2022ء میں سب سے زیادہ پڑھے جانے والے بلاگز
ڈان بلاگز کی ٹیم نے ہر سال کی طرح رواں سال بھی قارئین کے لیے کھیل، سیاحت، سیاست، معیشت، سماج، فلم، ادب، تاریخ، طنز و مزاح اور حالات حاضرہ کے موضوعات پر بروقت، جامع اور مصدقہ تبصرے اور تجزیے پیش کیے۔
اس ضمن میں ہمیں لکھاریوں کا بھی بھرپور تعاون حاصل رہا جنہوں نے مختلف موضوعات پر ہمیں بروقت تحریریں ارسال کیں۔ ڈان بلاگز کی ٹیم نے ان تحریروں کو جانچ کر غیر جانبدار اور سخت عمل سے گزارا جو ڈان کا خاصا ہے۔ تحریروں کی جانچ پرکھ کے بعد رواں سال کم و بیش 550 تحریروں کو قارئین کے لیے پیش کیا گیا۔
یہاں ڈان بلاگز کے قارئین کا ذکر بھی ضروری ہے جنہوں نے ڈان بلاگز کو نہ صرف پسند کیا بلکہ اپنے تبصروں کے ذریعے اس کا اظہار بھی کیا۔ یہ تبصرے ڈان بلاگز کی ٹیم کے لیے حوصلہ افزائی کا باعث بنے۔
چاہے میدانِ سیاست ہو یا پھر کھیل کا میدان، سال 2022ء قومی اور بین الاقوامی سطح پر بڑی تبدیلیوں اور اہم واقعات کا سال تھا۔ روس یوکرین جنگ ہو یا سری لنکا کی صورتحال یا پھر مشرق وسطیٰ کا بدلتا منظرنامہ، ڈان بلاگز نے ہر حوالے سے قارئین تک بروقت اور بہترین تجزیے پہنچائے۔
قومی سیاست میں تحریکِ عدم اعتماد اور اس کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال سے لے کر اس دوران ہونے والے ضمنی انتخابات اور سال کے اختتام پر نئے سپہ سالار کی تقرری تک ہر اہم معاملے پر ڈان بلاگز نے اپنے قارئین کو آگاہ رکھا۔
کھیل کی دنیا میں بھی 2022ء غیر معمولی سال تھا جہاں پاکستان میں پاکستان سپر لیگ کا اہتمام کیا گیا وہیں آسٹریلیا میں آئی سی سی ٹی20 ورلڈ کپ کا انعقاد ہوا۔ سال کے آخر میں قطر میں دنیا کا سب سے بڑا مقابلہ فیفا ورلڈ کپ منعقد ہوا۔ ڈان بلاگز نے ان تینوں مقابلوں کے حوالے سے خصوصی بلاگز قارئین کے لیے پیش کیے۔
علاوہ ازیں فیفا ورلڈکپ 2022ء کی کوریج کے حوالے سے ڈان بلاگز نے دیگر تمام اردو ویب سائٹس کو پیچھے چھوڑ دیا۔ ڈان بلاگز نے جہاں اہم میچوں کا احوال شائع کیا وہیں فیفا ڈائری کے عنوان سے ایک خصوصی سلسلہ تحریر بھی شائع کیا جسے قارئین نے خوب سراہا۔
آئیے اس غیر معمولی سال کے اختتام پر نظر ڈالتے ہیں کہ رواں سال ڈان نیوز ڈاٹ ٹی وی پر سب سے زیادہ پڑھے جانے والے بلاگز کون سے رہے۔
گاڑی کے مسائل اور ان کے حل سے متعلق مکمل گائیڈ لائن
گاڑی کی مناسب دیکھ بھال کے حوالے سے لکھا گیا یہ بلاگ رواں سال سب سے زیادہ پڑھا جانے والا بلاگ رہا۔ ایک غیر معمولی موضوع پر لکھے گئے اس بلاگ کی اس قدر پذیرائی قارئین کے رجحان اور پسند کا پتا دیتی ہے۔
اس بلاگ میں فواد احمد نے نئی اور پرانی گاڑیوں کی مناسب دیکھ بھال کے حوالے سے تمام نکات کو تفصیلی طور پر بیان کیا ہے۔ لکھاری نے گاڑی کے انجن سے لے کر ریڈی ایٹر اور ٹائروں تک ہر چیز کے بارے میں اہم اور بنیادی نکات تحریر کیے ہیں۔
مصنف کے مطابق انہوں نے اس تحریر کے ذریعے وہ تمام معلومات آپ تک پہنچانے کی کوشش کی ہے جن کا علم ہر گاڑی کے مالک کو ضرور ہونا چاہیے۔ ان معلومات سے نہ صرف آپ کسی بڑے نقصان سے بچ سکتے ہیں بلکہ گاڑی کی خرابی سے ہونے والی تکلیف سے بھی خود کو محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ انہوں نے وضاحت کی کہ یہ تمام معلومات تجربے کا نچوڑ ہیں جو صرف خرابی کا اندازہ لگانے میں معاون ہوسکتی ہیں یا یوں کہہ لیں کہ گاڑی کے ڈاکٹر یعنی مکینک کو خرابی سمجھانے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہیں۔
کیا پاکستان بھی سری لنکا کی طرح دیوالیہ ہو سکتا ہے؟
رواں سال پاکستانی معیشت کے حوالے سے جو سوال سب سے زیادہ پوچھا گیا وہ یہی تھا کہ کیا پاکستان ڈیفالٹ کرسکتا ہے؟ شاید ایسا کم ہی دیکھنے میں آیا ہے کہ عوام میں ملکی معیشت کے بارے میں اس قدر خدشات موجود تھے۔ اس کی ایک وجہ جہاں ملک کی سیاسی صورتحال اور سیاسی رہنماؤں کے بیانات تھے تو وہیں ایک اہم وجہ سری لنکا کا ڈیفلاٹ کرنا بھی تھا۔
اسی ضمن میں ڈان بلاگز نے ملکی معاشی صورتحال کے حوالے سے ایک جامع بلاگ شائع کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس بلاگ میں میاں عمران احمد نے نہ صرف سری لنکا کے دیوالیہ ہونے کی وجوہات کو تفصیل سے بیان کیا بلکہ یہ بھی بتایا کہ پاکستان کی صورتحال کن کن والوں سے سری لنکا سے مختلف ہے۔
بلاگ میں پاکستان کی معیشت کو درپیش مشکلات اور ان کی ممکنہ وجوہات کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کی معاشی مشکلات کا حل بھی پیش کیا گیا۔
جے 10 سی طیارہ پاکستان کے لیے کتنا اہم ہے اور کیوں؟
بھارت کی جانب سے فرانس سے رافیل جنگی خریدے جانے کے بعد پاک فضائیہ کی جانب سے چینی ساختہ جے 10 سی طیاروں کی خریداری اس خطے کے دفاعی منظرنامے پر ایک اہم واقعہ تھا۔ اس بلاگ میں راجہ کامران نے نہ صرف اس طیارے کی خریداری کی وجوہات بیان کی ہیں بلکہ طیارے میں دستیاب تکنیکی صلاحیتوں سے بھی قارئین کو آگاہ کیا ہے۔
کورونا وبا کے باوجود پاک فضائیہ نے یہ طیارے 8 ماہ کی قلیل مدت میں اپنے بیڑے میں شامل کیے تھے۔ پاکستان ایئر فورس نے 4 دہائیوں کے بعد ایک جدید ترین طیارے کو اپنے بیڑے میں شامل کیا۔ اس سے قبل 1982ء میں ایف 16 طیارے پاک فضائیہ کے بیڑے کا حصہ بنے تھے۔
جے 10 سی چین میں تیار ہونے والا پہلا لڑاکا طیارہ ہے جس کو مغربی لڑاکا طیاروں کا ہم پلہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس طیارے کو چین میں Meng Long اور Vigorous Dragon کے ناموں سے جانا جاتا ہے۔ جبکہ مغرب خصوصاً نیٹو ممالک نے اس کو Firebird کا نام دیا ہے۔
ماہرین کے مطابق یہ طیارہ یورو اسٹار اور ایف 16 طیارے کے مساوی صلاحیتوں کا حامل 4.5 جنریشن ایئر کرافٹ ہے۔ اس طیارے میں بی وی آر (انسانی آنکھ کے دیکھنے کی صلاحیت سے باہر) ہدف کو نشانہ بنانے والے فضا سے فضا اور فضا سے زمین پر مار کرنے والے میزائل فائر کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ فضا سے فضا میں 200 کلو میٹر تک مار کرنے والے پی ایل 15 میزائل اور قریب مار کرنے والے پی ایل 8 میزائل، اس کے علاوہ زمین پر مار کرنے کے لیے جے 10 سی 500 کلو گرام سے زائد وزن کے لیزر گائیڈڈ بم، فری فال بم اور 90 ایم ایم راکٹ سے لیس ہے۔ طیارے میں ایک نالی کی 23 ملی میٹر کی مشین گن بھی نصب ہے۔
سی پیک سیاحت: شاہراہِ قراقرم پر پہلا قدم (پہلی قسط)
پاکستان کے شمالی علاقہ جات قدرتی حسن میں اپنی مثال آپ ہیں اور سیاحتی مقامات سے مالا مال ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے سیاحتی مقامات کے حوالے سے ہر تحریر ہی قارئین دلچسپی سے پڑھتے ہیں۔
عبیداللہ کیہر کی جانب سے سیاحت کے حوالے سے لکھا گیا یہ بلاگ دنیا کا آٹھواں عجوبہ کہلائی جانے والی شاہراہِ قراقرم پر سفر کی کہانی ہے۔
سی پیک کے آغاز کے بعد سے شاہراہِ قراقرم کو خصوصی حیثیت حاصل ہوگئی ہے لیکن یہ کہانی 1985ء میں شاہراہِ قراقرم پر کیے جانے والے ایک سفر کی ہے۔ لکھاری اس شاہراہِ قراقرم پر سفر کرتے ہوئے چین کے شہر کاشغر تک گئے اور اس ٖسفر کی قسط وار کہانی ڈان بلاگز کے قارئین کے لیے پیش کی، یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔
لکھاری کے مطابق دریائے سندھ کے کنارے ہندوکش کے فلک بوس پہاڑوں سے چمٹی ہوئی دنیا کے خطرناک ترین راستوں سے گزرتی ہوئی یہ سڑک پٹن، کومیلا، داسو، سازین، شتیال، چلاس، تھک گاہ، تتہ پانی، رائے کوٹ اور جگلوٹ سے ہوتی ہوئی گلگت پہنچتی ہے۔ پھر گلگت سے آگے یہ دریائے ہنزہ کے کنارے کنارے کوہِ قراقرم کے دامن میں دنیور، نگر، کریم آباد، ہنزہ، شیش کٹ، گلمت، پھسو، مارخن اور گرچا کے دُور افتادہ پہاڑی قصبوں سے ہوتی ہوئی پاکستان کے آخری قصبے سست تک پہنچ جاتی ہے۔
سست سے آگے یہ سڑک مزید بلندیوں کی طرف مائل ہوتے ہوئے پاکستان کے آخری گاؤں مسگر کے قریب سے گزرتی ہوئی سطح سمندر سے 16 ہزار فٹ بلند برفانی درّے خنجراب تک پہنچ جاتی ہے جہاں پاکستان کی حدود ختم ہوجاتی ہیں اور شاہراہِ قراقرم عوامی جمہوریہ چین میں داخل ہوجاتی ہے۔
انقلابی مزاحمت کی علامت معراج محمد خان سے چند ملاقاتوں کا احوال
معراج محمد خان کا شمار ان معدودے چند افراد میں ہوتا ہے کہ جو وطنِ عزیز کی سیاسی تاریخ میں اجلے کردار کے مالک تھے۔ معراج محمد خان کے ساتھ ہونے والی ملاقاتوں کے احوال پر مبنی یہ بلاگ رواں سال قارئین میں بہت مقبول رہا۔
عامر اشرف نے اس بلاگ میں معراج محمد خان کی ابتدائی زندگی، تقسیمِ ہند، ہجرت، ابتدائی تعلیم اور ملکی سیاست میں ان کے کردار، قید و بند کی صعوبتوں غرض ان کی زندگی کے ہر ہر پہلو کا تفصیلی ذکر کیا ہے۔ ساتھ ہی بلاگ میں پاکستان کی تاریخ کے اہم واقعات کے حوالے سے معراج محمد خان کا تجزیہ بھی شامل ہے۔
اس بلاگ میں معراج محمد خان کے بچپن کا ایک دلچسپ واقعہ بھی نقل کیا گیا ہے۔ معراج محمد خان کے مطابق ’انگریز کے خلاف ہمارے گھر میں ہر وقت باتیں ہوتی تھیں۔ آزادی کی باتیں ہوا کرتی تھیں تو ہم بھی ان سب چیزوں سے متاثر ہوگئے تھے۔ ایک دفعہ 1946ء میں ملاحوں کی انگریز سے بہت مشہور بغاوت ہوئی تھی، اس دوران انگریز فوجی شہر میں ہر جگہ آگئے تھے تو گھر کے نیچے انگریز فوجی کھڑا دیکھ کر ہم نے گملا پھینک دیا تھا، گوکہ ہم چھوٹے تھے لیکن انگریز کے خلاف ہم پر یہ اثر تھا کہ ہم نے اور ہماری بھانجی نے مل کر ایک گملا اوپر سے پھینک دیا تھا‘۔
وزیرِاعظم کا دورہ ماسکو: کیا پاکستان نے اپنا رخ بدلنے کا فیصلہ کرلیا؟
سابق وزیرِاعظم عمران خان کا دورہ ماسکو انتہائی غیر معمولی ماحول میں مکمل ہوا کیونکہ ان کی ماسکو موجودگی میں ہی صدر پیوٹن نے یوکرین کے خلاف فوجی آپریشن کا اعلان کیا۔
اس وقت ماسکو کو امریکا اور نیٹو اتحاد سزا دینے اور اچھوت بنانے کی دھمکیاں دے رہا تھا اور ایسے وقت میں پاکستان کے امریکا اور نیٹو کے پرانے اتحادی ہونے کی حیثیت سے عمران خان کے دورے کو دیکھنے کی کوشش ہوئی۔
اس بلاگ میں آصف شاہد نے روس کے یوکرین پر حملے کے پس منظر کو پیش کرنے کے ساتھ اس کے بعد رونما ہونے والی ممکنہ تبدیلیوں اور پاکستان پر اس حملے کے سفارتی مضمرات کے حوالے سے بات کی۔
اس حوالے سے لکھاری کا کہنا تھا کہ اس دورے کے لیے عجلت دکھائی گئی جو مناسب نہیں تھی۔ کسی بھی کیمپ کا حصہ بننے سے پہلے حکمتِ عملی طے کی جانی چاہیے اور یہ حکمتِ عملی کسی فرد کو تشکیل دینے کا اختیار نہیں، اس کے لیے عوام کے نمائندہ فورم پارلیمنٹ سے رہنمائی لی جانی چاہیے تھی۔
پاکستان میں بے نظیر بھٹو کی آخری سالگرہ کی یادیں!
