سی پیک سیاحت: گلگت فلائٹ، جگلوٹ اور بونجی (پانچویں قسط)
اس سلسلے کی بقیہ اقساط یہاں پڑھیے۔
یہ جس بنیادی سفر کی روداد میں بیان کر رہا ہوں وہ 1987ء کا ہے، جب میں پہلی بار گلگت گیا تھا اور مجھے راولپنڈی سے گلگت تک وہ 18 گھنٹے کا سفر بڑا طویل محسوس ہوا تھا۔ البتہ عقل کو حیران کردینے والی شاہراہِ قراقرم اور اس کے اطراف میں ہمالیہ، قراقرم اور ہندوکش کے بلند و بالا پہاڑی سلسلوں کے انوکھے مناظر نے ہمیں سفر کی تکلیف کا احساس نہیں ہونے دیا تھا۔
اس پہلے سفر کے بعد میں جتنی بار بھی گلگت گیا، ہمیشہ خواہش ہوئی کہ واپسی میں جہاز میں آؤں تاکہ ان عظیم پہاڑی سلسلوں کی فضائی سیر بھی ہوسکے۔ مگر ہر دفعہ یہی ہوا کہ ایئر پورٹ پر بیٹھے بیٹھے جہاز کا انتظار کرتے رہے اور کئی گھنٹے گزرنے کے بعد اعلان سنائی دیا کہ موسم کی خرابی کے باعث فلائٹ کینسل کردی گئی ہے۔ چنانچہ مایوس ہوکر پھر بسوں کے اڈے کا رخ کرنا پڑتا جہاں بسوں والے فلائٹ کینسل ہونے کی خبر پر دانت نکالے منتظر ملتے۔
ذرا مستقبل میں جھانکتے ہیں۔ 2005ء کی بات ہے۔ میں ایک این جی او کے فوٹوگرافی پروجیکٹ پر کام کر رہا تھا۔ کشمیر اور شمالی علاقہ جات میں میرپور سے گلگت تک اس ادارے کے کئی اسکول موجود ہیں۔ میں ان اسکولوں کی فوٹوگرافی کر رہا تھا۔ این جی او کا ایک کوآرڈینیٹر بھی میرے ساتھ ہوتا تھا۔ ہم کشمیر کے طول و عرض میں وادی نیلم، وادی جہلم اور میرپور تک کئی مقامات کے سفر کرچکے تھے اور اب آخر میں گلگت کے اسکولوں کی باری تھی۔
گلگت کے لیے ہمارے پاس ہوائی جہاز کے ٹکٹ موجود تھے۔ ہم 3 دن سے روزانہ اسلام آباد ایئر پورٹ آرہے تھے، مگر موسم کی خرابی کے باعث گزشتہ دونوں دن فلائٹ کینسل ہوچکی تھی اور وہ تیسرا دن تھا۔ گلگت کی پہلی فلائٹ تو صبح 7 بجے جاچکی تھی اور خیریت سے گلگت پہنچ چکی تھی۔ اب اسے واپس اسلام آباد آکر دوبارہ گلگت جانا تھا، لیکن 10 بج جانے کے باوجود ابھی تک اس کا کوئی پتا نہیں تھا۔
ہم ایئرپورٹ کے لاؤنج میں بیٹھے بے چینی سے پہلو بدل رہے تھے کہ اچانک گلگت فلائٹ کی روانگی کا اعلان ہوا۔ میں لپک کر لاؤنج کے شیشوں تک گیا اور رن وے کی طرف دیکھا۔ گلگت جانے والا فوکر سامنے کھڑا تھا اور اس پر مسافروں کا سامان لوڈ ہو رہا تھا۔ ہم نے خوشی سے ایک نعرہ بلند کیا اور کھلھکلاتے ہوئے جہاز پر جانے والوں کی قطار میں لگ گئے۔ تھوڑی دیر بعد ہم جہاز کے اندر سیٹوں پر براجمان ہوچکے تھے۔
یہ فوکر پر میرا پہلا سفر تھا۔ زمینی ٹریفک کی دنیا میں جو مقام رکشے کا ہے، فضائی ٹریفک میں وہی حیثیت فوکر کو حاصل تھی۔ اس کی سیٹیں، اس کا اندرونی ماحول اور اس کا شور سب رکشے کی مانند تھا۔
