اس سلسلے کی مزید اقساط یہاں پڑھیے
شاہجہان کا اس جہان سے گزر جانا مغلوں کے ایک زمانے کا خاتمہ سمجھنا چاہیے کیونکہ اکبر سے شاہجہان تک ہندوستان پر ایسے برس گزرے جن میں مذہبی بھید بھاؤ اگر تھا بھی تو وقت کے بادشاہوں نے ان کو پاٹنے کی کوشش کی جس کی وجہ سے یہاں ایک نئی ثقافت نے جنم لیا۔ سب سے زیادہ عمارتیں اسی زمانے میں بنیں، نئے تہوار متعارف ہوئے، شاعری، ادب اور سُر و تال کے نخلستانوں کی ایک دنیا آباد ہوئی۔ مگر اب زمانے کا چلن ہے کہ وہ بدلتا رہتا ہے اور اب زمانہ بدلا ہے۔
منوچی کی تحریر کے مطابق ’اپنی ہر آرزو کی تکمیل اور اپنے مخالفین کو موت کی نیند سلادینے کے بعد اب اورنگزیب ہندوستان کا خودمختار بادشاہ تھا‘۔
منوچی کی کتاب کا تیسرا حصہ اورنگزیب کی حکومت کے حوالے سے انتہائی اہم ہے۔ اس تیسرے حصے میں اس زمانے یعنی آج سے 360 برس پہلے کا چلن، گھر، بازار، لباس، شادی بیاہ کی رسمیں، خوراک، رہن سہن مطلب معاشرتی زندگی کی مکمل تصویر آپ کو بڑی صاف نظر آتی ہے جو منوچی کی تحریر کا کمال ہے۔
وہ تحریر کرتا ہے کہ ’اورنگزیب کی تخت نشینی کے وقت شراب نوشی اتنی عام تھی کہ ایک دن اس نے مشتعل ہوکر یہ کہا کہ سارے ہندوستان میں 2 ہی ایسے اشخاص ملیں گے جو شراب نہیں پیتے، ایک تو وہ خود اور دوسرے قاضی القضا عبدالوہاب۔ لیکن عبدالوہاب سے متعلق اس کو غلط فہمی تھی کیونکہ میں خود انہیں شراب کی ایک بوتل روز بھیجتا تھا جسے وہ اتنا چھپ کر پیتے تھے کہ بادشاہ تک کو اس کا علم نہ ہوسکے۔ جاسوسی کا بہتر نظام جتنا اورنگزیب کے زمانے میں تھا وہ اس سے پہلے کبھی نہیں تھا۔ اورنگزیب نے اس بدنظمی کو ختم کرنے کے لیے یہ احکامات نافذ کیے کہ طبیبوں اور جراحوں کے علاوہ سارے عیسائی شہر چھوڑ کر توپ خانے کے پاس جا بسیں جو نواحی علاقوں سے دُور شہر سے تقریباً 3 میل کے فاصلے پر تھا، وہاں انہیں اس بات کی اجازت تھی کہ وہ شراب کشید کریں اور پیئیں بشرطیکہ اسے فروخت نہ کریں۔
’وہ غریب جو شراب حاصل نہیں کرسکتے تھے انہوں نے ایک اور مشروب دریافت کرلی جسے ’بھنگ‘ کہتے ہیں۔ یہ محض برگ حشیش کو پیس کر بناتے ہیں جو پینے کے ساتھ نشہ دیتا ہے۔ اس نے اس بُرائی کو بھی کچلنا چاہا اس لیے ’محتسب‘ نام کے ایک عہدیدار کا تقرر کیا جس کی ذمہ داری یہ تھی کہ وہ اس مشروب یا اس قسم کے دوسرے مشروبات کے استعمال کو روکے۔ اس حکم کے بعد کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب صبح سویرے اٹھ کر ہمیں ان برتنوں اور تسلوں کے توڑنے اور پھوڑنے کی آواز نہ آتی جن میں ان مشروبات کو تیار کیا جاتا تھا مگر چونکہ ان پر روک لگانے والے بھی اس مشروب کو پیتے تھے تو آہستہ آہستہ ممانعت میں بھی لچک آتی گئی۔