پاکستان کی سابق وزیرِاعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کے یومِ پیدائش کے موقع پر شائع ہونے والے اس بلاگ میں غزالہ فصیح نے بے نظیر بھٹو کی پولیٹیکل سیکریٹری اور محرم راز ناہید خان سے گفتگو کی اور ان کی زبانی پاکستان میں بے نظیر بھٹو کی منائی گئی آخری سالگرہ کی روداد قارئین تک پہنچائی۔
ناہید خان نے پاکستان میں محترمہ کی آخری سالگرہ کی یادیں تازہ کرتے ہوئے بتایا کہ ’21 جون 98ء کو ہم نے بی بی کی سالگرہ کوکونٹ گروو میں منائی۔ یہ ریسٹورنٹ آرٹس کونسل کے پاس تھا مگر اب ختم ہوچکا ہے۔ بی بی اپنی سالگرہ ہمیشہ نجی سطح پر چند گنے چنے دوستوں کے ساتھ مناتی تھیں البتہ پارٹی کی سطح پر الگ تقریبات ہوتی تھیں۔ اس سالگرہ میں وہ بہت خوش اور خوبصورت نظر آ رہی تھیں۔ انہوں نے شوخ رنگ کا لباس زیب تن کیا ہوا تھا اور سب دوستوں سے ہنسی مذاق کر رہی تھیں۔ سالگرہ میں میرے اور صفدر (ناہید خان کے شوہر ڈاکٹر صفدر عباسی) کے علاوہ بی بی کی کلاس فیلوز سمیعہ وحید، سلمیٰ وحید، اسکول کی دوست ٹُچی (مسز راشد)، کزن فخری بیگم، کزن طارق اور اس کی بیگم یاسمین اور کزن کا بیٹا جہانزیب جس کے والدین لندن میں تھے اور وہ اپنی تعلیم کی وجہ سے بی بی کے پاس رہتا تھا شریک تھے۔ بی بی کا پسندیدہ چاکلیٹ کیک منگوایا گیا تھا۔ بے نظیر اپنے دوستوں کے حلقے میں دل کھول کر ہنستی تھیں، وہ مزاح پسند کرتی تھیں اور خود بھی لطائف سناتی تھیں۔ پاکستان میں یہ ان کی آخری سالگرہ ثابت ہوئی، کیونکہ اپریل 1999ء میں وہ دبئی چلی گئی تھیں‘۔
ناہید خان کے ساتھ ہونے والی یہ گفتگو صرف بے نظیر بھٹو کی سالگرہ تک ہی محدود ہی نہیں رہی بلکہ انہوں نے محترمہ کی پوری سیاست اور زندگی میں آنے والے نشیب و فراز پر بھی گفتگو کی جو قارئین نے بےحد پسند کی۔
امریکی صدر جو بائیڈن کا دورہ مشرق وسطٰی اور ہم!
امریکی صدر جو بائیڈن کے دورہ مشرقی وسطیٰ کے حوالے سے لکھاجانے والا یہ بلاگ رواں سال قارئین نے بہت پسند کیا۔ اس بلاگ میں وسی بابا نے امریکا-اسرائیل تعلقات کے ماضی اور مستقبل پر روشنی ڈالی۔
لکھاری کے مطابق اسرائیلی حکام کو امریکا میں ٹف ٹائم دینے والوں میں بائیڈن پہلے نمبر پر رہے ہیں۔ لبنان پر حملے کے بعد جب اسرائیلی وزیرِاعظم مناخم بیگن امریکا پہنچے تو ریگن کے ساتھ ان کی ملاقات خوشگوار رہی۔ سینیٹ کی خارجہ امور کمیٹی میں ان کی جھڑپ بائیڈن کے ساتھ ہوگئی جہاں بائیڈن نے لبنان حملے سے زیادہ اسرائیل کی توسیع پسندانہ تعمیراتی پالیسی پر تنقید کی اور امداد بند کرنے کی دھمکی دی۔ میز پر مکے مارے تو اسرائیلی وزیرِاعظم نے کہا کہ بائیڈن یہ رائٹنگ ٹیبل ہے مکے مارنے کو نہیں بنی۔ مجھے دھمکیاں مت دو، میں فخریہ یہودی ہوں اور اپنے 3 ہزار سال کی ثقافت پر فخر کرتا ہوں۔ دھمکیوں سے مؤقف نہیں بدلوں گا۔
اس بلاگ میں لکھاری نے یہ بھی بتایا کہ ’ہمارے دوست اور حریف ملک پوزیشن بدل رہے ہیں۔ ہمارے لیے سوچنے کی بات بس ایک ہے کہ جو کچھ ہمارے اردگرد ہو رہا اس سب کا اثر تو ہم پر لازمی پڑے گا لیکن ہم کہیں اس میں متعلق ہیں؟ اس کو دیکھ سمجھ بھی رہے ہیں یا نہیں؟ ہمارے پاس کسی سفارتی پہل کاری کے لیے گنجائش کتنی رہ گئی ہے جبکہ ہم معیشت کے لیے مجبور بھی ہیں کہ انہی دوست ملکوں کی طرف دیکھیں جو خود اب کہیں اور دیکھ رہے ہیں‘۔
صحافت کا حق ادا کرنے والے ارشد شریف سے بس ’ریڈ لائن‘ کراس ہوگئی!
کینیا میں پاکستانی صحافی ارشد شریف کے قتل کی خبر نے صرف صحافتی برادری کو ہی نہیں بلکہ عام افراد کو بھی متاثر کیا تھا۔ اس قتل کے حوالے سے سوالات بہت زیادہ اور جوابات بہت کم دستیاب ہیں۔
ارشد شریف کے قتل کے بعد ان کے ساتھ کام کرنے والے افراد نے اپنے اپنے طریقوں سے انہیں یاد کیا۔ یہ بلاگ بھی ماضی میں ارشد شریف کے ساتھ کام کرنے والے صحافی عاطف خان کی تحریر ہے جس میں انہوں نے نہ صرف ارشد شریف کی پیشہ ورانہ قابلیت کو تسلیم کیا بلکہ بحیثیت انسان بھی ان کے رویے اور برتاؤ کی تعریف کی۔
لکھاری کے یہ جملے واقعی دل کو لگتے ہیں کہ ’ارشد کو اس کے والد نے اصرار کرکے آرمی میڈیکل کالج میں داخلہ دلوایا تھا لیکن وہ وہاں سے بھاگ گیا کہ اسے کچھ اور کرنا ہے۔ ارشد کے والد آخری وقت تک ارشد کے اس فیصلے پر برہم تھے۔ ’یہ صحافت بھی کوئی پیشہ ہوتا ہے؟‘، وہ ارشد کے دوستوں کو کہا کرتے تھے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ صحافت میں آیا تو پیشے کا حق ادا کردیا‘۔
اہمیت پاکستانی فلموں کی نہیں، معیاری فلموں کی ہونی چاہیے!
رواں سال ڈان بلاگز نے دیگر موضوعات کی طرح فلمی صنعت کو بھی موضوع بنایا۔ خرم سہیل کے لکھے گئے اس بلاگ میں لکھاری نے پاکستانی فلمی صنعت کی مخدوش حالت کا تجزیہ کرتے ہوئے اس کی وجوہات پر روشنی ڈالی ہے۔
لکھاری نے اس تحریر میں پاکستانی فلم سازوں کے اس رویے پر سخت تنقید کی کہ سال بھر فلمیں ریلیز کرنے کے بجائے صرف عید پر فلمیں ریلیز کی جاتی ہیں۔ لکھاری کے مطابق اس رویے کے باعث تمام فلموں کو مناسب تعداد میں شوز ملنا مشکل ہوتے ہیں۔
لکھاری نے پاکستان میں فلم انڈسٹری کی بحالی کو سراہتے ہوئے یہ بھی کہا کہ پاکستان میں فلمیں بننا خوش آئند امر ہے تاہم ان فلموں کی مقبولیت اور بہتر کاروبار کے لیے ضروری ہے کہ یہ فلمیں معیاری بھی ہوں۔
انہوں نے چند مقامی فلم سازو کی جانب سے ایک ہولی ووڈ فلم پر ظاہر کیے گئے خدشات پر تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ ’چند ایک فلم ساز چاہتے ہیں کہ ہولی وڈ کی فلمیں بھی اس ملک میں آنا بند ہوجائیں، اور صرف ان مقامی فلم سازوں کی ڈراما نما فلموں کو دیکھنے عوام کا تانتا سینما تھیٹرز میں بندھا رہے اور سب جانتے ہیں کہ یہ دیوانے کا خواب ہے کیونکہ فلم بین کو سینما تھیٹرز تک لانے کے لیے معیاری کام کرنا پہلی شرط ہے۔‘
ڈان بلاگز
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
گاڑی کی مناسب دیکھ بھال کے حوالے سے لکھا گیا یہ بلاگ رواں سال سب سے زیادہ پڑھا جانے والا بلاگ رہا۔ ایک غیر معمولی موضوع پر لکھے گئے اس بلاگ کی اس قدر پذیرائی قارئین کے رجحان اور پسند کا پتا دیتی ہے۔
اس بلاگ میں فواد احمد نے نئی اور پرانی گاڑیوں کی مناسب دیکھ بھال کے حوالے سے تمام نکات کو تفصیلی طور پر بیان کیا ہے۔ لکھاری نے گاڑی کے انجن سے لے کر ریڈی ایٹر اور ٹائروں تک ہر چیز کے بارے میں اہم اور بنیادی نکات تحریر کیے ہیں۔
مصنف کے مطابق انہوں نے اس تحریر کے ذریعے وہ تمام معلومات آپ تک پہنچانے کی کوشش کی ہے جن کا علم ہر گاڑی کے مالک کو ضرور ہونا چاہیے۔ ان معلومات سے نہ صرف آپ کسی بڑے نقصان سے بچ سکتے ہیں بلکہ گاڑی کی خرابی سے ہونے والی تکلیف سے بھی خود کو محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ انہوں نے وضاحت کی کہ یہ تمام معلومات تجربے کا نچوڑ ہیں جو صرف خرابی کا اندازہ لگانے میں معاون ہوسکتی ہیں یا یوں کہہ لیں کہ گاڑی کے ڈاکٹر یعنی مکینک کو خرابی سمجھانے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہیں۔
کیا پاکستان بھی سری لنکا کی طرح دیوالیہ ہو سکتا ہے؟
رواں سال پاکستانی معیشت کے حوالے سے جو سوال سب سے زیادہ پوچھا گیا وہ یہی تھا کہ کیا پاکستان ڈیفالٹ کرسکتا ہے؟ شاید ایسا کم ہی دیکھنے میں آیا ہے کہ عوام میں ملکی معیشت کے بارے میں اس قدر خدشات موجود تھے۔ اس کی ایک وجہ جہاں ملک کی سیاسی صورتحال اور سیاسی رہنماؤں کے بیانات تھے تو وہیں ایک اہم وجہ سری لنکا کا ڈیفلاٹ کرنا بھی تھا۔
اسی ضمن میں ڈان بلاگز نے ملکی معاشی صورتحال کے حوالے سے ایک جامع بلاگ شائع کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس بلاگ میں میاں عمران احمد نے نہ صرف سری لنکا کے دیوالیہ ہونے کی وجوہات کو تفصیل سے بیان کیا بلکہ یہ بھی بتایا کہ پاکستان کی صورتحال کن کن والوں سے سری لنکا سے مختلف ہے۔
بلاگ میں پاکستان کی معیشت کو درپیش مشکلات اور ان کی ممکنہ وجوہات کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کی معاشی مشکلات کا حل بھی پیش کیا گیا۔
جے 10 سی طیارہ پاکستان کے لیے کتنا اہم ہے اور کیوں؟
بھارت کی جانب سے فرانس سے رافیل جنگی خریدے جانے کے بعد پاک فضائیہ کی جانب سے چینی ساختہ جے 10 سی طیاروں کی خریداری اس خطے کے دفاعی منظرنامے پر ایک اہم واقعہ تھا۔ اس بلاگ میں راجہ کامران نے نہ صرف اس طیارے کی خریداری کی وجوہات بیان کی ہیں بلکہ طیارے میں دستیاب تکنیکی صلاحیتوں سے بھی قارئین کو آگاہ کیا ہے۔
کورونا وبا کے باوجود پاک فضائیہ نے یہ طیارے 8 ماہ کی قلیل مدت میں اپنے بیڑے میں شامل کیے تھے۔ پاکستان ایئر فورس نے 4 دہائیوں کے بعد ایک جدید ترین طیارے کو اپنے بیڑے میں شامل کیا۔ اس سے قبل 1982ء میں ایف 16 طیارے پاک فضائیہ کے بیڑے کا حصہ بنے تھے۔
جے 10 سی چین میں تیار ہونے والا پہلا لڑاکا طیارہ ہے جس کو مغربی لڑاکا طیاروں کا ہم پلہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس طیارے کو چین میں Meng Long اور Vigorous Dragon کے ناموں سے جانا جاتا ہے۔ جبکہ مغرب خصوصاً نیٹو ممالک نے اس کو Firebird کا نام دیا ہے۔