مسافروں کی گنتی مکمل ہوتے ہی جہاز ٹیک آف کی تیاری کرنے لگا۔ اس کے پنکھے تیزی سے گھومنے لگے اور اس کا کان پھاڑنے والا شور جہاز کے اندر تک بلا روک ٹوک سنائی دینے لگا۔ ایک عمر رسیدہ سی ایئر ہوسٹس ہمیں حفاظتی تدابیر سمجھانے کی مشینی حرکات کر رہی تھی۔ میں نے اپنا ویڈیو کیمرا آن کیا اور کھڑکی سے باہر کا پہلا منظر لے کر اسے گھماتا ہوا جہاز کے اندر تک لے آیا۔ ایئر ہوسٹس اس وقت ایمرجنسی آکسیجن ماسک لینے کا طریقہ سمجھا رہی تھی۔ میں نے کچھ دیر اس کا بھی منظر لیا اور پھر جہاز کے اندر کے شاٹس لینے لگا۔ ابھی میں ویڈیو بنا ہی رہا تھا کہ اچانک ایک برہم نسوانی آواز سنائی دی۔
’پلیز اسٹاپ یور کیمرا سر‘۔
میں نے کیمرے سے آنکھ ہٹا کر دیکھا تو وہی ایئر ہوسٹس ناراض سی میرے سر پر کھڑی تھی۔
’کیوں؟‘، میں حیران ہوا۔
’آپ نے مجھ سے اجازت لیے بغیر میری ویڈیو بنائی ہے‘، وہ بولی۔
’بھئی میں آپ کی نہیں جہاز کی ویڈیو بنا رہا ہوں اور آپ بھی جہاز کا حصہ ہیں‘، میں مسکرا یا۔
’نہیں نہیں۔ میں جہاز کا حصہ نہیں ہوں ۔ آپ ابھی اس ویڈیو کو ڈیلیٹ کریں‘، وہ ضد سے بولی۔
’اچھا ٹھیک ہے۔ میں آپ کا منظر ڈیلیٹ کردیتا ہوں، لیکن مجھے تو اس پورے سفر کی ویڈیو بنانی ہے۔ میں تو یہ سفر ہی اس لیے کر رہا ہوں‘، میں نے خشک لہجے میں کہا تو وہ بڑبڑاتی ہوئی چلی گئی۔
جہاز تیزی سے رن وے پر دوڑنے لگا اور چند لمحوں میں فضا میں اٹھ گیا۔کھڑکی کے باہر نارمل سائز کے مناظر فوراً ہی ننھی منی شکلیں اختیار کرگئے۔ جہاز چند منٹوں میں کوہ مارگلہ کے اوپر پہنچ گیا اور پھر انجنوں کی یکساں گرج کے ساتھ ایک ہموار رفتار سے ہری پور، ایبٹ آباد اور مانسہرہ کی فضاؤں میں تیرتا ہوا شمالی علاقوں کی طرف بڑھنے لگا۔
کچھ دیر باہر کی وڈیو بناکر میں نے کیمرا بند کیا اور جہاز کےاندرونی ماحول کا جائزہ لینے لگا۔ وہی ایئر ہوسٹس دوبارہ ہماری سیٹ کے پاس سے گزرتے ہوئے منہ بنا رہی تھی۔ میں نے اسے اپنی طرف آنے کا اشارہ کیا۔
’جی فرمائیے‘، وہ قریب آکر سپاٹ لہجے میں بولی۔
میں نے اپنے انہی دنوں پیش کردہ اردو کے پہلا ڈیجیٹل سفرنامے ’دریا دریا وادی وادی‘ کی سی ڈی اور اپنا وزیٹنگ کارڈ نکال کر اس کو دیا اور اس سے کہا کہ وہ یہ چیزیں جاکر پائلٹ کو دے دے۔ اس نے کچھ اچنبھے سے میری طرف دیکھا مگر کچھ کہے بغیر دونوں چیزیں لے کر کاک پٹ میں چلی گئی۔ تھوڑی دیر بعد وہ ہماری سیٹ کی طرف واپس آئی تو اس کے چہرے کے تاثرات اور لب و لہجہ حیرت انگیز طور پر تبدیل ہوچکا تھا۔
’سر ، کیپٹن صاحب آپ کو کاک پٹ میں بلا رہے ہیں‘، وہ مسکرا کر بولی۔
میری تو باچھیں ہی کھل گئیں۔ میں فوراً ہی اٹھ کر کاک پٹ کی طرف چل دیا۔ لوگ ہمیں حیرت سے دیکھ رہے تھے۔
