ایک فضائی میزبان کی آپ بیتی: ہوائی جہاز کی ناک اونچی کیوں رہتی ہے
میں بچپن میں جب آسمان پر اُڑتے پرندوں کو دیکھتا تھا تو سوچتا تھا کہ کاش میں بھی کوئی پرندہ ہی ہوتا۔ ہر جگہ اُڑتا پھرتا۔ کوئی ذمہ داری نہیں اور نہ ہی کوئی پوچھ گچھ کرنے والا۔
پھر مجھے معلوم ہوا کہ جہاز بھی کوئی چیز ہوتی ہے جو آسمان میں اُڑتی ہے۔ ایک مشین جو بالکل پرندوں کی مانند آزاد فضاؤں میں گھومتی ہے تو میں نے سوچا کاش میں کوئی پرندہ ہی ہوتا۔ ظاہر ہے اب بندہ کوئی مشین تو نہیں بن سکتا نا۔
پھر جب فضائی میزبان بن کر جہاز میں اُڑنا شروع کیا تو ایک دن مجھے خیال آیا کہ اللّٰہ میاں نے میری ’کاش‘ والی خواہش کو واقعتاً ’آکاش‘ تک پہنچا دیا ہے۔
جس طرح کوئی پرندہ اُڑتے وقت اپنے مکمل پَر پھیلا لیتا ہے بالکل اسی طرح جہاز کے پَر بھی پھیلا دیے جاتے ہیں۔ وہ ایسے کہ جہاز کے پَروں کی چوڑائی کو، آگے اور پیچھے کی جانب سے بڑھایا اور گھٹایا جاسکتا ہے۔ جو اضافی ٹکڑے پَروں کی چوڑائی بڑھانے میں مدد دیتے ہیں ان کو فلیپس اور سلیٹس (Flaps & Slats) کہا جاتا ہے۔ ان کو ٹیک آف اور لینڈنگ کے وقت کام میں لایا جاتا ہے۔ ان کے زاویے بدل بدل کر رن وے پر دوڑتے جہاز سے ٹکراتی ہوا کو اڑان بھرنے کے لیے سازگار بنایا جاتا ہے۔ اسی طرح جہاز کو زمین پر اتارتے وقت ان کی مدد سے ’ایئر بریک‘ بھی لگائی جاتی ہے جس سے جہاز کی رفتار میں کمی آتی ہے۔
جہاز ویسے ذات پات پر یقین نہیں رکھتے لیکن اپنی ناک اونچی رکھنے کے لیے پورے جتن ’کرواتے‘ ہیں۔ جہاز کی ناک اونچی رکھنے میں ہی مسافروں اور عملے کا فائدہ ہے۔ ظاہر سی بات ہے جی کہ جہاز کی ناک اونچی رہے گی تو ہی ٹیک آف ہوگا۔ سفر کے دوران بھی جہاز کی ناک سیدھی ہی رہتی ہے لیکن نیچی نہیں ہوتی۔ زمین پر اترنے کی تیاری کرتے وقت بھی جہاز کی ناک مبارک میں بس اتنی جنبش ہوتی ہے جیسے پکتی ہانڈی کا ڈھکن ہٹا کر بندہ اٹھتی بھاپ کی خوشبو سونگھے۔
جہاز کی ناک ایک حقیقت ہے جس کو انگریزی میں بھی ’Nose‘ ہی کہا جاتا ہے۔ یہ جہاز کا سب سے اگلا حصہ ہوتا ہے جو خاص گولائی میں بناکر فٹ کیا جاتا ہے تاکہ ہوا کو چیر پھاڑ کر اڑان بھرنے میں مددگار ہو۔
اسی مناسبت سے جہاز کے اگلے پہیے نوز گیئر ’Nose Gear‘ کہلاتے ہیں اور پچھلے پہیوں کو مین لینڈنگ گیئر (Main Landing Gear) کہا جاتا ہے یعنی زمین پر اترنے کے لیے مرکزی پہیے۔
جہاز کے اترتے وقت پہلے پچھلے پہیے زمین سے ٹکراتے ہیں اور سارا بوجھ اور جھٹکا برداشت کرتے ہیں۔ اس کے بعد نوز گیئر کو بصد احترام زمین پر ٹکایا جاتا ہے، کیا کریں ناک کا معاملہ درپیش ہوتا ہے۔ اب کیا ہو اگر یہ جہاز کے پہیے ہی کام کرنا چھوڑ دیں تو جہاز زمین پر کیسے اترے؟ اس ہنگامی صورتحال میں جہاز کو پیٹ کے بل اتارا جاتا ہے اور اسے ’Belly landing‘ ہی کہا جاتا ہے۔