ماہرین کے مطابق یہ طیارہ یورو اسٹار اور ایف 16 طیارے کے مساوی صلاحیتوں کا حامل 4.5 جنریشن ایئر کرافٹ ہے۔ اس طیارے میں بی وی آر (انسانی آنکھ کے دیکھنے کی صلاحیت سے باہر) ہدف کو نشانہ بنانے والے فضا سے فضا اور فضا سے زمین پر مار کرنے والے میزائل فائر کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ فضا سے فضا میں 200 کلو میٹر تک مار کرنے والے پی ایل 15 میزائل اور قریب مار کرنے والے پی ایل 8 میزائل، اس کے علاوہ زمین پر مار کرنے کے لیے جے 10 سی 500 کلو گرام سے زائد وزن کے لیزر گائیڈڈ بم، فری فال بم اور 90 ایم ایم راکٹ سے لیس ہے۔ طیارے میں ایک نالی کی 23 ملی میٹر کی مشین گن بھی نصب ہے۔
سی پیک سیاحت: شاہراہِ قراقرم پر پہلا قدم (پہلی قسط)
پاکستان کے شمالی علاقہ جات قدرتی حسن میں اپنی مثال آپ ہیں اور سیاحتی مقامات سے مالا مال ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے سیاحتی مقامات کے حوالے سے ہر تحریر ہی قارئین دلچسپی سے پڑھتے ہیں۔
عبیداللہ کیہر کی جانب سے سیاحت کے حوالے سے لکھا گیا یہ بلاگ دنیا کا آٹھواں عجوبہ کہلائی جانے والی شاہراہِ قراقرم پر سفر کی کہانی ہے۔
سی پیک کے آغاز کے بعد سے شاہراہِ قراقرم کو خصوصی حیثیت حاصل ہوگئی ہے لیکن یہ کہانی 1985ء میں شاہراہِ قراقرم پر کیے جانے والے ایک سفر کی ہے۔ لکھاری اس شاہراہِ قراقرم پر سفر کرتے ہوئے چین کے شہر کاشغر تک گئے اور اس ٖسفر کی قسط وار کہانی ڈان بلاگز کے قارئین کے لیے پیش کی، یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔
لکھاری کے مطابق دریائے سندھ کے کنارے ہندوکش کے فلک بوس پہاڑوں سے چمٹی ہوئی دنیا کے خطرناک ترین راستوں سے گزرتی ہوئی یہ سڑک پٹن، کومیلا، داسو، سازین، شتیال، چلاس، تھک گاہ، تتہ پانی، رائے کوٹ اور جگلوٹ سے ہوتی ہوئی گلگت پہنچتی ہے۔ پھر گلگت سے آگے یہ دریائے ہنزہ کے کنارے کنارے کوہِ قراقرم کے دامن میں دنیور، نگر، کریم آباد، ہنزہ، شیش کٹ، گلمت، پھسو، مارخن اور گرچا کے دُور افتادہ پہاڑی قصبوں سے ہوتی ہوئی پاکستان کے آخری قصبے سست تک پہنچ جاتی ہے۔
سست سے آگے یہ سڑک مزید بلندیوں کی طرف مائل ہوتے ہوئے پاکستان کے آخری گاؤں مسگر کے قریب سے گزرتی ہوئی سطح سمندر سے 16 ہزار فٹ بلند برفانی درّے خنجراب تک پہنچ جاتی ہے جہاں پاکستان کی حدود ختم ہوجاتی ہیں اور شاہراہِ قراقرم عوامی جمہوریہ چین میں داخل ہوجاتی ہے۔
انقلابی مزاحمت کی علامت معراج محمد خان سے چند ملاقاتوں کا احوال
معراج محمد خان کا شمار ان معدودے چند افراد میں ہوتا ہے کہ جو وطنِ عزیز کی سیاسی تاریخ میں اجلے کردار کے مالک تھے۔ معراج محمد خان کے ساتھ ہونے والی ملاقاتوں کے احوال پر مبنی یہ بلاگ رواں سال قارئین میں بہت مقبول رہا۔
عامر اشرف نے اس بلاگ میں معراج محمد خان کی ابتدائی زندگی، تقسیمِ ہند، ہجرت، ابتدائی تعلیم اور ملکی سیاست میں ان کے کردار، قید و بند کی صعوبتوں غرض ان کی زندگی کے ہر ہر پہلو کا تفصیلی ذکر کیا ہے۔ ساتھ ہی بلاگ میں پاکستان کی تاریخ کے اہم واقعات کے حوالے سے معراج محمد خان کا تجزیہ بھی شامل ہے۔
اس بلاگ میں معراج محمد خان کے بچپن کا ایک دلچسپ واقعہ بھی نقل کیا گیا ہے۔ معراج محمد خان کے مطابق ’انگریز کے خلاف ہمارے گھر میں ہر وقت باتیں ہوتی تھیں۔ آزادی کی باتیں ہوا کرتی تھیں تو ہم بھی ان سب چیزوں سے متاثر ہوگئے تھے۔ ایک دفعہ 1946ء میں ملاحوں کی انگریز سے بہت مشہور بغاوت ہوئی تھی، اس دوران انگریز فوجی شہر میں ہر جگہ آگئے تھے تو گھر کے نیچے انگریز فوجی کھڑا دیکھ کر ہم نے گملا پھینک دیا تھا، گوکہ ہم چھوٹے تھے لیکن انگریز کے خلاف ہم پر یہ اثر تھا کہ ہم نے اور ہماری بھانجی نے مل کر ایک گملا اوپر سے پھینک دیا تھا‘۔
وزیرِاعظم کا دورہ ماسکو: کیا پاکستان نے اپنا رخ بدلنے کا فیصلہ کرلیا؟
سابق وزیرِاعظم عمران خان کا دورہ ماسکو انتہائی غیر معمولی ماحول میں مکمل ہوا کیونکہ ان کی ماسکو موجودگی میں ہی صدر پیوٹن نے یوکرین کے خلاف فوجی آپریشن کا اعلان کیا۔
اس وقت ماسکو کو امریکا اور نیٹو اتحاد سزا دینے اور اچھوت بنانے کی دھمکیاں دے رہا تھا اور ایسے وقت میں پاکستان کے امریکا اور نیٹو کے پرانے اتحادی ہونے کی حیثیت سے عمران خان کے دورے کو دیکھنے کی کوشش ہوئی۔
اس بلاگ میں آصف شاہد نے روس کے یوکرین پر حملے کے پس منظر کو پیش کرنے کے ساتھ اس کے بعد رونما ہونے والی ممکنہ تبدیلیوں اور پاکستان پر اس حملے کے سفارتی مضمرات کے حوالے سے بات کی۔
اس حوالے سے لکھاری کا کہنا تھا کہ اس دورے کے لیے عجلت دکھائی گئی جو مناسب نہیں تھی۔ کسی بھی کیمپ کا حصہ بننے سے پہلے حکمتِ عملی طے کی جانی چاہیے اور یہ حکمتِ عملی کسی فرد کو تشکیل دینے کا اختیار نہیں، اس کے لیے عوام کے نمائندہ فورم پارلیمنٹ سے رہنمائی لی جانی چاہیے تھی۔
پاکستان میں بے نظیر بھٹو کی آخری سالگرہ کی یادیں!
پاکستان کی سابق وزیرِاعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کے یومِ پیدائش کے موقع پر شائع ہونے والے اس بلاگ میں غزالہ فصیح نے بے نظیر بھٹو کی پولیٹیکل سیکریٹری اور محرم راز ناہید خان سے گفتگو کی اور ان کی زبانی پاکستان میں بے نظیر بھٹو کی منائی گئی آخری سالگرہ کی روداد قارئین تک پہنچائی۔
ناہید خان نے پاکستان میں محترمہ کی آخری سالگرہ کی یادیں تازہ کرتے ہوئے بتایا کہ ’21 جون 98ء کو ہم نے بی بی کی سالگرہ کوکونٹ گروو میں منائی۔ یہ ریسٹورنٹ آرٹس کونسل کے پاس تھا مگر اب ختم ہوچکا ہے۔ بی بی اپنی سالگرہ ہمیشہ نجی سطح پر چند گنے چنے دوستوں کے ساتھ مناتی تھیں البتہ پارٹی کی سطح پر الگ تقریبات ہوتی تھیں۔ اس سالگرہ میں وہ بہت خوش اور خوبصورت نظر آ رہی تھیں۔ انہوں نے شوخ رنگ کا لباس زیب تن کیا ہوا تھا اور سب دوستوں سے ہنسی مذاق کر رہی تھیں۔ سالگرہ میں میرے اور صفدر (ناہید خان کے شوہر ڈاکٹر صفدر عباسی) کے علاوہ بی بی کی کلاس فیلوز سمیعہ وحید، سلمیٰ وحید، اسکول کی دوست ٹُچی (مسز راشد)، کزن فخری بیگم، کزن طارق اور اس کی بیگم یاسمین اور کزن کا بیٹا جہانزیب جس کے والدین لندن میں تھے اور وہ اپنی تعلیم کی وجہ سے بی بی کے پاس رہتا تھا شریک تھے۔ بی بی کا پسندیدہ چاکلیٹ کیک منگوایا گیا تھا۔ بے نظیر اپنے دوستوں کے حلقے میں دل کھول کر ہنستی تھیں، وہ مزاح پسند کرتی تھیں اور خود بھی لطائف سناتی تھیں۔ پاکستان میں یہ ان کی آخری سالگرہ ثابت ہوئی، کیونکہ اپریل 1999ء میں وہ دبئی چلی گئی تھیں‘۔
ناہید خان کے ساتھ ہونے والی یہ گفتگو صرف بے نظیر بھٹو کی سالگرہ تک ہی محدود ہی نہیں رہی بلکہ انہوں نے محترمہ کی پوری سیاست اور زندگی میں آنے والے نشیب و فراز پر بھی گفتگو کی جو قارئین نے بےحد پسند کی۔
امریکی صدر جو بائیڈن کا دورہ مشرق وسطٰی اور ہم!
امریکی صدر جو بائیڈن کے دورہ مشرقی وسطیٰ کے حوالے سے لکھاجانے والا یہ بلاگ رواں سال قارئین نے بہت پسند کیا۔ اس بلاگ میں وسی بابا نے امریکا-اسرائیل تعلقات کے ماضی اور مستقبل پر روشنی ڈالی۔
لکھاری کے مطابق اسرائیلی حکام کو امریکا میں ٹف ٹائم دینے والوں میں بائیڈن پہلے نمبر پر رہے ہیں۔ لبنان پر حملے کے بعد جب اسرائیلی وزیرِاعظم مناخم بیگن امریکا پہنچے تو ریگن کے ساتھ ان کی ملاقات خوشگوار رہی۔ سینیٹ کی خارجہ امور کمیٹی میں ان کی جھڑپ بائیڈن کے ساتھ ہوگئی جہاں بائیڈن نے لبنان حملے سے زیادہ اسرائیل کی توسیع پسندانہ تعمیراتی پالیسی پر تنقید کی اور امداد بند کرنے کی دھمکی دی۔ میز پر مکے مارے تو اسرائیلی وزیرِاعظم نے کہا کہ بائیڈن یہ رائٹنگ ٹیبل ہے مکے مارنے کو نہیں بنی۔ مجھے دھمکیاں مت دو، میں فخریہ یہودی ہوں اور اپنے 3 ہزار سال کی ثقافت پر فخر کرتا ہوں۔ دھمکیوں سے مؤقف نہیں بدلوں گا۔
اس بلاگ میں لکھاری نے یہ بھی بتایا کہ ’ہمارے دوست اور حریف ملک پوزیشن بدل رہے ہیں۔ ہمارے لیے سوچنے کی بات بس ایک ہے کہ جو کچھ ہمارے اردگرد ہو رہا اس سب کا اثر تو ہم پر لازمی پڑے گا لیکن ہم کہیں اس میں متعلق ہیں؟ اس کو دیکھ سمجھ بھی رہے ہیں یا نہیں؟ ہمارے پاس کسی سفارتی پہل کاری کے لیے گنجائش کتنی رہ گئی ہے جبکہ ہم معیشت کے لیے مجبور بھی ہیں کہ انہی دوست ملکوں کی طرف دیکھیں جو خود اب کہیں اور دیکھ رہے ہیں‘۔
صحافت کا حق ادا کرنے والے ارشد شریف سے بس ’ریڈ لائن‘ کراس ہوگئی!
کینیا میں پاکستانی صحافی ارشد شریف کے قتل کی خبر نے صرف صحافتی برادری کو ہی نہیں بلکہ عام افراد کو بھی متاثر کیا تھا۔ اس قتل کے حوالے سے سوالات بہت زیادہ اور جوابات بہت کم دستیاب ہیں۔
ارشد شریف کے قتل کے بعد ان کے ساتھ کام کرنے والے افراد نے اپنے اپنے طریقوں سے انہیں یاد کیا۔ یہ بلاگ بھی ماضی میں ارشد شریف کے ساتھ کام کرنے والے صحافی عاطف خان کی تحریر ہے جس میں انہوں نے نہ صرف ارشد شریف کی پیشہ ورانہ قابلیت کو تسلیم کیا بلکہ بحیثیت انسان بھی ان کے رویے اور برتاؤ کی تعریف کی۔
لکھاری کے یہ جملے واقعی دل کو لگتے ہیں کہ ’ارشد کو اس کے والد نے اصرار کرکے آرمی میڈیکل کالج میں داخلہ دلوایا تھا لیکن وہ وہاں سے بھاگ گیا کہ اسے کچھ اور کرنا ہے۔ ارشد کے والد آخری وقت تک ارشد کے اس فیصلے پر برہم تھے۔ ’یہ صحافت بھی کوئی پیشہ ہوتا ہے؟‘، وہ ارشد کے دوستوں کو کہا کرتے تھے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ صحافت میں آیا تو پیشے کا حق ادا کردیا‘۔
اہمیت پاکستانی فلموں کی نہیں، معیاری فلموں کی ہونی چاہیے!