فوکر کے مختصر سےکاک پٹ میں پائلٹ صاحب ہمارے منتظر تھے۔
’السلام علیکم‘، میں بلند آہنگ سے بولا کیونکہ انجن کا شور بہت تھا۔
’وعلیکم السلام‘، کیپٹن صاحب نے جواب دیا اورپھر اپنا اور کو پائلٹ کا تعارف کروایا۔
’مجھے بڑی خوشی ہے کہ آپ آج اس فلائٹ پر ہمارے ساتھ ہیں۔ آپ کا یہ سفرنامہ کس علاقے کے بارے میں ہے؟‘
’یہ وادی داریل اور وادی استور کا سفرنامہ ہے‘، میں بولا۔
’ونڈر فل، آپ کو پتا ہے ہم اس وقت انہی دونوں وادیوں کے بیچ میں سے گزر رہے ہیں‘، وہ بولے۔ ’یہ دیکھیں ہمارے نیچے دریائے سندھ ہے اور وہ سامنے چلاس ہے‘۔
میں جہاز کی ونڈ اسکرین سے نیچے دیکھنے لگا۔ وہ منظر جہاز کی مسافروں والی کھڑکیوں سے نظر آنے والے مناظر سے یکسر مختلف انداز کا تھا۔
’آپ کے دائیں طرف نانگا پربت ہے، سامنے راکا پوشی اور بائیں طرف کوہِ ہندوکش کا سلسلہ ہے۔‘
میں نے دیکھا کہ نانگا پربت کی برف پوش چوٹیوں کا جھرمٹ بادلوں سے آنکھ مچولی کھیل رہا تھا اور ہمارا جہاز اس کی عظیم دیواروں کے برابر میں رینگتا ہوا بے حقیقت سا محسوس ہوتا تھا۔
میں کافی دیر کاک پٹ میں رہا۔ ایئر ہوسٹس بھی پیچھےکھڑی مسکراتی رہی۔ میں نے کاک پٹ سے پہاڑوں کے کچھ ویڈیو شاٹس لیے اور پھر پائلٹ کا شکریہ ادا کرکے باہر نکل آیا۔کچھ دیر میں جہاز گلگت کے ننھے سے ایئر پورٹ پر اتر گیا تھا۔
لیکن یہ تو کئی سال بعد کی باتیں ہیں۔ اس وقت تو میں بشام سے گلگت جانے والی بس میں بیٹھا تھا اور ہماری بس آدھی رات کو چمکتے ستاروں کی روشنی میں شاہراہِ قراقرم پر نانگا پربت سے خوفزدہ دھیرے دھیرے آگے بڑھ رہی تھی۔ کچھ دیر بعد اطراف کے پہاڑ بھی دُور دُور چلے گئے۔ تاروں کی روشنی میں لو دیتی وادی رفتہ رفتہ وسیع ہوتی چلی گئی۔ دریائے سندھ بھی اس وسعت میں گم کہیں دُور گہرائیوں میں بہہ رہا تھا۔ لیکن کچھ دیر بعد وادی کی وسعت پھر کم ہونے لگی، دونوں طرف کے پہاڑ قریب آگئے اور دریائے سندھ کا قرب بھی دوبارہ نصیب ہوا۔ یہ جگلوٹ کی آمد کی علامتیں تھیں۔ نانگا پربت بھی اب مستقل نظر آنے کے بجائے کسی کسی موڑ پر اوجھل ہوجاتا تھا۔ کچھ ہی دیر میں جگلوٹ کا مختصر قصبہ آیا جو رات کی آغوش میں دبکا ہوا خاموشی سے ٹمٹما رہا تھا۔ ہم بھی جگلوٹ سے خاموشی کے ساتھ گزرگئے۔
