• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm

صوبائی حکومت کے اپنے کئی اراکین ان سے خوش نہیں ہیں، گورنر پنجاب

شائع December 27, 2022
گورنر پنجاب نے کہا کہ اسپیکر آئین سے متصادم کوئی چیز نہیں کہہ سکتا—فوٹو: ڈان نیوز
گورنر پنجاب نے کہا کہ اسپیکر آئین سے متصادم کوئی چیز نہیں کہہ سکتا—فوٹو: ڈان نیوز

پنجاب کے گورنر بلیغ الرحمٰن نے کہا ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب کو اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے کہا جس کی کئی وجوہات بتائیں اور ان کے اپنے کئی اراکین ان سے خوش نہیں ہیں۔

جیو نیوز کے پروگرام ’کیپٹل ٹاک‘ میں گفتگو کے دوران وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہٰی کو ڈی نوٹیفائی کرنے کے حوالے سے سوال پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ہماری جدوجہد آئین کی بالادستی کے لیے ہے اور ہم سوچ بھی نہیں سکتے کہ کوئی غیرآئینی کام ہمارے ذریعے ہو یا کسی طرح ملوث ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ عدالت میں دائر درخواست میں یہ نہیں کہا گیا کہ یہ اقدام غیرآئینی ہے بلکہ مؤقف اپنایا گیا کہ ایک اجلاس چل رہا تھا تو دوسرا اجلاس کیسے بلایا جاتا یا وقت کم دیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ بعض لوگ کہتے نظر آئے کہ 58 ٹوبی کی یاد تازہ ہوگئی تو 58 ٹو بی میں پوری اسمبلی کو چلتا کرتے ہیں اور یہ شق اسمبلی کو بچانے کے لیے ہے، اسمبلی کو گھر چلتا عمران خان کر رہے تھے اور کہہ رہے تھے بوریا بسترا گول کریں چلیں۔

بلیغ الرحمٰن کا کہنا تھا کہ کیا اسپیکر آئین سے متصادم کوئی چیز کہہ سکتا ہے یا آئین کا دیا ہوا حق سلب کرسکتا ہے تو بالکل نہیں کرسکتا ہے، گورنر جو صوبے کا آئینی سربراہ ہے اس کو آئین اختیارات دیتا ہے اور اسپیکر کو بھی آئین اختیارات دیتا ہے اور ماورائے آئین کوئی بھی چیز نہیں کہی جاسکتی۔

لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ عدالت نے اگلی پیشی تک ملتوی کردیا ہے اور اس پر ہم نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی ہے اور سوالات اٹھائے ہیں کہ گورنر کو اختیارات نہیں تھے اور کیا اسپیکر کو رکاوٹ بننا چاہیے تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کا فرمانا یہ ہے ہمارا اجلاس ختم نہیں ہوا اور ہم اجلاس کے اوپر اجلاس نہیں بلا سکتے تو یہ اجلاس کتنے عرصے سے چل رہا ہے اور ختم نہیں کرتے بلکہ ملتوی کرکے اگلی تاریخ دیتے ہیں اور مدت ختم ہونے یا غیرمعینہ مدت تک اجلاس جاری رہے تو اس کا مطلب ہے وہ گورنر کو آئین جو حق دیتا ہے وہ سلب کردیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنے آئینی حق کے تحت کام کیا تھا اور فیصلے میں انہیں عبوری ریلیف دیا گیا ہے اور 11 جنوری کو اگلی سماعت ہے، یہ مستقل فیصلہ نہیں ہے جس کو غلط کہا جائے۔

پنجاب میں گورنر راج لگانے سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ گورنر راج ایک فائدہ مند چیز نہیں ہے اور ہماری ہر ممکن کوشش ہوگی کہ اس نہج تک نہ پہنچا جائے لیکن گورنر راج بھی آئین کی ایک شق ہے اور بہت سوچ سمجھ کر رکھا گیا ہے اور امید ہے اس کی نوبت نہیں آئے گی لیکن آئین میں اس کی گنجائش ہے جو سب سے آخری فیصلہ ہے۔

گورنر پنجاب نے کہا کہ وزیراعلیٰ کے پاس اسمبلی توڑنے کا آئینی حق ہے اور وہ اس کا استعمال کر سکتے ہیں لیکن جمہوریت پسند کی حیثیت سے اسمبلی توڑنا کبھی پسند نہیں کیا لیکن اگر وہ اسمبلی توڑنا چاہتے ہیں تو اعتماد کا ووٹ لیں اور اس کے بعد توڑنا چاہیں تو ایسا کرسکتے ہیں۔

مسلم لیگ (ن) کا الیکشن سے بھاگنے کے تاثر سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ میرا تعلق مسلم لیگ (ن) سے رہا ہے لیکن بحیثیت گورنر میں تمام سیاسی جماعتوں کا خیال رکھتا ہوں اور حکومت پنجاب سے بھی اچھا تعلق رکھا اور جامعات سے متعلق جو معاملات ہوتے ہیں فوری منظور کرتے ہیں سوائے ان معاملات کے جن پر اعتراض ہوتا ہے وہ تجاویز کے ساتھ واپس کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ انتخابات نہ کرانے کے حوالے سے اتحادی حکومت کے پاس معقول وجوہات ہیں، سیلاب کی صورت حال ہے اور گزشتہ ماہ میں سیہون گیا تھا وہاں کئی جگہوں پر پانی نہیں اترا اور ساڑھے 3 کروڑ بے گھر ہوگئے ہیں اور حکومت سمجھتی ہے کہ لوگوں کے لیے بحالی کا کام کرنا ہے تو کیسے ووٹ لینے کے لیے جاسکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کی جو رائے ہے وہ ٹھیک ہے، اگر صوبے میں یہ اسمبلی توڑتے ہیں تو انتخابات کی طرف جانے کا موقع ہوسکتا ہے اور ضرورت پڑی تو جانا ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک دلیل موجود ہے اور اگر عمران خان صاحب جلد انتخابات چاہتے ہیں اور دو صوبوں کی اسمبلیاں توڑنے سے جلد انتخابات ہوں گے تو سیاست اپنا راستہ لے گی۔

بلیغ الرحمٰن نے کہا کہ وزیراعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے کہا تھا تو اس میں کئی وجوہات لکھی تھیں اور ان کے اپنے کئی اراکین اس حکومت سے خوش نہیں ہیں اور مجھ سے تمام جماعتوں کے اراکین ملتے ہیں لیکن جوڑ توڑ میں ملوث نہیں ہوں۔

وزیراعلیٰ پنجاب کی ڈی نوٹیفائی کرنے کے لیے نوٹیفکیشن جاری کرنے والے سرکاری افسران کے خلاف کارروائی سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ یہ میرے علم میں نہیں ہے، اگر کارروائی ہوئی ہے تو مذمت کرتا ہوں اور میرے علم میں یہ معاملہ آیا تو اس کو دیکھیں گے۔

ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ آئین میں ایسی گنجائش نہیں ہے کہ کوئی شوقیہ طور پر کھڑے کھڑے گورنر کو ہٹائے جبکہ گورنر قواعد کے مطابق وزیراعلیٰ کو ڈی نوٹیفائی کر سکتا ہے۔

تبصرے (1) بند ہیں

rizwan soomro Dec 28, 2022 09:03am
illegal work imported govt hi karti

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024