رواں سال ڈان بلاگز نے دیگر موضوعات کی طرح فلمی صنعت کو بھی موضوع بنایا۔ خرم سہیل کے لکھے گئے اس بلاگ میں لکھاری نے پاکستانی فلمی صنعت کی مخدوش حالت کا تجزیہ کرتے ہوئے اس کی وجوہات پر روشنی ڈالی ہے۔
لکھاری نے اس تحریر میں پاکستانی فلم سازوں کے اس رویے پر سخت تنقید کی کہ سال بھر فلمیں ریلیز کرنے کے بجائے صرف عید پر فلمیں ریلیز کی جاتی ہیں۔ لکھاری کے مطابق اس رویے کے باعث تمام فلموں کو مناسب تعداد میں شوز ملنا مشکل ہوتے ہیں۔
لکھاری نے پاکستان میں فلم انڈسٹری کی بحالی کو سراہتے ہوئے یہ بھی کہا کہ پاکستان میں فلمیں بننا خوش آئند امر ہے تاہم ان فلموں کی مقبولیت اور بہتر کاروبار کے لیے ضروری ہے کہ یہ فلمیں معیاری بھی ہوں۔
انہوں نے چند مقامی فلم سازو کی جانب سے ایک ہولی ووڈ فلم پر ظاہر کیے گئے خدشات پر تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ ’چند ایک فلم ساز چاہتے ہیں کہ ہولی وڈ کی فلمیں بھی اس ملک میں آنا بند ہوجائیں، اور صرف ان مقامی فلم سازوں کی ڈراما نما فلموں کو دیکھنے عوام کا تانتا سینما تھیٹرز میں بندھا رہے اور سب جانتے ہیں کہ یہ دیوانے کا خواب ہے کیونکہ فلم بین کو سینما تھیٹرز تک لانے کے لیے معیاری کام کرنا پہلی شرط ہے۔‘
ڈان بلاگز
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
رواں سال پاکستانی معیشت کے حوالے سے جو سوال سب سے زیادہ پوچھا گیا وہ یہی تھا کہ کیا پاکستان ڈیفالٹ کرسکتا ہے؟ شاید ایسا کم ہی دیکھنے میں آیا ہے کہ عوام میں ملکی معیشت کے بارے میں اس قدر خدشات موجود تھے۔ اس کی ایک وجہ جہاں ملک کی سیاسی صورتحال اور سیاسی رہنماؤں کے بیانات تھے تو وہیں ایک اہم وجہ سری لنکا کا ڈیفلاٹ کرنا بھی تھا۔
اسی ضمن میں ڈان بلاگز نے ملکی معاشی صورتحال کے حوالے سے ایک جامع بلاگ شائع کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس بلاگ میں میاں عمران احمد نے نہ صرف سری لنکا کے دیوالیہ ہونے کی وجوہات کو تفصیل سے بیان کیا بلکہ یہ بھی بتایا کہ پاکستان کی صورتحال کن کن والوں سے سری لنکا سے مختلف ہے۔
بلاگ میں پاکستان کی معیشت کو درپیش مشکلات اور ان کی ممکنہ وجوہات کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کی معاشی مشکلات کا حل بھی پیش کیا گیا۔
جے 10 سی طیارہ پاکستان کے لیے کتنا اہم ہے اور کیوں؟
بھارت کی جانب سے فرانس سے رافیل جنگی خریدے جانے کے بعد پاک فضائیہ کی جانب سے چینی ساختہ جے 10 سی طیاروں کی خریداری اس خطے کے دفاعی منظرنامے پر ایک اہم واقعہ تھا۔ اس بلاگ میں راجہ کامران نے نہ صرف اس طیارے کی خریداری کی وجوہات بیان کی ہیں بلکہ طیارے میں دستیاب تکنیکی صلاحیتوں سے بھی قارئین کو آگاہ کیا ہے۔
کورونا وبا کے باوجود پاک فضائیہ نے یہ طیارے 8 ماہ کی قلیل مدت میں اپنے بیڑے میں شامل کیے تھے۔ پاکستان ایئر فورس نے 4 دہائیوں کے بعد ایک جدید ترین طیارے کو اپنے بیڑے میں شامل کیا۔ اس سے قبل 1982ء میں ایف 16 طیارے پاک فضائیہ کے بیڑے کا حصہ بنے تھے۔
جے 10 سی چین میں تیار ہونے والا پہلا لڑاکا طیارہ ہے جس کو مغربی لڑاکا طیاروں کا ہم پلہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس طیارے کو چین میں Meng Long اور Vigorous Dragon کے ناموں سے جانا جاتا ہے۔ جبکہ مغرب خصوصاً نیٹو ممالک نے اس کو Firebird کا نام دیا ہے۔
ماہرین کے مطابق یہ طیارہ یورو اسٹار اور ایف 16 طیارے کے مساوی صلاحیتوں کا حامل 4.5 جنریشن ایئر کرافٹ ہے۔ اس طیارے میں بی وی آر (انسانی آنکھ کے دیکھنے کی صلاحیت سے باہر) ہدف کو نشانہ بنانے والے فضا سے فضا اور فضا سے زمین پر مار کرنے والے میزائل فائر کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ فضا سے فضا میں 200 کلو میٹر تک مار کرنے والے پی ایل 15 میزائل اور قریب مار کرنے والے پی ایل 8 میزائل، اس کے علاوہ زمین پر مار کرنے کے لیے جے 10 سی 500 کلو گرام سے زائد وزن کے لیزر گائیڈڈ بم، فری فال بم اور 90 ایم ایم راکٹ سے لیس ہے۔ طیارے میں ایک نالی کی 23 ملی میٹر کی مشین گن بھی نصب ہے۔
سی پیک سیاحت: شاہراہِ قراقرم پر پہلا قدم (پہلی قسط)
پاکستان کے شمالی علاقہ جات قدرتی حسن میں اپنی مثال آپ ہیں اور سیاحتی مقامات سے مالا مال ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے سیاحتی مقامات کے حوالے سے ہر تحریر ہی قارئین دلچسپی سے پڑھتے ہیں۔
عبیداللہ کیہر کی جانب سے سیاحت کے حوالے سے لکھا گیا یہ بلاگ دنیا کا آٹھواں عجوبہ کہلائی جانے والی شاہراہِ قراقرم پر سفر کی کہانی ہے۔
سی پیک کے آغاز کے بعد سے شاہراہِ قراقرم کو خصوصی حیثیت حاصل ہوگئی ہے لیکن یہ کہانی 1985ء میں شاہراہِ قراقرم پر کیے جانے والے ایک سفر کی ہے۔ لکھاری اس شاہراہِ قراقرم پر سفر کرتے ہوئے چین کے شہر کاشغر تک گئے اور اس ٖسفر کی قسط وار کہانی ڈان بلاگز کے قارئین کے لیے پیش کی، یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔
لکھاری کے مطابق دریائے سندھ کے کنارے ہندوکش کے فلک بوس پہاڑوں سے چمٹی ہوئی دنیا کے خطرناک ترین راستوں سے گزرتی ہوئی یہ سڑک پٹن، کومیلا، داسو، سازین، شتیال، چلاس، تھک گاہ، تتہ پانی، رائے کوٹ اور جگلوٹ سے ہوتی ہوئی گلگت پہنچتی ہے۔ پھر گلگت سے آگے یہ دریائے ہنزہ کے کنارے کنارے کوہِ قراقرم کے دامن میں دنیور، نگر، کریم آباد، ہنزہ، شیش کٹ، گلمت، پھسو، مارخن اور گرچا کے دُور افتادہ پہاڑی قصبوں سے ہوتی ہوئی پاکستان کے آخری قصبے سست تک پہنچ جاتی ہے۔
سست سے آگے یہ سڑک مزید بلندیوں کی طرف مائل ہوتے ہوئے پاکستان کے آخری گاؤں مسگر کے قریب سے گزرتی ہوئی سطح سمندر سے 16 ہزار فٹ بلند برفانی درّے خنجراب تک پہنچ جاتی ہے جہاں پاکستان کی حدود ختم ہوجاتی ہیں اور شاہراہِ قراقرم عوامی جمہوریہ چین میں داخل ہوجاتی ہے۔
انقلابی مزاحمت کی علامت معراج محمد خان سے چند ملاقاتوں کا احوال
معراج محمد خان کا شمار ان معدودے چند افراد میں ہوتا ہے کہ جو وطنِ عزیز کی سیاسی تاریخ میں اجلے کردار کے مالک تھے۔ معراج محمد خان کے ساتھ ہونے والی ملاقاتوں کے احوال پر مبنی یہ بلاگ رواں سال قارئین میں بہت مقبول رہا۔
عامر اشرف نے اس بلاگ میں معراج محمد خان کی ابتدائی زندگی، تقسیمِ ہند، ہجرت، ابتدائی تعلیم اور ملکی سیاست میں ان کے کردار، قید و بند کی صعوبتوں غرض ان کی زندگی کے ہر ہر پہلو کا تفصیلی ذکر کیا ہے۔ ساتھ ہی بلاگ میں پاکستان کی تاریخ کے اہم واقعات کے حوالے سے معراج محمد خان کا تجزیہ بھی شامل ہے۔
اس بلاگ میں معراج محمد خان کے بچپن کا ایک دلچسپ واقعہ بھی نقل کیا گیا ہے۔ معراج محمد خان کے مطابق ’انگریز کے خلاف ہمارے گھر میں ہر وقت باتیں ہوتی تھیں۔ آزادی کی باتیں ہوا کرتی تھیں تو ہم بھی ان سب چیزوں سے متاثر ہوگئے تھے۔ ایک دفعہ 1946ء میں ملاحوں کی انگریز سے بہت مشہور بغاوت ہوئی تھی، اس دوران انگریز فوجی شہر میں ہر جگہ آگئے تھے تو گھر کے نیچے انگریز فوجی کھڑا دیکھ کر ہم نے گملا پھینک دیا تھا، گوکہ ہم چھوٹے تھے لیکن انگریز کے خلاف ہم پر یہ اثر تھا کہ ہم نے اور ہماری بھانجی نے مل کر ایک گملا اوپر سے پھینک دیا تھا‘۔
وزیرِاعظم کا دورہ ماسکو: کیا پاکستان نے اپنا رخ بدلنے کا فیصلہ کرلیا؟
سابق وزیرِاعظم عمران خان کا دورہ ماسکو انتہائی غیر معمولی ماحول میں مکمل ہوا کیونکہ ان کی ماسکو موجودگی میں ہی صدر پیوٹن نے یوکرین کے خلاف فوجی آپریشن کا اعلان کیا۔
اس وقت ماسکو کو امریکا اور نیٹو اتحاد سزا دینے اور اچھوت بنانے کی دھمکیاں دے رہا تھا اور ایسے وقت میں پاکستان کے امریکا اور نیٹو کے پرانے اتحادی ہونے کی حیثیت سے عمران خان کے دورے کو دیکھنے کی کوشش ہوئی۔
اس بلاگ میں آصف شاہد نے روس کے یوکرین پر حملے کے پس منظر کو پیش کرنے کے ساتھ اس کے بعد رونما ہونے والی ممکنہ تبدیلیوں اور پاکستان پر اس حملے کے سفارتی مضمرات کے حوالے سے بات کی۔
اس حوالے سے لکھاری کا کہنا تھا کہ اس دورے کے لیے عجلت دکھائی گئی جو مناسب نہیں تھی۔ کسی بھی کیمپ کا حصہ بننے سے پہلے حکمتِ عملی طے کی جانی چاہیے اور یہ حکمتِ عملی کسی فرد کو تشکیل دینے کا اختیار نہیں، اس کے لیے عوام کے نمائندہ فورم پارلیمنٹ سے رہنمائی لی جانی چاہیے تھی۔
پاکستان میں بے نظیر بھٹو کی آخری سالگرہ کی یادیں!
پاکستان کی سابق وزیرِاعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کے یومِ پیدائش کے موقع پر شائع ہونے والے اس بلاگ میں غزالہ فصیح نے بے نظیر بھٹو کی پولیٹیکل سیکریٹری اور محرم راز ناہید خان سے گفتگو کی اور ان کی زبانی پاکستان میں بے نظیر بھٹو کی منائی گئی آخری سالگرہ کی روداد قارئین تک پہنچائی۔
ناہید خان نے پاکستان میں محترمہ کی آخری سالگرہ کی یادیں تازہ کرتے ہوئے بتایا کہ ’21 جون 98ء کو ہم نے بی بی کی سالگرہ کوکونٹ گروو میں منائی۔ یہ ریسٹورنٹ آرٹس کونسل کے پاس تھا مگر اب ختم ہوچکا ہے۔ بی بی اپنی سالگرہ ہمیشہ نجی سطح پر چند گنے چنے دوستوں کے ساتھ مناتی تھیں البتہ پارٹی کی سطح پر الگ تقریبات ہوتی تھیں۔ اس سالگرہ میں وہ بہت خوش اور خوبصورت نظر آ رہی تھیں۔ انہوں نے شوخ رنگ کا لباس زیب تن کیا ہوا تھا اور سب دوستوں سے ہنسی مذاق کر رہی تھیں۔ سالگرہ میں میرے اور صفدر (ناہید خان کے شوہر ڈاکٹر صفدر عباسی) کے علاوہ بی بی کی کلاس فیلوز سمیعہ وحید، سلمیٰ وحید، اسکول کی دوست ٹُچی (مسز راشد)، کزن فخری بیگم، کزن طارق اور اس کی بیگم یاسمین اور کزن کا بیٹا جہانزیب جس کے والدین لندن میں تھے اور وہ اپنی تعلیم کی وجہ سے بی بی کے پاس رہتا تھا شریک تھے۔ بی بی کا پسندیدہ چاکلیٹ کیک منگوایا گیا تھا۔ بے نظیر اپنے دوستوں کے حلقے میں دل کھول کر ہنستی تھیں، وہ مزاح پسند کرتی تھیں اور خود بھی لطائف سناتی تھیں۔ پاکستان میں یہ ان کی آخری سالگرہ ثابت ہوئی، کیونکہ اپریل 1999ء میں وہ دبئی چلی گئی تھیں‘۔
ناہید خان کے ساتھ ہونے والی یہ گفتگو صرف بے نظیر بھٹو کی سالگرہ تک ہی محدود ہی نہیں رہی بلکہ انہوں نے محترمہ کی پوری سیاست اور زندگی میں آنے والے نشیب و فراز پر بھی گفتگو کی جو قارئین نے بےحد پسند کی۔
امریکی صدر جو بائیڈن کا دورہ مشرق وسطٰی اور ہم!