’اس کے بعد ہانڈی پھوٹی بچارے موسیقاروں اور گانے والوں کے سر پر۔ اورنگزیب نے موسیقاروں کی ایک کثیر جماعت کے خلاف قدم اٹھایا۔ ہندوستان میں مسلمان اور ہندو دونوں ہی گانوں اور ساز کی موسیقی کے بہت شوقین ہوتے ہیں۔ اورنگزیب نے حکم دیا کہ موسیقی پر فوری پابندی لگائی جائے اور جس جگہ سے بھی گانوں یا سازوں کی آواز سنائی دے وہاں پہنچ کر لوگوں کو گرفتار کرلیا جائے اور ساز توڑ دیے جائیں۔ اس طرح بہت تعداد میں ساز تباہ کردیے گئے۔ موسیقاروں نے دیکھا کہ اس طرح تو ان کے بھوکے مرنے کی نوبت آجائے گی۔ انہوں نے آپس میں مشورہ کیا اور بادشاہ کو اس طرح منانے کی کوشش کی کہ ایک جمعے کو جب اورنگزیب مسجد کو جارہا تھا تو تقریباً ایک ہزار موسیقار جمع ہوئے، وہ ملک کے رواج کے مطابق جنازہ لیے شدید رنج و غم میں روتے چلاتے اور اپنے جذبات کا اظہار کرتے آئے، گویا وہ کسی بڑی ممتاز مرحوم شخصیت کو دفنانے جا رہے ہوں۔ اورنگزیب نے دُور سے اس مجمع کو دیکھا، ان کی گریہ و زاری سنی اور متعجب ہوکر اس آہ و بکا کا سبب دریافت کیا۔ موسیقاروں نے بادشاہ کے سوال پر اپنے رنج و غم اور اشکباری کو یہ سمجھ کر دوگنا کردیا کہ شاید بادشاہ کو ان پر رحم آجائے۔ گریہ و زاری کے درمیان انہوں نے جواب دیا کہ بادشاہ کے احکامات نے موسیقی کو مار ڈالا ہے اس لیے ہم اسے دفن کرنے جا رہے ہیں۔ بادشاہ کو یہ خبر ملی تو اس نے سکون سے جواب دیا کہ ’سب لوگ موسیقی کی روح کی بخشش کے لیے دعا کریں اور اس بات کا خیال رکھیں کہ اسے اچھی طرح دفنایا جائے‘۔ اس کے باوجود امرا نے پوشیدہ طور پر گانا سننا بند نہ کیا۔ یہ احکام بھی محض خاص خاص شہروں میں ہی نافذ کیے گئے۔‘
اورنگزیب کو یہ کبھی اچھا نہیں لگا کہ اس کے حکم کی تعمیل میں انکار ہو۔ اگر کبھی ایسا ہو بھی جاتا تھا تو اس کے چہرے پر کبھی ناگواری کے تاثرات نہیں آتے تھے بس اندر بھرے غصے کا نتیجہ آتا تھا کہ کچھ دنوں کے بعد حکم نہ ماننے والوں کے سر شاہی قلعے کے پھاٹک پر لٹکتے نظر آتے۔ ہمیں اورنگزیب کے اتالیق مُلا صالح کی درد کتھا بھی منوچی سناتا ہے کہ وہ کس طرح بڑی امیدیں لے کر دہلی آیا تھا کہ اس کا شاگرد بادشاہ بنا ہے تو ضرور اس کی عزت کرے گا اور انعام دے گا بلکہ شاہجہان نے جو ماہوار رقم مقرر کر رکھی تھی اس میں تو ضرور اضافہ ہوگا۔ مگر قصہ اس کے بالکل الٹ ہوا۔ اورنگزیب نے 3 ماہ کے بعد اپنے معلم کو دربار میں بلایا۔ ایک لمبی چوڑی تقریر کرکے اسے یہ سنایا کہ تم نے مجھے کچھ نہیں سکھایا اور تم ایک ناکارہ قسم کے معلم ہو اس لیے بہتر ہے کے اپنا راستہ لو اور پھر کبھی نظر نہیں آنا۔ کہتے ہیں کہ اس دن کے بعد معلم مُلا صالح کبھی نظر نہیں آیا۔