یہاں میرا ذہن پھر مستقبل میں جھانک رہا ہے۔ میں 1998ء میں کراچی کی ایک این جی او کے ساتھ یہاں آیا تھا۔ میں اس آرگنائزیشن کے میڈیکل کیمپس کی ڈاکومنٹری فلم بنا رہا تھا۔ ہم صبح کوہستان کی وادی داریل سے چلے تھے اور رات 9 بجے کے قریب جگلوٹ میں داخل ہوئے تھے۔ یہاں سڑک کے دونوں طرف مٹی کی دیواریں تھیں جن کی دوسری طرف اندھیرے میں کھڑے خوبانی کے درختوں کی شاخیں سڑک کے اوپر تک آرہی تھیں۔ ٹرک ڈرائیوروں والے ہوٹل روشن تو تھے مگر اونگھ رہے تھے۔ ہماری پجیرو جیپ آگے کھڑی لینڈ کروزر کے قریب پہنچ کر رک گئی۔ ڈاکٹر بابر گاڑی سے اتر کر کھڑے تھے۔ ہماری گاڑی پہنچتے ہی قریب آئے اور ڈرائیور سے بولے ’فقیر شاہ! ہمیں اوپر جانا ہے‘، انہوں نے سڑک کے بائیں پہلو سے اوپر کو اٹھتی ہوئی ایک پتلی سی روڈ کی طرف اشارہ کیا۔
’ٹھیک ہے سر!‘، ڈرائیور مستعد تھا۔ اگلی جیپ کے پیچھے پیچھے ہماری جیپ نے بھی اپنا منہ روتے گیدڑ کی طرح اوپر اٹھایا اور تنگ سی سڑک پر جگلوٹ سائی کی طرف بڑھنے لگی۔ اوپر پہنچے تو پی ڈبلیو ڈی کے ریسٹ ہاؤس میں بازو پھیلائے فیاض نے ہمارا استقبال کیا۔
’خدا کے بندو! کدھر رہ گئے تھے آپ لوگ۔ بہت انتظار کرایا۔ میں نے آپ لوگوں کے لیے زبردست ڈنر کا انتظام کیا تھا۔ لیکن آپ لوگوں نے تو دیر کردی‘۔
لیکن اس کے لہجے میں ہمارے دیر کرنے پر خاصا اطمینان پایا جاتا تھا۔ ’کوئی بات نہیں۔ صبح شاندار ناشتے پر آپ کی خدمت کروں گا۔ ابھی تو آرام دہ بستر آپ کا انتظار کر رہے ہیں‘۔
ہم نے آرام دہ بستر ملاحظہ فرمائے۔ فرش پر بچھے قالینوں پر صوفوں کی گدیاں بطور تکیہ استعمال کرتے ہوئے سونے کا شاندار انتظام تھا۔ نیند سے بوجھل آنکھوں کو یہ بستر بھی آرام دہ ہی لگے۔ ہم سب کچھ ہی دیر بعد ایک دوسرے سے ٹانگیں بھڑائے نیند کی آغوش میں اتر گئے۔ صبح کھڑکی سے داخل ہوتی سورج کی شعاعوں نے مجھے نرمی سے جگایا۔ میں نے اردگرد پڑے اجسام کے بیچ میں نکلنے کا راستہ تلاش کیا اور دروازہ کھول کر باہر آگیا۔
سورج میرے پیچھے اور نانگا پربت میرے سامنے طلوع ہوچکا تھا اور اس کی سب سے بلند چوٹی کو بادل کا ایک ٹکڑا بوسہ دے رہا تھا۔ جس طرح بادشاہ بغیر تاج کے نظر آنا پسند نہیں کرتا، اسی طرح یہ برف پوش چوٹیاں بھی بادلوں کے تاج پہنے بغیر کم ہی نظر آتی ہیں۔ سامنے زمین ڈھلواں ہوکر دُور نیچے تک چلی گئی تھی جہاں ایک سیاہ افقی لکیر اسے کاٹ رہی تھی۔ یہ لکیر شاہراہِ قراقرم تھی۔ جگلوٹ بس اسٹاپ تو نیچے اسی لکیر پر تھا مگر اصل جگلوٹ یعنی جگلوٹ سائی یہاں اوپر ایک وسیع سطح مرتفع پر واقع تھا جس کے پیچھے اونچے سیاہ پہاڑ حد بندی کیے ہوئے تھے۔
شمالی علاقوں کا ایک خاص فیشن یہ بھی ہے کہ یہاں لوگ پتھر اور چونے کی مدد سے پہاڑوں کی بلند اور وسیع ڈھلوانوں پر اس طرح دیوقامت الفاظ و تصاویر بنا دیتے ہیں کہ وہ دُور دُور سے نظر آتی ہیں۔ جگلوٹ میں بھی ایک پہاڑ پر مارخور کے سینگوں والے سر کی ایک وسیع و عریض شبیہ ہے جس کی آنکھیں جگلوٹ میں حرکت کرنے والے ہر ذی روح کا ہمہ وقت جائزہ لیتی محسوس ہوتی ہیں۔