امریکی صدر جو بائیڈن کے دورہ مشرقی وسطیٰ کے حوالے سے لکھاجانے والا یہ بلاگ رواں سال قارئین نے بہت پسند کیا۔ اس بلاگ میں وسی بابا نے امریکا-اسرائیل تعلقات کے ماضی اور مستقبل پر روشنی ڈالی۔
لکھاری کے مطابق اسرائیلی حکام کو امریکا میں ٹف ٹائم دینے والوں میں بائیڈن پہلے نمبر پر رہے ہیں۔ لبنان پر حملے کے بعد جب اسرائیلی وزیرِاعظم مناخم بیگن امریکا پہنچے تو ریگن کے ساتھ ان کی ملاقات خوشگوار رہی۔ سینیٹ کی خارجہ امور کمیٹی میں ان کی جھڑپ بائیڈن کے ساتھ ہوگئی جہاں بائیڈن نے لبنان حملے سے زیادہ اسرائیل کی توسیع پسندانہ تعمیراتی پالیسی پر تنقید کی اور امداد بند کرنے کی دھمکی دی۔ میز پر مکے مارے تو اسرائیلی وزیرِاعظم نے کہا کہ بائیڈن یہ رائٹنگ ٹیبل ہے مکے مارنے کو نہیں بنی۔ مجھے دھمکیاں مت دو، میں فخریہ یہودی ہوں اور اپنے 3 ہزار سال کی ثقافت پر فخر کرتا ہوں۔ دھمکیوں سے مؤقف نہیں بدلوں گا۔
اس بلاگ میں لکھاری نے یہ بھی بتایا کہ ’ہمارے دوست اور حریف ملک پوزیشن بدل رہے ہیں۔ ہمارے لیے سوچنے کی بات بس ایک ہے کہ جو کچھ ہمارے اردگرد ہو رہا اس سب کا اثر تو ہم پر لازمی پڑے گا لیکن ہم کہیں اس میں متعلق ہیں؟ اس کو دیکھ سمجھ بھی رہے ہیں یا نہیں؟ ہمارے پاس کسی سفارتی پہل کاری کے لیے گنجائش کتنی رہ گئی ہے جبکہ ہم معیشت کے لیے مجبور بھی ہیں کہ انہی دوست ملکوں کی طرف دیکھیں جو خود اب کہیں اور دیکھ رہے ہیں‘۔
صحافت کا حق ادا کرنے والے ارشد شریف سے بس ’ریڈ لائن‘ کراس ہوگئی!
کینیا میں پاکستانی صحافی ارشد شریف کے قتل کی خبر نے صرف صحافتی برادری کو ہی نہیں بلکہ عام افراد کو بھی متاثر کیا تھا۔ اس قتل کے حوالے سے سوالات بہت زیادہ اور جوابات بہت کم دستیاب ہیں۔
ارشد شریف کے قتل کے بعد ان کے ساتھ کام کرنے والے افراد نے اپنے اپنے طریقوں سے انہیں یاد کیا۔ یہ بلاگ بھی ماضی میں ارشد شریف کے ساتھ کام کرنے والے صحافی عاطف خان کی تحریر ہے جس میں انہوں نے نہ صرف ارشد شریف کی پیشہ ورانہ قابلیت کو تسلیم کیا بلکہ بحیثیت انسان بھی ان کے رویے اور برتاؤ کی تعریف کی۔
لکھاری کے یہ جملے واقعی دل کو لگتے ہیں کہ ’ارشد کو اس کے والد نے اصرار کرکے آرمی میڈیکل کالج میں داخلہ دلوایا تھا لیکن وہ وہاں سے بھاگ گیا کہ اسے کچھ اور کرنا ہے۔ ارشد کے والد آخری وقت تک ارشد کے اس فیصلے پر برہم تھے۔ ’یہ صحافت بھی کوئی پیشہ ہوتا ہے؟‘، وہ ارشد کے دوستوں کو کہا کرتے تھے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ صحافت میں آیا تو پیشے کا حق ادا کردیا‘۔
اہمیت پاکستانی فلموں کی نہیں، معیاری فلموں کی ہونی چاہیے!
رواں سال ڈان بلاگز نے دیگر موضوعات کی طرح فلمی صنعت کو بھی موضوع بنایا۔ خرم سہیل کے لکھے گئے اس بلاگ میں لکھاری نے پاکستانی فلمی صنعت کی مخدوش حالت کا تجزیہ کرتے ہوئے اس کی وجوہات پر روشنی ڈالی ہے۔
لکھاری نے اس تحریر میں پاکستانی فلم سازوں کے اس رویے پر سخت تنقید کی کہ سال بھر فلمیں ریلیز کرنے کے بجائے صرف عید پر فلمیں ریلیز کی جاتی ہیں۔ لکھاری کے مطابق اس رویے کے باعث تمام فلموں کو مناسب تعداد میں شوز ملنا مشکل ہوتے ہیں۔
لکھاری نے پاکستان میں فلم انڈسٹری کی بحالی کو سراہتے ہوئے یہ بھی کہا کہ پاکستان میں فلمیں بننا خوش آئند امر ہے تاہم ان فلموں کی مقبولیت اور بہتر کاروبار کے لیے ضروری ہے کہ یہ فلمیں معیاری بھی ہوں۔
انہوں نے چند مقامی فلم سازو کی جانب سے ایک ہولی ووڈ فلم پر ظاہر کیے گئے خدشات پر تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ ’چند ایک فلم ساز چاہتے ہیں کہ ہولی وڈ کی فلمیں بھی اس ملک میں آنا بند ہوجائیں، اور صرف ان مقامی فلم سازوں کی ڈراما نما فلموں کو دیکھنے عوام کا تانتا سینما تھیٹرز میں بندھا رہے اور سب جانتے ہیں کہ یہ دیوانے کا خواب ہے کیونکہ فلم بین کو سینما تھیٹرز تک لانے کے لیے معیاری کام کرنا پہلی شرط ہے۔‘
ڈان بلاگز
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
بھارت کی جانب سے فرانس سے رافیل جنگی خریدے جانے کے بعد پاک فضائیہ کی جانب سے چینی ساختہ جے 10 سی طیاروں کی خریداری اس خطے کے دفاعی منظرنامے پر ایک اہم واقعہ تھا۔ اس بلاگ میں راجہ کامران نے نہ صرف اس طیارے کی خریداری کی وجوہات بیان کی ہیں بلکہ طیارے میں دستیاب تکنیکی صلاحیتوں سے بھی قارئین کو آگاہ کیا ہے۔
کورونا وبا کے باوجود پاک فضائیہ نے یہ طیارے 8 ماہ کی قلیل مدت میں اپنے بیڑے میں شامل کیے تھے۔ پاکستان ایئر فورس نے 4 دہائیوں کے بعد ایک جدید ترین طیارے کو اپنے بیڑے میں شامل کیا۔ اس سے قبل 1982ء میں ایف 16 طیارے پاک فضائیہ کے بیڑے کا حصہ بنے تھے۔
جے 10 سی چین میں تیار ہونے والا پہلا لڑاکا طیارہ ہے جس کو مغربی لڑاکا طیاروں کا ہم پلہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس طیارے کو چین میں Meng Long اور Vigorous Dragon کے ناموں سے جانا جاتا ہے۔ جبکہ مغرب خصوصاً نیٹو ممالک نے اس کو Firebird کا نام دیا ہے۔
ماہرین کے مطابق یہ طیارہ یورو اسٹار اور ایف 16 طیارے کے مساوی صلاحیتوں کا حامل 4.5 جنریشن ایئر کرافٹ ہے۔ اس طیارے میں بی وی آر (انسانی آنکھ کے دیکھنے کی صلاحیت سے باہر) ہدف کو نشانہ بنانے والے فضا سے فضا اور فضا سے زمین پر مار کرنے والے میزائل فائر کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ فضا سے فضا میں 200 کلو میٹر تک مار کرنے والے پی ایل 15 میزائل اور قریب مار کرنے والے پی ایل 8 میزائل، اس کے علاوہ زمین پر مار کرنے کے لیے جے 10 سی 500 کلو گرام سے زائد وزن کے لیزر گائیڈڈ بم، فری فال بم اور 90 ایم ایم راکٹ سے لیس ہے۔ طیارے میں ایک نالی کی 23 ملی میٹر کی مشین گن بھی نصب ہے۔
سی پیک سیاحت: شاہراہِ قراقرم پر پہلا قدم (پہلی قسط)
پاکستان کے شمالی علاقہ جات قدرتی حسن میں اپنی مثال آپ ہیں اور سیاحتی مقامات سے مالا مال ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے سیاحتی مقامات کے حوالے سے ہر تحریر ہی قارئین دلچسپی سے پڑھتے ہیں۔
عبیداللہ کیہر کی جانب سے سیاحت کے حوالے سے لکھا گیا یہ بلاگ دنیا کا آٹھواں عجوبہ کہلائی جانے والی شاہراہِ قراقرم پر سفر کی کہانی ہے۔
سی پیک کے آغاز کے بعد سے شاہراہِ قراقرم کو خصوصی حیثیت حاصل ہوگئی ہے لیکن یہ کہانی 1985ء میں شاہراہِ قراقرم پر کیے جانے والے ایک سفر کی ہے۔ لکھاری اس شاہراہِ قراقرم پر سفر کرتے ہوئے چین کے شہر کاشغر تک گئے اور اس ٖسفر کی قسط وار کہانی ڈان بلاگز کے قارئین کے لیے پیش کی، یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔
لکھاری کے مطابق دریائے سندھ کے کنارے ہندوکش کے فلک بوس پہاڑوں سے چمٹی ہوئی دنیا کے خطرناک ترین راستوں سے گزرتی ہوئی یہ سڑک پٹن، کومیلا، داسو، سازین، شتیال، چلاس، تھک گاہ، تتہ پانی، رائے کوٹ اور جگلوٹ سے ہوتی ہوئی گلگت پہنچتی ہے۔ پھر گلگت سے آگے یہ دریائے ہنزہ کے کنارے کنارے کوہِ قراقرم کے دامن میں دنیور، نگر، کریم آباد، ہنزہ، شیش کٹ، گلمت، پھسو، مارخن اور گرچا کے دُور افتادہ پہاڑی قصبوں سے ہوتی ہوئی پاکستان کے آخری قصبے سست تک پہنچ جاتی ہے۔
سست سے آگے یہ سڑک مزید بلندیوں کی طرف مائل ہوتے ہوئے پاکستان کے آخری گاؤں مسگر کے قریب سے گزرتی ہوئی سطح سمندر سے 16 ہزار فٹ بلند برفانی درّے خنجراب تک پہنچ جاتی ہے جہاں پاکستان کی حدود ختم ہوجاتی ہیں اور شاہراہِ قراقرم عوامی جمہوریہ چین میں داخل ہوجاتی ہے۔
انقلابی مزاحمت کی علامت معراج محمد خان سے چند ملاقاتوں کا احوال
معراج محمد خان کا شمار ان معدودے چند افراد میں ہوتا ہے کہ جو وطنِ عزیز کی سیاسی تاریخ میں اجلے کردار کے مالک تھے۔ معراج محمد خان کے ساتھ ہونے والی ملاقاتوں کے احوال پر مبنی یہ بلاگ رواں سال قارئین میں بہت مقبول رہا۔
عامر اشرف نے اس بلاگ میں معراج محمد خان کی ابتدائی زندگی، تقسیمِ ہند، ہجرت، ابتدائی تعلیم اور ملکی سیاست میں ان کے کردار، قید و بند کی صعوبتوں غرض ان کی زندگی کے ہر ہر پہلو کا تفصیلی ذکر کیا ہے۔ ساتھ ہی بلاگ میں پاکستان کی تاریخ کے اہم واقعات کے حوالے سے معراج محمد خان کا تجزیہ بھی شامل ہے۔
اس بلاگ میں معراج محمد خان کے بچپن کا ایک دلچسپ واقعہ بھی نقل کیا گیا ہے۔ معراج محمد خان کے مطابق ’انگریز کے خلاف ہمارے گھر میں ہر وقت باتیں ہوتی تھیں۔ آزادی کی باتیں ہوا کرتی تھیں تو ہم بھی ان سب چیزوں سے متاثر ہوگئے تھے۔ ایک دفعہ 1946ء میں ملاحوں کی انگریز سے بہت مشہور بغاوت ہوئی تھی، اس دوران انگریز فوجی شہر میں ہر جگہ آگئے تھے تو گھر کے نیچے انگریز فوجی کھڑا دیکھ کر ہم نے گملا پھینک دیا تھا، گوکہ ہم چھوٹے تھے لیکن انگریز کے خلاف ہم پر یہ اثر تھا کہ ہم نے اور ہماری بھانجی نے مل کر ایک گملا اوپر سے پھینک دیا تھا‘۔
وزیرِاعظم کا دورہ ماسکو: کیا پاکستان نے اپنا رخ بدلنے کا فیصلہ کرلیا؟
سابق وزیرِاعظم عمران خان کا دورہ ماسکو انتہائی غیر معمولی ماحول میں مکمل ہوا کیونکہ ان کی ماسکو موجودگی میں ہی صدر پیوٹن نے یوکرین کے خلاف فوجی آپریشن کا اعلان کیا۔
اس وقت ماسکو کو امریکا اور نیٹو اتحاد سزا دینے اور اچھوت بنانے کی دھمکیاں دے رہا تھا اور ایسے وقت میں پاکستان کے امریکا اور نیٹو کے پرانے اتحادی ہونے کی حیثیت سے عمران خان کے دورے کو دیکھنے کی کوشش ہوئی۔
اس بلاگ میں آصف شاہد نے روس کے یوکرین پر حملے کے پس منظر کو پیش کرنے کے ساتھ اس کے بعد رونما ہونے والی ممکنہ تبدیلیوں اور پاکستان پر اس حملے کے سفارتی مضمرات کے حوالے سے بات کی۔
اس حوالے سے لکھاری کا کہنا تھا کہ اس دورے کے لیے عجلت دکھائی گئی جو مناسب نہیں تھی۔ کسی بھی کیمپ کا حصہ بننے سے پہلے حکمتِ عملی طے کی جانی چاہیے اور یہ حکمتِ عملی کسی فرد کو تشکیل دینے کا اختیار نہیں، اس کے لیے عوام کے نمائندہ فورم پارلیمنٹ سے رہنمائی لی جانی چاہیے تھی۔
پاکستان میں بے نظیر بھٹو کی آخری سالگرہ کی یادیں!