اگر اس تحریر کے سارے حصے آپ کی نظروں سے گزرے ہیں تو آپ نے ضرور محسوس کیا ہوگا کہ اورنگزیب کی طبیعت اپنے سارے بھائیوں سے الگ تھی۔ یہی سبب تھا کہ وہ نہ صرف 50 برس تک ایک وسیع ہندوستان پر حکومت کر سکا بلکہ معاشی طور پر اورنگزیب کی حکومت بہت مستحکم بھی رہی۔
ششی تھرور اپنی کتاب میں اس حوالے سے تحریر کرتے ہیں کہ ’برطانوی معاشی تاریخ دان انگس میڈسن واضح طور پر لکھتے ہیں کہ 18ویں صدی کی ابتدا میں عالمی معیشت میں ہندوستان کاحصہ 23 فیصد تھا اور یہ اتنا بڑا تھا جتنا یورپ کا مشترکہ بنتا ہے۔ 1700ء میں اورنگزیب کے خزانے میں محصولات کی آمدنی 10 کروڑ پاؤنڈ تک تھی جو ہندوستان کی آمدنی کی شرح کے اعتبار سے 27 فیصد بنتی تھی۔ مگر جب برطانیہ یعنی کمپنی سرکار 1947ء میں ہندوستان سے نکلی تو یہ آمدنی گر کر محض 3 فیصد سے کچھ اوپر رہ گئی تھی، ایک حوالے سے یہ معاشیات کی بربادی کی نشانی تھی اور یہ بربادی کا تحفہ دیا تھا کمپنی سرکار نے۔
اگر آپ مغلیہ دور کی تاریخ کا بغور مطالعہ کریں تو آپ کو لگے گا کہ جب جلتے چراغ کا تیل ختم ہوجاتا ہے تو بجھنے سے پہلے وہ تیز روشنی دیتا ہے اور پھر بجھ جاتا ہے۔ 1526ء سے اس سلطنت کا کمال شروع ہوا اور اورنگزیب کی حکومت کا زمانہ اس چراغ کی مثل تھا۔ اس کا اختتام انتہائی دردناک طریقے سے 1857ء میں ہوا۔ میرے سامنے اس حوالے سے بہت سارے محققین کا مواد موجود ہے، جن میں ڈاکٹر فیدور کرووکن، سبط حسن، ڈاکٹر ستیش چندر، ٹی ایس مارٹن، ای مارسڈن شامل ہیں۔ ہم کوشش کریں گے کہ ان تجزیوں سے جان سکیں کہ اتنی بڑی مغلیہ سلطنت کا اختتام اتنا جلدی کیسے ہوا اور اس بربادی کے اسباب کیا تھے۔
16ویں اور 17ویں صدی میں ہندوستان میں جو بڑی ریاستیں وجود میں آئیں ان میں شمال میں مسلمان بادشاہوں یعنی مغلوں کی ایک حکومت تھی اور جنوب میں ہندو سلطنت وجے نگر تھی۔ ان دونوں سلطنتوں میں کئی چھوٹی چھوٹی ریاستیں تھیں جن کے الگ الگ حکمران تھے۔ مختلف النسل باشندوں اور مذاہب کے باوجود یہ ایک مشترکہ سماجی اور اقتصادی ڈھانچے میں بندھے ہوئے تھے۔
اسی زمانے میں بڑی تعداد میں جاگیردار وجود میں آئے جو قطعات اراضی کسانوں کو کرائے پر دیتے۔ ان جاگیرداروں کو فوجی خدمت کے عوض جائیدادیں بھی دی جاتی تھیں ماسوائے ان جاگیروں کے جو مندروں اور دیگر مذہبی عبادت گاہوں کے نام وقف تھیں۔ مگر مرکزی حکومت اور انتظامیہ کے پوری طرح منظم نہ ہونے سے جنوبی سلطنت میں انتشار 16ویں صدی کے آخر میں شروع ہوا جو آخرکار سلطنت کی تباہی پر ختم ہوا۔ شمالی سلطنت میں کئی واقعات، جنگ کے مسلسل خطرے اور نظامِ آبپاشی کی ضرورت نے ایک مرکزی حکومت کو جنم دیا اور اس طرح شمال میں ایک ترقی یافتہ اور مضبوط مرکز کی حامل مغلیہ سلطنت وجود میں آئی۔ اس سلطنت کی مجموعی ترقی کی ایک اہم وجہ سلطنت کے بین الاقوامی تجارتی رابطے تھے۔