شاہراہِ قراقرم کے نیچے دریائے سندھ بہہ رہا تھا۔ دوسرے کنارے پر قصبہ بونجی کے مکانات ننھے منے ماڈلز کی طرح نظر آرہے تھے۔ بونجی اور جگلوٹ کے درمیان دریائے سندھ پر ایک معلق پُل جھول رہا ہے۔ ہمیں آج اسی پُل کو عبور کرکے فیاض کی رہنمائی میں استور جانا تھا۔ فیاض یہیں جگلوٹ کی پیداوار ہے مگر رہتا کراچی میں ہے۔ ہمارے میڈیکل کیمپس کے لیے وہ بھی یہاں پہنچا ہوا تھا۔ شمالی علاقہ جات کا ہر شخص یا تو اس کا چچا ہے یا ماموں یا پھر بھتیجا یا بھانجا۔ جگلوٹ سے آگے سفر میں فیاض ہمارا گائیڈ، منتظم اور انٹرٹینر تھا۔
جگلوٹ ریسٹ ہاؤس چھوڑنے سے پہلے ہم نے آلو گوبھی اور خشک تندوری روٹیوں کا ’شاندار ناشتہ‘ بھی کیا۔ تھوڑی دیر بعد ہماری جیپیں شاہراہِ قراقرم چھوڑ کر جگلوٹ نالے کے کنارے سے چمٹی پتلی سڑک پر دریائے سندھ کی طرف رواں دواں تھیں۔ جگلوٹ نالہ اپنی تہہ میں کئی نالیوں میں بٹا تیزی سے دریائے سندھ کی طرف بہہ رہا تھا۔ سڑک نے دریا کنارے پہنچ کر ایک عمودی موڑ لیا تو سامنے دریا پر ایک معلق چوبی پُل جھول رہا تھا۔ ہمیں اس پُل کے پار جانا تھا۔
بونجی ناردرن ایریاز لائٹ انفنٹری (این ایل آئی) کا ہیڈ کوارٹر ہے۔ کارگل کی جنگ میں داد شجاعت دے کر نشانِ حیدر پانے والے شہید لالک جان کا تعلق بھی اسی این ایل آئی سے تھا۔ جیپ کے نیچے پُل کے تختوں کی کڑکڑ اہٹ تھی اور تختوں سے نیچے دریائے سندھ کی گرج تھی۔ ’یہ اباسین ہے‘، فیاض بولا۔ ’اباسین کا مطلب ہے بڑا دریا‘۔
پُل کے دوسرے کنارے کھڑے دونوں فوجیوں نے تفتیش ناک نگاہوں سے ہمارا جائزہ لیا، لیکن فیاض کے فرفر شینا زبان بولنے پر ان کے تنے ہوئے چہرے پُرسکون ہوگئے۔ گاڑیاں آگے بڑھ گئیں۔ چھاؤنی سے آگے بونجی کا قصبہ تھا۔ سڑک کے اطراف میں چند دوکانیں تھیں اور دوکانوں کے درمیان ایک جھرنا بہہ رہا تھا۔ دوکانوں سے آگے خوبانی اور سیب کے باغات تھے۔
دوکانوں پر بیٹھے اور باغوں میں مصروف اہلیانِ بونجی میں سے کوئی بھی ہمیں حیرت سے نہیں دیکھتا تھا کیونکہ ان کے لیے اس راستے پر اجنبی مسافروں کو دیکھنا کوئی انوکھی بات نہیں تھی۔ یہ راستہ نانگا پربت کے بیس کیمپ اور دنیا کے بلند ترین برفانی میدان دیوسائی کو جاتا ہے۔ ہر سال دنیا بھر سے لاتعداد کوہ پیما اور مہم جو یہاں آتے ہیں اور بونجی سے گزر کر استور کی طرف جاتے ہیں۔
بونجی کے باغات ختم ہوتے ہی غضب ہوگیا۔ تارکول کی پکی سڑک پر جو سفر مزے سے جاری تھا اچانک خواب ہوگیا۔ سڑک یکبارگی ختم ہوئی اور ہم نے خود کو ایک بے ہودہ قسم کے گڑھوں والے تکلیف دہ راستے پر بے ہنگم اچھل کود کرتے پایا۔ تھوڑی دیر اسی طرح چلتے چلتے ایک کھائی آگئی۔ یہ ایک خشک نالہ تھا جسے اس کی تہہ میں پہنچ کر عبور کرنا تھا۔ نالے کی تہہ میں بڑے بڑے پتھر بکھرے پڑے تھے۔ پتھروں کے درمیان میں سے بچ بچا کر جیپ نے نالہ عبور کیا تو دوسری طرف ایک عمودی تنگ چڑھائی ہمارے روبرو تھی۔