پاکستان کی سابق وزیرِاعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کے یومِ پیدائش کے موقع پر شائع ہونے والے اس بلاگ میں غزالہ فصیح نے بے نظیر بھٹو کی پولیٹیکل سیکریٹری اور محرم راز ناہید خان سے گفتگو کی اور ان کی زبانی پاکستان میں بے نظیر بھٹو کی منائی گئی آخری سالگرہ کی روداد قارئین تک پہنچائی۔
ناہید خان نے پاکستان میں محترمہ کی آخری سالگرہ کی یادیں تازہ کرتے ہوئے بتایا کہ ’21 جون 98ء کو ہم نے بی بی کی سالگرہ کوکونٹ گروو میں منائی۔ یہ ریسٹورنٹ آرٹس کونسل کے پاس تھا مگر اب ختم ہوچکا ہے۔ بی بی اپنی سالگرہ ہمیشہ نجی سطح پر چند گنے چنے دوستوں کے ساتھ مناتی تھیں البتہ پارٹی کی سطح پر الگ تقریبات ہوتی تھیں۔ اس سالگرہ میں وہ بہت خوش اور خوبصورت نظر آ رہی تھیں۔ انہوں نے شوخ رنگ کا لباس زیب تن کیا ہوا تھا اور سب دوستوں سے ہنسی مذاق کر رہی تھیں۔ سالگرہ میں میرے اور صفدر (ناہید خان کے شوہر ڈاکٹر صفدر عباسی) کے علاوہ بی بی کی کلاس فیلوز سمیعہ وحید، سلمیٰ وحید، اسکول کی دوست ٹُچی (مسز راشد)، کزن فخری بیگم، کزن طارق اور اس کی بیگم یاسمین اور کزن کا بیٹا جہانزیب جس کے والدین لندن میں تھے اور وہ اپنی تعلیم کی وجہ سے بی بی کے پاس رہتا تھا شریک تھے۔ بی بی کا پسندیدہ چاکلیٹ کیک منگوایا گیا تھا۔ بے نظیر اپنے دوستوں کے حلقے میں دل کھول کر ہنستی تھیں، وہ مزاح پسند کرتی تھیں اور خود بھی لطائف سناتی تھیں۔ پاکستان میں یہ ان کی آخری سالگرہ ثابت ہوئی، کیونکہ اپریل 1999ء میں وہ دبئی چلی گئی تھیں‘۔
ناہید خان کے ساتھ ہونے والی یہ گفتگو صرف بے نظیر بھٹو کی سالگرہ تک ہی محدود ہی نہیں رہی بلکہ انہوں نے محترمہ کی پوری سیاست اور زندگی میں آنے والے نشیب و فراز پر بھی گفتگو کی جو قارئین نے بےحد پسند کی۔
امریکی صدر جو بائیڈن کا دورہ مشرق وسطٰی اور ہم!
امریکی صدر جو بائیڈن کے دورہ مشرقی وسطیٰ کے حوالے سے لکھاجانے والا یہ بلاگ رواں سال قارئین نے بہت پسند کیا۔ اس بلاگ میں وسی بابا نے امریکا-اسرائیل تعلقات کے ماضی اور مستقبل پر روشنی ڈالی۔
لکھاری کے مطابق اسرائیلی حکام کو امریکا میں ٹف ٹائم دینے والوں میں بائیڈن پہلے نمبر پر رہے ہیں۔ لبنان پر حملے کے بعد جب اسرائیلی وزیرِاعظم مناخم بیگن امریکا پہنچے تو ریگن کے ساتھ ان کی ملاقات خوشگوار رہی۔ سینیٹ کی خارجہ امور کمیٹی میں ان کی جھڑپ بائیڈن کے ساتھ ہوگئی جہاں بائیڈن نے لبنان حملے سے زیادہ اسرائیل کی توسیع پسندانہ تعمیراتی پالیسی پر تنقید کی اور امداد بند کرنے کی دھمکی دی۔ میز پر مکے مارے تو اسرائیلی وزیرِاعظم نے کہا کہ بائیڈن یہ رائٹنگ ٹیبل ہے مکے مارنے کو نہیں بنی۔ مجھے دھمکیاں مت دو، میں فخریہ یہودی ہوں اور اپنے 3 ہزار سال کی ثقافت پر فخر کرتا ہوں۔ دھمکیوں سے مؤقف نہیں بدلوں گا۔
اس بلاگ میں لکھاری نے یہ بھی بتایا کہ ’ہمارے دوست اور حریف ملک پوزیشن بدل رہے ہیں۔ ہمارے لیے سوچنے کی بات بس ایک ہے کہ جو کچھ ہمارے اردگرد ہو رہا اس سب کا اثر تو ہم پر لازمی پڑے گا لیکن ہم کہیں اس میں متعلق ہیں؟ اس کو دیکھ سمجھ بھی رہے ہیں یا نہیں؟ ہمارے پاس کسی سفارتی پہل کاری کے لیے گنجائش کتنی رہ گئی ہے جبکہ ہم معیشت کے لیے مجبور بھی ہیں کہ انہی دوست ملکوں کی طرف دیکھیں جو خود اب کہیں اور دیکھ رہے ہیں‘۔
صحافت کا حق ادا کرنے والے ارشد شریف سے بس ’ریڈ لائن‘ کراس ہوگئی!
کینیا میں پاکستانی صحافی ارشد شریف کے قتل کی خبر نے صرف صحافتی برادری کو ہی نہیں بلکہ عام افراد کو بھی متاثر کیا تھا۔ اس قتل کے حوالے سے سوالات بہت زیادہ اور جوابات بہت کم دستیاب ہیں۔
ارشد شریف کے قتل کے بعد ان کے ساتھ کام کرنے والے افراد نے اپنے اپنے طریقوں سے انہیں یاد کیا۔ یہ بلاگ بھی ماضی میں ارشد شریف کے ساتھ کام کرنے والے صحافی عاطف خان کی تحریر ہے جس میں انہوں نے نہ صرف ارشد شریف کی پیشہ ورانہ قابلیت کو تسلیم کیا بلکہ بحیثیت انسان بھی ان کے رویے اور برتاؤ کی تعریف کی۔
لکھاری کے یہ جملے واقعی دل کو لگتے ہیں کہ ’ارشد کو اس کے والد نے اصرار کرکے آرمی میڈیکل کالج میں داخلہ دلوایا تھا لیکن وہ وہاں سے بھاگ گیا کہ اسے کچھ اور کرنا ہے۔ ارشد کے والد آخری وقت تک ارشد کے اس فیصلے پر برہم تھے۔ ’یہ صحافت بھی کوئی پیشہ ہوتا ہے؟‘، وہ ارشد کے دوستوں کو کہا کرتے تھے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ صحافت میں آیا تو پیشے کا حق ادا کردیا‘۔
اہمیت پاکستانی فلموں کی نہیں، معیاری فلموں کی ہونی چاہیے!
رواں سال ڈان بلاگز نے دیگر موضوعات کی طرح فلمی صنعت کو بھی موضوع بنایا۔ خرم سہیل کے لکھے گئے اس بلاگ میں لکھاری نے پاکستانی فلمی صنعت کی مخدوش حالت کا تجزیہ کرتے ہوئے اس کی وجوہات پر روشنی ڈالی ہے۔
لکھاری نے اس تحریر میں پاکستانی فلم سازوں کے اس رویے پر سخت تنقید کی کہ سال بھر فلمیں ریلیز کرنے کے بجائے صرف عید پر فلمیں ریلیز کی جاتی ہیں۔ لکھاری کے مطابق اس رویے کے باعث تمام فلموں کو مناسب تعداد میں شوز ملنا مشکل ہوتے ہیں۔
لکھاری نے پاکستان میں فلم انڈسٹری کی بحالی کو سراہتے ہوئے یہ بھی کہا کہ پاکستان میں فلمیں بننا خوش آئند امر ہے تاہم ان فلموں کی مقبولیت اور بہتر کاروبار کے لیے ضروری ہے کہ یہ فلمیں معیاری بھی ہوں۔
انہوں نے چند مقامی فلم سازو کی جانب سے ایک ہولی ووڈ فلم پر ظاہر کیے گئے خدشات پر تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ ’چند ایک فلم ساز چاہتے ہیں کہ ہولی وڈ کی فلمیں بھی اس ملک میں آنا بند ہوجائیں، اور صرف ان مقامی فلم سازوں کی ڈراما نما فلموں کو دیکھنے عوام کا تانتا سینما تھیٹرز میں بندھا رہے اور سب جانتے ہیں کہ یہ دیوانے کا خواب ہے کیونکہ فلم بین کو سینما تھیٹرز تک لانے کے لیے معیاری کام کرنا پہلی شرط ہے۔‘
ڈان بلاگز
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
پاکستان کے شمالی علاقہ جات قدرتی حسن میں اپنی مثال آپ ہیں اور سیاحتی مقامات سے مالا مال ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے سیاحتی مقامات کے حوالے سے ہر تحریر ہی قارئین دلچسپی سے پڑھتے ہیں۔
عبیداللہ کیہر کی جانب سے سیاحت کے حوالے سے لکھا گیا یہ بلاگ دنیا کا آٹھواں عجوبہ کہلائی جانے والی شاہراہِ قراقرم پر سفر کی کہانی ہے۔
سی پیک کے آغاز کے بعد سے شاہراہِ قراقرم کو خصوصی حیثیت حاصل ہوگئی ہے لیکن یہ کہانی 1985ء میں شاہراہِ قراقرم پر کیے جانے والے ایک سفر کی ہے۔ لکھاری اس شاہراہِ قراقرم پر سفر کرتے ہوئے چین کے شہر کاشغر تک گئے اور اس ٖسفر کی قسط وار کہانی ڈان بلاگز کے قارئین کے لیے پیش کی، یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔
لکھاری کے مطابق دریائے سندھ کے کنارے ہندوکش کے فلک بوس پہاڑوں سے چمٹی ہوئی دنیا کے خطرناک ترین راستوں سے گزرتی ہوئی یہ سڑک پٹن، کومیلا، داسو، سازین، شتیال، چلاس، تھک گاہ، تتہ پانی، رائے کوٹ اور جگلوٹ سے ہوتی ہوئی گلگت پہنچتی ہے۔ پھر گلگت سے آگے یہ دریائے ہنزہ کے کنارے کنارے کوہِ قراقرم کے دامن میں دنیور، نگر، کریم آباد، ہنزہ، شیش کٹ، گلمت، پھسو، مارخن اور گرچا کے دُور افتادہ پہاڑی قصبوں سے ہوتی ہوئی پاکستان کے آخری قصبے سست تک پہنچ جاتی ہے۔
سست سے آگے یہ سڑک مزید بلندیوں کی طرف مائل ہوتے ہوئے پاکستان کے آخری گاؤں مسگر کے قریب سے گزرتی ہوئی سطح سمندر سے 16 ہزار فٹ بلند برفانی درّے خنجراب تک پہنچ جاتی ہے جہاں پاکستان کی حدود ختم ہوجاتی ہیں اور شاہراہِ قراقرم عوامی جمہوریہ چین میں داخل ہوجاتی ہے۔
انقلابی مزاحمت کی علامت معراج محمد خان سے چند ملاقاتوں کا احوال
معراج محمد خان کا شمار ان معدودے چند افراد میں ہوتا ہے کہ جو وطنِ عزیز کی سیاسی تاریخ میں اجلے کردار کے مالک تھے۔ معراج محمد خان کے ساتھ ہونے والی ملاقاتوں کے احوال پر مبنی یہ بلاگ رواں سال قارئین میں بہت مقبول رہا۔
عامر اشرف نے اس بلاگ میں معراج محمد خان کی ابتدائی زندگی، تقسیمِ ہند، ہجرت، ابتدائی تعلیم اور ملکی سیاست میں ان کے کردار، قید و بند کی صعوبتوں غرض ان کی زندگی کے ہر ہر پہلو کا تفصیلی ذکر کیا ہے۔ ساتھ ہی بلاگ میں پاکستان کی تاریخ کے اہم واقعات کے حوالے سے معراج محمد خان کا تجزیہ بھی شامل ہے۔
اس بلاگ میں معراج محمد خان کے بچپن کا ایک دلچسپ واقعہ بھی نقل کیا گیا ہے۔ معراج محمد خان کے مطابق ’انگریز کے خلاف ہمارے گھر میں ہر وقت باتیں ہوتی تھیں۔ آزادی کی باتیں ہوا کرتی تھیں تو ہم بھی ان سب چیزوں سے متاثر ہوگئے تھے۔ ایک دفعہ 1946ء میں ملاحوں کی انگریز سے بہت مشہور بغاوت ہوئی تھی، اس دوران انگریز فوجی شہر میں ہر جگہ آگئے تھے تو گھر کے نیچے انگریز فوجی کھڑا دیکھ کر ہم نے گملا پھینک دیا تھا، گوکہ ہم چھوٹے تھے لیکن انگریز کے خلاف ہم پر یہ اثر تھا کہ ہم نے اور ہماری بھانجی نے مل کر ایک گملا اوپر سے پھینک دیا تھا‘۔
وزیرِاعظم کا دورہ ماسکو: کیا پاکستان نے اپنا رخ بدلنے کا فیصلہ کرلیا؟
سابق وزیرِاعظم عمران خان کا دورہ ماسکو انتہائی غیر معمولی ماحول میں مکمل ہوا کیونکہ ان کی ماسکو موجودگی میں ہی صدر پیوٹن نے یوکرین کے خلاف فوجی آپریشن کا اعلان کیا۔
اس وقت ماسکو کو امریکا اور نیٹو اتحاد سزا دینے اور اچھوت بنانے کی دھمکیاں دے رہا تھا اور ایسے وقت میں پاکستان کے امریکا اور نیٹو کے پرانے اتحادی ہونے کی حیثیت سے عمران خان کے دورے کو دیکھنے کی کوشش ہوئی۔
اس بلاگ میں آصف شاہد نے روس کے یوکرین پر حملے کے پس منظر کو پیش کرنے کے ساتھ اس کے بعد رونما ہونے والی ممکنہ تبدیلیوں اور پاکستان پر اس حملے کے سفارتی مضمرات کے حوالے سے بات کی۔
اس حوالے سے لکھاری کا کہنا تھا کہ اس دورے کے لیے عجلت دکھائی گئی جو مناسب نہیں تھی۔ کسی بھی کیمپ کا حصہ بننے سے پہلے حکمتِ عملی طے کی جانی چاہیے اور یہ حکمتِ عملی کسی فرد کو تشکیل دینے کا اختیار نہیں، اس کے لیے عوام کے نمائندہ فورم پارلیمنٹ سے رہنمائی لی جانی چاہیے تھی۔
پاکستان میں بے نظیر بھٹو کی آخری سالگرہ کی یادیں!