اکبر بادشاہ (1605ء سے 1656ء) نے سارے شمالی ہندوستان اور جنوبی ہندوستان کے شمالی علاقوں پر حکومت کی۔ ان فتوحات کے نتیجے میں ایک ایسا جاگیردار طبقہ وجود میں آیا جو مفتوح مسلمانوں اور ہندوؤں پر مشتمل تھا۔ اس عمل میں چھوٹے جاگیرداروں نے بھی حکومت کی مدد کی، خواہ ان کا مذہب کچھ بھی تھا۔
مغلیہ سلطنت اور حکمرانوں کے سب سے بڑے حامی راجپوت تھے، یہ ہندو تھے اور تاجر اتحاد بھی مغلوں کا حامی تھا۔ اس اتحاد کی وجہ سے ملکی اقتصادی ترقی میں زبردست اضافہ ہوا۔ فوجی امرا اور منصب داروں کا نظام جس کو مغلوں نے متعارف کروایا تھا اس سے آگے چل کر ایک نیا گروہ وجود میں آیا۔ یہ طاقتور لوگ بادشاہ کے نمائندے تھے جنہیں مختلف علاقوں میں حکمران کے طور پر نامزد کیا جاتا تھا۔ اسی دوران جاگیردار جو حکومت کے فوجی مددگار تھے انہوں نے اس بل بوتے پر کسانوں کا استحصال شروع کیا اور یہ روز بروز بڑھتا گیا۔ اس کی وجہ سے کسانوں کی جانب سے مسلسل بغاوتوں نے جنم لیا اور ان میں کئی ایک تحریکوں کا رنگ مذہبی تھا۔
سبط حسن مغلیہ دورِ حکومت کے لیے ڈاکٹر برنیئر کا حوالہ دیتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ ’ڈاکٹر برنیئر ہندوستان اس وقت آیا تھا جب مغلوں کی حکومت اور مغلیہ تہذیب پورے شباب پر تھی مگر برنیئر کے تاثرات سے بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ اس تہذیب کی ساری چمک دمک بڑی سطحی اور مغلوں کے جاہ و حشم کی بنیاد بڑی کھوکھلی تھی، چنانچہ اورنگزیب کی وفات کے بعد یہ عمارت بھیگے ہوئے بتاشے کی طرح بیٹھ گئی کیونکہ جس جاگیری اور منصب داری نظام پر مغلیہ سلطنت کا مدار تھا وہ 17ویں صدی میں اپنی افادیت کھو بیٹھا تھا۔ اس میں معاشرے کو آگے بڑھانے کی تخلیقی صلاحیت باقی نہیں رہی تھی۔ مغلیہ تہذیب چونکہ محلاتی تہذیب تھی اس کا سرچشمہ بادشاہ کی ذات اور شاہی خاندان کے افراد تھے، محلوں سے نکل کر یہ تہذیب عمائدین سلطنت کی حویلیوں میں داخل ہوئی تھی اور وہاں سے شہر کے گلی کوچوں تک پہنچی تھی۔ عام مسلمان چونکہ اپنے آپ کو حکمرانوں میں شمار کرتے تھے اس لیے وہ بھی اپنی اپنی بساط کے مطابق مغلیہ تہذیب کی تقلید کرتے تھے۔ مگر عام ہندوؤں اور بالخصوص دیہات کے ہندوؤں نے اس غیر ملکی تہذیب کو قبول نہیں کیا۔ البتہ راجپوتوں، کائیستھوں اور بیوپاریوں نے جن کو ملازمت یا بیوپار کے سلسلے میں دربار سے برابر واسطہ پڑتا تھا مغلوں کی بہت سی باتیں، زبان، لباس اور آداب مجلس اپنالیں‘۔
