ہیں‘۔

انہوں نے کہا کہ ’یہ مؤقف قانونی ماہرین کی رائے سے بھی جڑا ہے جو انتخابات میں تاخیر کو صوبائی حکومت کے دائرہ کار سے باہر قرار دیتے ہیں کیونکہ ایسا فیصلہ کرنا صرف الیکشن کمیشن کا مینڈیٹ ہے، صوبائی حکومت پہلے ہی اس معاملے پر الیکشن کمیشن سے رائے طلب کرچکی ہے اور جواب کا انتظار ہے‘۔

واضح رہے کہ حکومتِ سندھ کی جانب سے کراچی اور حیدرآباد میں موجودہ حلقہ بندیوں کے تحت بلدیاتی انتخابات کرانے کے فیصلے پر ایم کیو ایم کی مخالفت کے بعد وزیر اعظم شہباز شریف نے پارٹی کو راضی کرنے کے لیے وفد کراچی بھیجنے کا فیصلہ کیا تھا جس کے بعد وفاقی وزرا کا ایک وفد گزشتہ روزکراچی پہنچا تھا۔

اتوار (یکم جنوری) کو ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی کے ہنگامی اجلاس میں صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا تھا اور بلدیاتی انتخابات 15 جنوری کو شیڈول کے مطابق ہونے کی صورت میں نئی حکمت عملی طے کی گئی تھی۔

رابطہ کمیٹی نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ موجودہ حلقہ بندیوں کے تحت کراچی میں بلدیاتی انتخابات شہر کے مینڈیٹ کے خلاف ہوں گے، انہوں نے انصاف کے لیے عدالت اور الیکشن کمیشن سے رجوع کرنے کے عزم کا بھی اظہار کیا تھا۔

ایک اور ذرائع نے بتایا کہ ’بلاول ہاؤس میں ہونے والے اجلاس کے دوران ایم کیو ایم کے موقف کوئی تبدیلی نہیں آئی اور وہ نئی حلقہ بندیوں کے مطالبے پر ڈٹے رہے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’ایم کیو ایم نے صورت حال بدستور برقرار رہنے کی صورت میں اُن آپشنز کے بارے میں آگاہ کیا جن پر رابطہ کمیٹی کے آخری اجلاس میں تبادلہ خیال کیا گیا‘۔

ذرائع نے بتایا کہ ’ایم کیو ایم نے خاص طور پر کراچی میں 73 بلدیاتی حلقوں کا ذکر کیا جن پر اگلے انتخابات سے قبل نظرثانی کی سخت ضرورت ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’ایم کیو ایم رہنماؤں نے ان تحفظات پر وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے ردعمل پر شدید مایوسی کا اظہار کیا جن پر وہ گزشتہ 8 ماہ سے آواز اٹھا رہے تھے اور اب یہ تاثر پیدا ہو رہا ہے کہ پارٹی بلدیاتی انتخابات میں تاخیر کی خواہاں ہے‘۔

اجلاس میں کوئی پیش رفت نہ ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے ذرائع نے مذاکرات میں کسی تعطل کا امکان بھی مسترد کردیا، انہوں نے کہا کہ ’اچھی بات یہ ہے کہ تمام اتحادیوں نے کسی بھی حتمی نتیجے یا فیصلے پر پہنچنے سے پہلے اس معاملے پر بات چیت جاری رکھنے اور مذاکرات کے لیے دوبارہ بیٹھنے کا فیصلہ کیا ہے‘۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024