پاکستان کی سابق وزیرِاعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کے یومِ پیدائش کے موقع پر شائع ہونے والے اس بلاگ میں غزالہ فصیح نے بے نظیر بھٹو کی پولیٹیکل سیکریٹری اور محرم راز ناہید خان سے گفتگو کی اور ان کی زبانی پاکستان میں بے نظیر بھٹو کی منائی گئی آخری سالگرہ کی روداد قارئین تک پہنچائی۔
ناہید خان نے پاکستان میں محترمہ کی آخری سالگرہ کی یادیں تازہ کرتے ہوئے بتایا کہ ’21 جون 98ء کو ہم نے بی بی کی سالگرہ کوکونٹ گروو میں منائی۔ یہ ریسٹورنٹ آرٹس کونسل کے پاس تھا مگر اب ختم ہوچکا ہے۔ بی بی اپنی سالگرہ ہمیشہ نجی سطح پر چند گنے چنے دوستوں کے ساتھ مناتی تھیں البتہ پارٹی کی سطح پر الگ تقریبات ہوتی تھیں۔ اس سالگرہ میں وہ بہت خوش اور خوبصورت نظر آ رہی تھیں۔ انہوں نے شوخ رنگ کا لباس زیب تن کیا ہوا تھا اور سب دوستوں سے ہنسی مذاق کر رہی تھیں۔ سالگرہ میں میرے اور صفدر (ناہید خان کے شوہر ڈاکٹر صفدر عباسی) کے علاوہ بی بی کی کلاس فیلوز سمیعہ وحید، سلمیٰ وحید، اسکول کی دوست ٹُچی (مسز راشد)، کزن فخری بیگم، کزن طارق اور اس کی بیگم یاسمین اور کزن کا بیٹا جہانزیب جس کے والدین لندن میں تھے اور وہ اپنی تعلیم کی وجہ سے بی بی کے پاس رہتا تھا شریک تھے۔ بی بی کا پسندیدہ چاکلیٹ کیک منگوایا گیا تھا۔ بے نظیر اپنے دوستوں کے حلقے میں دل کھول کر ہنستی تھیں، وہ مزاح پسند کرتی تھیں اور خود بھی لطائف سناتی تھیں۔ پاکستان میں یہ ان کی آخری سالگرہ ثابت ہوئی، کیونکہ اپریل 1999ء میں وہ دبئی چلی گئی تھیں‘۔
ناہید خان کے ساتھ ہونے والی یہ گفتگو صرف بے نظیر بھٹو کی سالگرہ تک ہی محدود ہی نہیں رہی بلکہ انہوں نے محترمہ کی پوری سیاست اور زندگی میں آنے والے نشیب و فراز پر بھی گفتگو کی جو قارئین نے بےحد پسند کی۔
امریکی صدر جو بائیڈن کا دورہ مشرق وسطٰی اور ہم!
امریکی صدر جو بائیڈن کے دورہ مشرقی وسطیٰ کے حوالے سے لکھاجانے والا یہ بلاگ رواں سال قارئین نے بہت پسند کیا۔ اس بلاگ میں وسی بابا نے امریکا-اسرائیل تعلقات کے ماضی اور مستقبل پر روشنی ڈالی۔
لکھاری کے مطابق اسرائیلی حکام کو امریکا میں ٹف ٹائم دینے والوں میں بائیڈن پہلے نمبر پر رہے ہیں۔ لبنان پر حملے کے بعد جب اسرائیلی وزیرِاعظم مناخم بیگن امریکا پہنچے تو ریگن کے ساتھ ان کی ملاقات خوشگوار رہی۔ سینیٹ کی خارجہ امور کمیٹی میں ان کی جھڑپ بائیڈن کے ساتھ ہوگئی جہاں بائیڈن نے لبنان حملے سے زیادہ اسرائیل کی توسیع پسندانہ تعمیراتی پالیسی پر تنقید کی اور امداد بند کرنے کی دھمکی دی۔ میز پر مکے مارے تو اسرائیلی وزیرِاعظم نے کہا کہ بائیڈن یہ رائٹنگ ٹیبل ہے مکے مارنے کو نہیں بنی۔ مجھے دھمکیاں مت دو، میں فخریہ یہودی ہوں اور اپنے 3 ہزار سال کی ثقافت پر فخر کرتا ہوں۔ دھمکیوں سے مؤقف نہیں بدلوں گا۔
اس بلاگ میں لکھاری نے یہ بھی بتایا کہ ’ہمارے دوست اور حریف ملک پوزیشن بدل رہے ہیں۔ ہمارے لیے سوچنے کی بات بس ایک ہے کہ جو کچھ ہمارے اردگرد ہو رہا اس سب کا اثر تو ہم پر لازمی پڑے گا لیکن ہم کہیں اس میں متعلق ہیں؟ اس کو دیکھ سمجھ بھی رہے ہیں یا نہیں؟ ہمارے پاس کسی سفارتی پہل کاری کے لیے گنجائش کتنی رہ گئی ہے جبکہ ہم معیشت کے لیے مجبور بھی ہیں کہ انہی دوست ملکوں کی طرف دیکھیں جو خود اب کہیں اور دیکھ رہے ہیں‘۔
صحافت کا حق ادا کرنے والے ارشد شریف سے بس ’ریڈ لائن‘ کراس ہوگئی!
کینیا میں پاکستانی صحافی ارشد شریف کے قتل کی خبر نے صرف صحافتی برادری کو ہی نہیں بلکہ عام افراد کو بھی متاثر کیا تھا۔ اس قتل کے حوالے سے سوالات بہت زیادہ اور جوابات بہت کم دستیاب ہیں۔
ارشد شریف کے قتل کے بعد ان کے ساتھ کام کرنے والے افراد نے اپنے اپنے طریقوں سے انہیں یاد کیا۔ یہ بلاگ بھی ماضی میں ارشد شریف کے ساتھ کام کرنے والے صحافی عاطف خان کی تحریر ہے جس میں انہوں نے نہ صرف ارشد شریف کی پیشہ ورانہ قابلیت کو تسلیم کیا بلکہ بحیثیت انسان بھی ان کے رویے اور برتاؤ کی تعریف کی۔
لکھاری کے یہ جملے واقعی دل کو لگتے ہیں کہ ’ارشد کو اس کے والد نے اصرار کرکے آرمی میڈیکل کالج میں داخلہ دلوایا تھا لیکن وہ وہاں سے بھاگ گیا کہ اسے کچھ اور کرنا ہے۔ ارشد کے والد آخری وقت تک ارشد کے اس فیصلے پر برہم تھے۔ ’یہ صحافت بھی کوئی پیشہ ہوتا ہے؟‘، وہ ارشد کے دوستوں کو کہا کرتے تھے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ صحافت میں آیا تو پیشے کا حق ادا کردیا‘۔
اہمیت پاکستانی فلموں کی نہیں، معیاری فلموں کی ہونی چاہیے!
رواں سال ڈان بلاگز نے دیگر موضوعات کی طرح فلمی صنعت کو بھی موضوع بنایا۔ خرم سہیل کے لکھے گئے اس بلاگ میں لکھاری نے پاکستانی فلمی صنعت کی مخدوش حالت کا تجزیہ کرتے ہوئے اس کی وجوہات پر روشنی ڈالی ہے۔
لکھاری نے اس تحریر میں پاکستانی فلم سازوں کے اس رویے پر سخت تنقید کی کہ سال بھر فلمیں ریلیز کرنے کے بجائے صرف عید پر فلمیں ریلیز کی جاتی ہیں۔ لکھاری کے مطابق اس رویے کے باعث تمام فلموں کو مناسب تعداد میں شوز ملنا مشکل ہوتے ہیں۔
لکھاری نے پاکستان میں فلم انڈسٹری کی بحالی کو سراہتے ہوئے یہ بھی کہا کہ پاکستان میں فلمیں بننا خوش آئند امر ہے تاہم ان فلموں کی مقبولیت اور بہتر کاروبار کے لیے ضروری ہے کہ یہ فلمیں معیاری بھی ہوں۔
انہوں نے چند مقامی فلم سازو کی جانب سے ایک ہولی ووڈ فلم پر ظاہر کیے گئے خدشات پر تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ ’چند ایک فلم ساز چاہتے ہیں کہ ہولی وڈ کی فلمیں بھی اس ملک میں آنا بند ہوجائیں، اور صرف ان مقامی فلم سازوں کی ڈراما نما فلموں کو دیکھنے عوام کا تانتا سینما تھیٹرز میں بندھا رہے اور سب جانتے ہیں کہ یہ دیوانے کا خواب ہے کیونکہ فلم بین کو سینما تھیٹرز تک لانے کے لیے معیاری کام کرنا پہلی شرط ہے۔‘
ڈان بلاگز
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
معراج محمد خان کا شمار ان معدودے چند افراد میں ہوتا ہے کہ جو وطنِ عزیز کی سیاسی تاریخ میں اجلے کردار کے مالک تھے۔ معراج محمد خان کے ساتھ ہونے والی ملاقاتوں کے احوال پر مبنی یہ بلاگ رواں سال قارئین میں بہت مقبول رہا۔
عامر اشرف نے اس بلاگ میں معراج محمد خان کی ابتدائی زندگی، تقسیمِ ہند، ہجرت، ابتدائی تعلیم اور ملکی سیاست میں ان کے کردار، قید و بند کی صعوبتوں غرض ان کی زندگی کے ہر ہر پہلو کا تفصیلی ذکر کیا ہے۔ ساتھ ہی بلاگ میں پاکستان کی تاریخ کے اہم واقعات کے حوالے سے معراج محمد خان کا تجزیہ بھی شامل ہے۔
اس بلاگ میں معراج محمد خان کے بچپن کا ایک دلچسپ واقعہ بھی نقل کیا گیا ہے۔ معراج محمد خان کے مطابق ’انگریز کے خلاف ہمارے گھر میں ہر وقت باتیں ہوتی تھیں۔ آزادی کی باتیں ہوا کرتی تھیں تو ہم بھی ان سب چیزوں سے متاثر ہوگئے تھے۔ ایک دفعہ 1946ء میں ملاحوں کی انگریز سے بہت مشہور بغاوت ہوئی تھی، اس دوران انگریز فوجی شہر میں ہر جگہ آگئے تھے تو گھر کے نیچے انگریز فوجی کھڑا دیکھ کر ہم نے گملا پھینک دیا تھا، گوکہ ہم چھوٹے تھے لیکن انگریز کے خلاف ہم پر یہ اثر تھا کہ ہم نے اور ہماری بھانجی نے مل کر ایک گملا اوپر سے پھینک دیا تھا‘۔
وزیرِاعظم کا دورہ ماسکو: کیا پاکستان نے اپنا رخ بدلنے کا فیصلہ کرلیا؟
سابق وزیرِاعظم عمران خان کا دورہ ماسکو انتہائی غیر معمولی ماحول میں مکمل ہوا کیونکہ ان کی ماسکو موجودگی میں ہی صدر پیوٹن نے یوکرین کے خلاف فوجی آپریشن کا اعلان کیا۔
اس وقت ماسکو کو امریکا اور نیٹو اتحاد سزا دینے اور اچھوت بنانے کی دھمکیاں دے رہا تھا اور ایسے وقت میں پاکستان کے امریکا اور نیٹو کے پرانے اتحادی ہونے کی حیثیت سے عمران خان کے دورے کو دیکھنے کی کوشش ہوئی۔
اس بلاگ میں آصف شاہد نے روس کے یوکرین پر حملے کے پس منظر کو پیش کرنے کے ساتھ اس کے بعد رونما ہونے والی ممکنہ تبدیلیوں اور پاکستان پر اس حملے کے سفارتی مضمرات کے حوالے سے بات کی۔
اس حوالے سے لکھاری کا کہنا تھا کہ اس دورے کے لیے عجلت دکھائی گئی جو مناسب نہیں تھی۔ کسی بھی کیمپ کا حصہ بننے سے پہلے حکمتِ عملی طے کی جانی چاہیے اور یہ حکمتِ عملی کسی فرد کو تشکیل دینے کا اختیار نہیں، اس کے لیے عوام کے نمائندہ فورم پارلیمنٹ سے رہنمائی لی جانی چاہیے تھی۔
پاکستان میں بے نظیر بھٹو کی آخری سالگرہ کی یادیں!
پاکستان کی سابق وزیرِاعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کے یومِ پیدائش کے موقع پر شائع ہونے والے اس بلاگ میں غزالہ فصیح نے بے نظیر بھٹو کی پولیٹیکل سیکریٹری اور محرم راز ناہید خان سے گفتگو کی اور ان کی زبانی پاکستان میں بے نظیر بھٹو کی منائی گئی آخری سالگرہ کی روداد قارئین تک پہنچائی۔
ناہید خان نے پاکستان میں محترمہ کی آخری سالگرہ کی یادیں تازہ کرتے ہوئے بتایا کہ ’21 جون 98ء کو ہم نے بی بی کی سالگرہ کوکونٹ گروو میں منائی۔ یہ ریسٹورنٹ آرٹس کونسل کے پاس تھا مگر اب ختم ہوچکا ہے۔ بی بی اپنی سالگرہ ہمیشہ نجی سطح پر چند گنے چنے دوستوں کے ساتھ مناتی تھیں البتہ پارٹی کی سطح پر الگ تقریبات ہوتی تھیں۔ اس سالگرہ میں وہ بہت خوش اور خوبصورت نظر آ رہی تھیں۔ انہوں نے شوخ رنگ کا لباس زیب تن کیا ہوا تھا اور سب دوستوں سے ہنسی مذاق کر رہی تھیں۔ سالگرہ میں میرے اور صفدر (ناہید خان کے شوہر ڈاکٹر صفدر عباسی) کے علاوہ بی بی کی کلاس فیلوز سمیعہ وحید، سلمیٰ وحید، اسکول کی دوست ٹُچی (مسز راشد)، کزن فخری بیگم، کزن طارق اور اس کی بیگم یاسمین اور کزن کا بیٹا جہانزیب جس کے والدین لندن میں تھے اور وہ اپنی تعلیم کی وجہ سے بی بی کے پاس رہتا تھا شریک تھے۔ بی بی کا پسندیدہ چاکلیٹ کیک منگوایا گیا تھا۔ بے نظیر اپنے دوستوں کے حلقے میں دل کھول کر ہنستی تھیں، وہ مزاح پسند کرتی تھیں اور خود بھی لطائف سناتی تھیں۔ پاکستان میں یہ ان کی آخری سالگرہ ثابت ہوئی، کیونکہ اپریل 1999ء میں وہ دبئی چلی گئی تھیں‘۔
ناہید خان کے ساتھ ہونے والی یہ گفتگو صرف بے نظیر بھٹو کی سالگرہ تک ہی محدود ہی نہیں رہی بلکہ انہوں نے محترمہ کی پوری سیاست اور زندگی میں آنے والے نشیب و فراز پر بھی گفتگو کی جو قارئین نے بےحد پسند کی۔
امریکی صدر جو بائیڈن کا دورہ مشرق وسطٰی اور ہم!