ڈاکٹر فیدور کرووکن کے مطابق ’17 ویں صدی میں پنجاب میں سکھ تحریک اٹھی۔ گوبند سنگھ (1675ء ۔ 1708ء) نے جاگیرداروں کے خلاف جدوجہد کو تیز کیا اور مرہٹوں کی بغاوت جس میں شیواجی نے خود کو مرہٹوں کا آزاد حکمران ہونے کا اعلان کردیا، کی وجہ سے ریاست مہاراشٹر کے علاوہ چار اور نئی مرہٹہ ریاستیں وجود میں آئیں‘۔
ڈاکٹر ستیش چندر لکھتے ہیں کہ ’1686ء میں جمنا کے علاقے کے جاٹوں نے دوبارہ بغاوت کی جس کا سردار ’راجہ رام‘ تھا۔ اس نے جگہ جگہ خوفناک جنگل میں چھوٹے چھوٹے قلعے بنالیے تھے جن کا محاصرہ کرنا مشکل تھا۔ وجہ یہ تھی کہ جاٹ کسان زمیندار راجپوتوں کو اپنا آقا ماننے کے لیے تیار نہیں تھے‘۔
اورنگزیب کے زمانے میں پٹھانوں کی بغاوت کی بھڑکتی ہوئی آگ بھی ہمیں نظر آتی ہے۔ راجپوتوں اور مرہٹوں کی جدوجہد کا پس منظر جاٹوں، سکھوں اور پٹھانوں کی جدوجہد سے بہت مختلف تھا۔ راجپوتوں کے ساتھ مغلوں کے تعلقات دیرینہ تھے اور مغل حکومت کی ترقی اور استحکام میں راجپوتوں کا بڑا ہاتھ رہا۔ سریندر ناتھ سرکار کی رائے میں ’راجپوتوں اور مغلوں میں کشمکش کی وجہ اورنگزیب کی سخت مذہبی پالیسی تھی‘۔
اورنگزیب (1658ء ۔ 1707ء) کی موت کے بعد عارضی طور پر سکھوں اور مرہٹوں کی بغاوت کو تو کچل دیا گیا تھا مگر اب وہ وقت تھا کہ مغلیہ سلطنت بکھرنے کے دہانے پر کھڑی تھی۔
یہاں اگر ہم دیکھیں تو اکبر نے بھی 50 برس حکومت کی اور اورنگزیب نے بھی 50 برس حکومت کی۔ اکبر کے 50 برس مغلیہ سلطنت کے اگتے سورج کی مثل ہیں جبکہ عالمگیر کے 50 برس اس سلطنت کے ڈوبتے سورج کی طرح ہیں۔
سبط حسن تحریر کرتے ہیں کہ ’اورنگزیب کے زمانے میں شریعت کی سخت گیریوں کے باعث فکر و فن اور علم و ادب کے سوتے خشک ہوگئے۔اس پر طرفہ تماشا یہ ہوا کہ بادشاہ نے دہلی کو خیرآباد کہا اور تسخیر دکن میں مصروف ہوگیا۔ 25 سال لگاتار کوششوں سے یہ مہم سر تو ہوئی لیکن سرِ شام۔ ادھر اورنگزیب کو اجل کا پیغام آیا ادھر سلطنت مغلیہ کا آفتابِ اقبال رات کی تاریکی میں ہمیشہ کے لیے ڈوب گیا‘۔
سبط حسن مزید لکھتے ہیں کہ ’اورنگزیب کی کامیابیاں اور ناکامیاں ہمارا موضوع نہیں لیکن اتنی بات تو اس کے بڑے سے بڑے حامی کو بھی ماننی پڑتی ہے کہ علمی اور تہذیبی خدمات میں عالمگیری عہد کا حصہ قریب قریب صفر کے برابر ہے۔ اورنگزیب نے تخت نشین ہوکر درباری گویوں کو برطرف اور موسیقی کو ممنوع قرار دیا لیکن اورنگزیب کے جانشینوں نے اعتدال اور شائستگی کی تمام حدیں توڑ ڈالیں، ناچ گانا فن نہ رہا بلکہ عیاشی کا وسیلہ بن گیا اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ مسخرے اور نقال بوڑھے بوڑھے امیروں کی سرِ دربار پگڑیاں اچھالنے لگے۔ بادشاہوں کے شب و روز انہی بدقماشوں کی صحبت میں بسر ہونے لگے اور ان رنگ رلیوں میں کسی کو بھی سلطنت کے فرائض کا ہوش نہ رہا۔ مغلوں کے اخلاقی انحطاط کا اندازہ اسی سے ہوتا ہے کہ محمد شاہ (1719ء ۔ 1748ء) جو ابوالمظفر ناصرالدین غازی کے لقب سے تخت پر بیٹھے تھے، تاریخ میں محمد شاہ رنگیلا کے نام سے مشہور ہوئے‘۔