جیپ نے زور لگا کر جیسے ہی اس پر چڑھنا شروع کیا، ہم سب پیچھے کی طرف لڑھکنے کے خوف میں مبتلا ہوگئے۔ سب نے جیپ کے فریم کو مضبوطی سے پکڑ لیا۔ فیاض کا گنگنانا بھی اچانک بند ہوگیا۔ ڈرائیور نے بھی اسٹیئرنگ کو ہاتھوں میں شدت سے جکڑا ہوا تھا۔ اس کے چہرے پر ایسے تاثرات تھے جیسے وہ خود زور لگا کر اوپر چڑھ رہا ہو۔ انجن پہلے گیئر میں گرج رہا تھا، چڑھائی چیونٹی کی رفتار سے طے ہو رہی تھی کہ اچانک ایک موڑ آگیا۔ ہم سمجھے کہ چڑھائی ختم ہوگئی۔ مگر یہ کیا؟ یہ تو اگلی چڑھائی کے لیے صرف ایک ایسا موڑ تھا جس پر ایک گھماؤ میں جیپ کا گھوم جانا ناممکن تھا۔ بیچ میں بار بار ریورس ہونا ضروری تھا، مگر ریورس ہونے کے لیے پیچھے ایک ڈیڑھ فٹ سے زیادہ جگہ نہ تھی کیونکہ اس ڈیڑھ فٹ کے پیچھے ایک گہری کھائی تھی جس کا خاتمہ نالے کی تہہ میں اس جگہ تھا جہاں نوکیلے پتھر مگرمچھوں کی طرح منہ کھولے ہمارے گرنے کے منتظر تھے۔
ڈرائیور نے جیپ کو پہلا گھماؤ دیا اور سامنے پہاڑ کی دیوار سے تقریباً ٹچ کردیا۔ اب مزید گنجائش کے لیے پیچھے کی طرف ریورس کرنا ضروری تھا۔ جیسے ہی جیپ پیچھے ہوئی سب کی چیخیں کورس میں برآمد ہوئیں۔ اس سے پہلے کہ ڈرائیور ریورس کرتا، اسرار جیپ سے کود کر دُور کھڑا ہوگیا اور ہراساں نظروں سے یہ تماشا دیکھنے لگا۔ اگلے ریورس کے بعد ہم سب بھی اسرار کے ساتھ ہی کھڑے تھے۔ ڈرائیور ہماری حالت پر مسکراتا اکیلا گاڑی موڑنے میں لگا رہا۔ کئی دفعہ ریورس کے بعد گاڑی اگلی چڑھائی پر چڑھی تو پھر نعرے لگے۔ ڈرائیور کی پیٹھ اور جیپ کی باڈی تھپتھپائی گئی۔ سب دوبارہ سوار ہوئے اور فیاض کا گیت بھی دوبارہ شروع ہوگیا۔
عبیداللہ کیہر پیشے کے لحاظ سے میکینیکل انجینیئر، مگر ساتھ ہی سیاح، سفرنامہ نگار، پروفیشنل فوٹوگرافر اور ڈاکومنٹری فلم میکر ہیں۔ آپ کی اب تک 7 کتابیں بھی شائع ہوچکی ہیں۔ آبائی تعلق سندھ کے شہر جیکب آباد سے ہیں۔ عمر کا غالب حصہ کراچی میں گزارا اور اب اسلام آباد میں رہتے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
عبیداللہ کیہر پیشے کے لحاظ سے میکینیکل انجینیئر، مگر ساتھ ہی سیاح، سفرنامہ نگار، پروفیشنل فوٹوگرافر اور ڈاکومنٹری فلم میکر ہیں۔ آپ کی اب تک 15 کتابیں بھی شائع ہوچکی ہیں۔ آبائی تعلق سندھ کے شہر جیکب آباد سے ہیں۔ عمر کا غالب حصہ کراچی میں گزارا اور اب اسلام آباد میں رہتے ہیں ۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