بچپن میں ایک مرتبہ کسی ڈیم کی سیر کو جانا ہوا۔ گاڑی کے لمبے سفر سے جان جاتی تھی اور طبعیت اس قدر بوجھل ہوجاتی تھی کہ معدے کے قیدیوں کو گاڑی کے شیشے سے منہ باہر نکال کر آزاد کرنا پڑتا تھا۔ ایک جگہ اترے تو ڈھلوان تھی۔ سب بچے بھاگ رہے تھے تو میں بھی بھاگا لیکن توازن برقرار نہ رہ سکا اور اس پتھریلی زمین پر Belly Landing کا شاندار مظاہرہ کرتے ہوئے کچھ فٹ دُور تک پھسلتا چلا گیا۔ جب میری بریک لگی تو مجھے ادراک ہوا کہ میرے ’پہیوں‘ نے بروقت کام نہیں کیا لہٰذا ہمت کرکے اٹھا تو میرے منہ، پیٹ اور بازوؤں پر کسی پرانے افریقی قبیلے کے آباؤ اجداد کے خاندانی نشانات ثبت ہوچکے تھے۔
جہاز کو اگر پیٹ کے بل اتارنا پڑجائے تو اس کے لیے عملہ مسافروں کو تیار کرتا ہے۔ چونکہ اس ہنگامی حالت کے بارے میں پائلٹ اور عملے کو معلوم ہوتا ہے اس لیے اسے ’Planned Emergency‘ کہا جاتا ہے۔ مسافروں سے وہ تمام نوکیلی چیزیں لے لی جاتی ہیں جس سے ان کو خطرہ ہو۔ جیسے نظر کا چشمہ، سامنے کی جیب میں رکھا قلم اور یہاں تک کہ ایڑھی والے جوتے بھی اتارنے کا کہا جاتا ہے تاکہ جھٹکا لگنے پر جسم کو نقصان نہ پہنچے اور جہاز سے نکلتے وقت جوتے کی ایڑھی لگنے سے ربڑ کی سلائیڈ نہ پھٹ جائے۔ اس طرح کی لینڈنگ میں جہاز کو زبردست جھٹکا لگنے کا خطرہ ہوتا ہے۔ لہذٰا مسافروں کو اس جھٹکے سے بچنے کے لیے حفاظتی پوزیشن بتائی جاتی ہے تاکہ جھٹکے کے اثر کو کم سے کم کیا جاسکے۔
اس موقع پر تمام زمینی عملے کو مطلع کردیا جاتا ہے اور طبّی امداد پہنچانے والے عملے کے ساتھ آگ بجھانے والا عملہ بھی رن وے پر موجود ہوتا ہے کیونکہ جہاز کی زمین سے رگڑ کے نتیجے میں آگ لگنے کا خطرہ کئی گناہ بڑھ جاتا ہے۔
ظاہر سی بات ہے اس طرح کی ہنگامی حالت کا کوئی پائلٹ ’مشتاق‘ نہیں ہوتا لیکن اس کا ’مشاق‘ ہونا بہرحال ضروری ہوتا ہے۔
عملے کے سینئر اراکین بتاتے ہیں کہ 80 اور 90 کی دہائی میں اسلام آباد اور جرمنی کے شہر فرینکفرٹ میں اس طرح کی کامیاب لینڈنگ ہوچکی ہے۔ لینڈنگ کے بعد جہاز کے رکتے ہی محفوظ دروازوں سے 90 سیکنڈ کے اندر تمام مسافروں کو جہاز سے باہر نکالنا ہوتا ہے۔ ایسی صورتحال میں مسافروں کو ربڑ کی سلائیڈ پر پھسل کر نیچے اترنے کا کہا جاتا ہے اور اترتے ہی جہاز سے دُور بھاگنے کا کہا جاتا ہے۔
میں تو بس یہ دعا کرتا ہوں کہ ہر جہاز کی ناک اونچی رہے اور کبھی بھی غریب والدین کی طرح جہاز کا ’پیٹ کاٹ‘ کر مسافروں کو نہ نکالنا پڑے۔
تبصرے (3) بند ہیں