مغل سلطنت کے 17ویں صدی کے زوال کے حوالہ سے ہمارے اس سفر کا اختتام ہو رہا ہے۔ اس سفر میں منوچی کے سوا ہمارے ساتھ اور بھی بہت سارے ساتھی رہے۔ ہم ان سب کے شکر گزار ہیں کہ ان کے تحقیقی مواد کی مدد نہ ہوتی تو یہ سفر ہمارے لیے بہت مشکل ثابت ہوتا۔ ہم اس سفر کو اور بھی طویل کرسکتے تھے جیسے اورنگزیب کے دور کے بیوپاری یا جراح کیسے تھے، گھر اور موسم کیسے تھے یا سب سے دلچسپ وہ حصہ جس میں اورنگزیب کے سفر کی انتہائی دلچسپ حقیقتیں ہیں کہ ایک بادشاہ کس طرح سفر کرتا ہے اور جہاں جہاں سے اس کا گزر ہوتا ہے اور جہاں پر وہ شب بسری کرے گا تو وہاں کے انتظامات کس طرح کیے جاتے تھے اور بادشاہ کے قافلے کے ساتھ ایک مکمل بازار (جو ایک چھوٹے شہر جیسا ہوتا جہاں ضرورتِ زندگی کا سارا سامان مل جاتا تھا) کس طرح سفر کرتا یہ انتہائی دلچسپ مناظر ہیں۔ کسی اگلے سفر میں ہم آپ کو ضرور ساتھ لے کر بادشاہ کے قافلے کے ساتھ چلیں گے اور ان بازاروں کی آپ کو سیر کرائیں گے۔
اس طویل سفر میں بہت کچھ سیکھنے جیسا ہے کہ ذہنوں کو علم کی مثبت روشنی سے ضرور منور ہونا چاہیے۔ زندگی کوئی اتنی طویل نہیں ہوتی جس میں بیٹھ کر ہم نفرتوں کے بیچ بوئیں اور ان کو پانی دیتے دیتے عمریں گزر جائیں۔ سب سے بڑا جوہر ہے مثبت سوچنا اور انتہا پسندی کی اس کانٹے دار جھاڑی سے بچنا جو کسی بھی حالت میں ہو کیونکہ اس نے آپ کو زخمی کرکے ہی چھوڑنا ہے۔ انتہاپسندی کی کوئی قسم نہیں ہوتی، اس کا بس ایک ہی روپ ہے کہ ہر عمل اور سوچ کو آخری لکیر تک لے جاتی ہے اور آخری لکیر کے آگے نہ کوئی راستہ ہے اور نہ ہی کوئی پگڈنڈی وہاں سے پھوٹ کر نکلتی ہے جو حیات اور زندگی کے خوبصورت بازاروں تک جائے اور ایسی حالت میں وہاں کھائی ہی ہوتی ہے جس میں گرنا یقینی ہوجاتا ہے۔ انتہاپسندی میں لچک نہیں ہوتی ہے اور اس کائنات کا نظام کچھ ایسا ہے کہ جس چیز میں لچک نہ ہو اس کا ٹوٹنا مقدر ہوتا ہے۔
حوالہ جات
- ’ہندوستان عہد مغلیہ میں‘، نیکولاؤ منوچی، ملک راج شرما، لاہور
- ’عہد ظلمات‘، ششی تھرور، 2021ء، عکس پبلیکیشنز، لاہور
- ’نگری نگری پھرا مسافر‘، ابوبکر شیخ، 2018ء سنگ میل پبلیکیشنز، لاہور
- ’تاریخ ہند‘، ای مارسڈن، 2021ء (ترجمہ) بُک ہوم، لاہور
- ’پاکستان میں تہذیب کا ارتقا‘، سبط حسن، 2017ء، مکتبہ دانیال، کراچی
- ’مغل دربار کی سیاست اور گروہ بندیاں‘، ڈاکٹرستیش چندر، 2012ء، سیونتھ اسکائی پبلیکیشنز، لاہور
- ’تاریخ عالم‘، ڈاکٹر فیدور کرووکن، 2015ء، جمہوری پبلیکیشنز، لاہور
تبصرے (3) بند ہیں