امریکی صدر جو بائیڈن کے دورہ مشرقی وسطیٰ کے حوالے سے لکھاجانے والا یہ بلاگ رواں سال قارئین نے بہت پسند کیا۔ اس بلاگ میں وسی بابا نے امریکا-اسرائیل تعلقات کے ماضی اور مستقبل پر روشنی ڈالی۔
لکھاری کے مطابق اسرائیلی حکام کو امریکا میں ٹف ٹائم دینے والوں میں بائیڈن پہلے نمبر پر رہے ہیں۔ لبنان پر حملے کے بعد جب اسرائیلی وزیرِاعظم مناخم بیگن امریکا پہنچے تو ریگن کے ساتھ ان کی ملاقات خوشگوار رہی۔ سینیٹ کی خارجہ امور کمیٹی میں ان کی جھڑپ بائیڈن کے ساتھ ہوگئی جہاں بائیڈن نے لبنان حملے سے زیادہ اسرائیل کی توسیع پسندانہ تعمیراتی پالیسی پر تنقید کی اور امداد بند کرنے کی دھمکی دی۔ میز پر مکے مارے تو اسرائیلی وزیرِاعظم نے کہا کہ بائیڈن یہ رائٹنگ ٹیبل ہے مکے مارنے کو نہیں بنی۔ مجھے دھمکیاں مت دو، میں فخریہ یہودی ہوں اور اپنے 3 ہزار سال کی ثقافت پر فخر کرتا ہوں۔ دھمکیوں سے مؤقف نہیں بدلوں گا۔
اس بلاگ میں لکھاری نے یہ بھی بتایا کہ ’ہمارے دوست اور حریف ملک پوزیشن بدل رہے ہیں۔ ہمارے لیے سوچنے کی بات بس ایک ہے کہ جو کچھ ہمارے اردگرد ہو رہا اس سب کا اثر تو ہم پر لازمی پڑے گا لیکن ہم کہیں اس میں متعلق ہیں؟ اس کو دیکھ سمجھ بھی رہے ہیں یا نہیں؟ ہمارے پاس کسی سفارتی پہل کاری کے لیے گنجائش کتنی رہ گئی ہے جبکہ ہم معیشت کے لیے مجبور بھی ہیں کہ انہی دوست ملکوں کی طرف دیکھیں جو خود اب کہیں اور دیکھ رہے ہیں‘۔
صحافت کا حق ادا کرنے والے ارشد شریف سے بس ’ریڈ لائن‘ کراس ہوگئی!
کینیا میں پاکستانی صحافی ارشد شریف کے قتل کی خبر نے صرف صحافتی برادری کو ہی نہیں بلکہ عام افراد کو بھی متاثر کیا تھا۔ اس قتل کے حوالے سے سوالات بہت زیادہ اور جوابات بہت کم دستیاب ہیں۔
ارشد شریف کے قتل کے بعد ان کے ساتھ کام کرنے والے افراد نے اپنے اپنے طریقوں سے انہیں یاد کیا۔ یہ بلاگ بھی ماضی میں ارشد شریف کے ساتھ کام کرنے والے صحافی عاطف خان کی تحریر ہے جس میں انہوں نے نہ صرف ارشد شریف کی پیشہ ورانہ قابلیت کو تسلیم کیا بلکہ بحیثیت انسان بھی ان کے رویے اور برتاؤ کی تعریف کی۔
لکھاری کے یہ جملے واقعی دل کو لگتے ہیں کہ ’ارشد کو اس کے والد نے اصرار کرکے آرمی میڈیکل کالج میں داخلہ دلوایا تھا لیکن وہ وہاں سے بھاگ گیا کہ اسے کچھ اور کرنا ہے۔ ارشد کے والد آخری وقت تک ارشد کے اس فیصلے پر برہم تھے۔ ’یہ صحافت بھی کوئی پیشہ ہوتا ہے؟‘، وہ ارشد کے دوستوں کو کہا کرتے تھے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ صحافت میں آیا تو پیشے کا حق ادا کردیا‘۔
اہمیت پاکستانی فلموں کی نہیں، معیاری فلموں کی ہونی چاہیے!
رواں سال ڈان بلاگز نے دیگر موضوعات کی طرح فلمی صنعت کو بھی موضوع بنایا۔ خرم سہیل کے لکھے گئے اس بلاگ میں لکھاری نے پاکستانی فلمی صنعت کی مخدوش حالت کا تجزیہ کرتے ہوئے اس کی وجوہات پر روشنی ڈالی ہے۔
لکھاری نے اس تحریر میں پاکستانی فلم سازوں کے اس رویے پر سخت تنقید کی کہ سال بھر فلمیں ریلیز کرنے کے بجائے صرف عید پر فلمیں ریلیز کی جاتی ہیں۔ لکھاری کے مطابق اس رویے کے باعث تمام فلموں کو مناسب تعداد میں شوز ملنا مشکل ہوتے ہیں۔
لکھاری نے پاکستان میں فلم انڈسٹری کی بحالی کو سراہتے ہوئے یہ بھی کہا کہ پاکستان میں فلمیں بننا خوش آئند امر ہے تاہم ان فلموں کی مقبولیت اور بہتر کاروبار کے لیے ضروری ہے کہ یہ فلمیں معیاری بھی ہوں۔
انہوں نے چند مقامی فلم سازو کی جانب سے ایک ہولی ووڈ فلم پر ظاہر کیے گئے خدشات پر تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ ’چند ایک فلم ساز چاہتے ہیں کہ ہولی وڈ کی فلمیں بھی اس ملک میں آنا بند ہوجائیں، اور صرف ان مقامی فلم سازوں کی ڈراما نما فلموں کو دیکھنے عوام کا تانتا سینما تھیٹرز میں بندھا رہے اور سب جانتے ہیں کہ یہ دیوانے کا خواب ہے کیونکہ فلم بین کو سینما تھیٹرز تک لانے کے لیے معیاری کام کرنا پہلی شرط ہے۔‘
ڈان بلاگز
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
سابق وزیرِاعظم عمران خان کا دورہ ماسکو انتہائی غیر معمولی ماحول میں مکمل ہوا کیونکہ ان کی ماسکو موجودگی میں ہی صدر پیوٹن نے یوکرین کے خلاف فوجی آپریشن کا اعلان کیا۔
اس وقت ماسکو کو امریکا اور نیٹو اتحاد سزا دینے اور اچھوت بنانے کی دھمکیاں دے رہا تھا اور ایسے وقت میں پاکستان کے امریکا اور نیٹو کے پرانے اتحادی ہونے کی حیثیت سے عمران خان کے دورے کو دیکھنے کی کوشش ہوئی۔
اس بلاگ میں آصف شاہد نے روس کے یوکرین پر حملے کے پس منظر کو پیش کرنے کے ساتھ اس کے بعد رونما ہونے والی ممکنہ تبدیلیوں اور پاکستان پر اس حملے کے سفارتی مضمرات کے حوالے سے بات کی۔
اس حوالے سے لکھاری کا کہنا تھا کہ اس دورے کے لیے عجلت دکھائی گئی جو مناسب نہیں تھی۔ کسی بھی کیمپ کا حصہ بننے سے پہلے حکمتِ عملی طے کی جانی چاہیے اور یہ حکمتِ عملی کسی فرد کو تشکیل دینے کا اختیار نہیں، اس کے لیے عوام کے نمائندہ فورم پارلیمنٹ سے رہنمائی لی جانی چاہیے تھی۔
پاکستان میں بے نظیر بھٹو کی آخری سالگرہ کی یادیں!
پاکستان کی سابق وزیرِاعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کے یومِ پیدائش کے موقع پر شائع ہونے والے اس بلاگ میں غزالہ فصیح نے بے نظیر بھٹو کی پولیٹیکل سیکریٹری اور محرم راز ناہید خان سے گفتگو کی اور ان کی زبانی پاکستان میں بے نظیر بھٹو کی منائی گئی آخری سالگرہ کی روداد قارئین تک پہنچائی۔
ناہید خان نے پاکستان میں محترمہ کی آخری سالگرہ کی یادیں تازہ کرتے ہوئے بتایا کہ ’21 جون 98ء کو ہم نے بی بی کی سالگرہ کوکونٹ گروو میں منائی۔ یہ ریسٹورنٹ آرٹس کونسل کے پاس تھا مگر اب ختم ہوچکا ہے۔ بی بی اپنی سالگرہ ہمیشہ نجی سطح پر چند گنے چنے دوستوں کے ساتھ مناتی تھیں البتہ پارٹی کی سطح پر الگ تقریبات ہوتی تھیں۔ اس سالگرہ میں وہ بہت خوش اور خوبصورت نظر آ رہی تھیں۔ انہوں نے شوخ رنگ کا لباس زیب تن کیا ہوا تھا اور سب دوستوں سے ہنسی مذاق کر رہی تھیں۔ سالگرہ میں میرے اور صفدر (ناہید خان کے شوہر ڈاکٹر صفدر عباسی) کے علاوہ بی بی کی کلاس فیلوز سمیعہ وحید، سلمیٰ وحید، اسکول کی دوست ٹُچی (مسز راشد)، کزن فخری بیگم، کزن طارق اور اس کی بیگم یاسمین اور کزن کا بیٹا جہانزیب جس کے والدین لندن میں تھے اور وہ اپنی تعلیم کی وجہ سے بی بی کے پاس رہتا تھا شریک تھے۔ بی بی کا پسندیدہ چاکلیٹ کیک منگوایا گیا تھا۔ بے نظیر اپنے دوستوں کے حلقے میں دل کھول کر ہنستی تھیں، وہ مزاح پسند کرتی تھیں اور خود بھی لطائف سناتی تھیں۔ پاکستان میں یہ ان کی آخری سالگرہ ثابت ہوئی، کیونکہ اپریل 1999ء میں وہ دبئی چلی گئی تھیں‘۔
ناہید خان کے ساتھ ہونے والی یہ گفتگو صرف بے نظیر بھٹو کی سالگرہ تک ہی محدود ہی نہیں رہی بلکہ انہوں نے محترمہ کی پوری سیاست اور زندگی میں آنے والے نشیب و فراز پر بھی گفتگو کی جو قارئین نے بےحد پسند کی۔
امریکی صدر جو بائیڈن کا دورہ مشرق وسطٰی اور ہم!
امریکی صدر جو بائیڈن کے دورہ مشرقی وسطیٰ کے حوالے سے لکھاجانے والا یہ بلاگ رواں سال قارئین نے بہت پسند کیا۔ اس بلاگ میں وسی بابا نے امریکا-اسرائیل تعلقات کے ماضی اور مستقبل پر روشنی ڈالی۔
لکھاری کے مطابق اسرائیلی حکام کو امریکا میں ٹف ٹائم دینے والوں میں بائیڈن پہلے نمبر پر رہے ہیں۔ لبنان پر حملے کے بعد جب اسرائیلی وزیرِاعظم مناخم بیگن امریکا پہنچے تو ریگن کے ساتھ ان کی ملاقات خوشگوار رہی۔ سینیٹ کی خارجہ امور کمیٹی میں ان کی جھڑپ بائیڈن کے ساتھ ہوگئی جہاں بائیڈن نے لبنان حملے سے زیادہ اسرائیل کی توسیع پسندانہ تعمیراتی پالیسی پر تنقید کی اور امداد بند کرنے کی دھمکی دی۔ میز پر مکے مارے تو اسرائیلی وزیرِاعظم نے کہا کہ بائیڈن یہ رائٹنگ ٹیبل ہے مکے مارنے کو نہیں بنی۔ مجھے دھمکیاں مت دو، میں فخریہ یہودی ہوں اور اپنے 3 ہزار سال کی ثقافت پر فخر کرتا ہوں۔ دھمکیوں سے مؤقف نہیں بدلوں گا۔
اس بلاگ میں لکھاری نے یہ بھی بتایا کہ ’ہمارے دوست اور حریف ملک پوزیشن بدل رہے ہیں۔ ہمارے لیے سوچنے کی بات بس ایک ہے کہ جو کچھ ہمارے اردگرد ہو رہا اس سب کا اثر تو ہم پر لازمی پڑے گا لیکن ہم کہیں اس میں متعلق ہیں؟ اس کو دیکھ سمجھ بھی رہے ہیں یا نہیں؟ ہمارے پاس کسی سفارتی پہل کاری کے لیے گنجائش کتنی رہ گئی ہے جبکہ ہم معیشت کے لیے مجبور بھی ہیں کہ انہی دوست ملکوں کی طرف دیکھیں جو خود اب کہیں اور دیکھ رہے ہیں‘۔
صحافت کا حق ادا کرنے والے ارشد شریف سے بس ’ریڈ لائن‘ کراس ہوگئی!
کینیا میں پاکستانی صحافی ارشد شریف کے قتل کی خبر نے صرف صحافتی برادری کو ہی نہیں بلکہ عام افراد کو بھی متاثر کیا تھا۔ اس قتل کے حوالے سے سوالات بہت زیادہ اور جوابات بہت کم دستیاب ہیں۔
ارشد شریف کے قتل کے بعد ان کے ساتھ کام کرنے والے افراد نے اپنے اپنے طریقوں سے انہیں یاد کیا۔ یہ بلاگ بھی ماضی میں ارشد شریف کے ساتھ کام کرنے والے صحافی عاطف خان کی تحریر ہے جس میں انہوں نے نہ صرف ارشد شریف کی پیشہ ورانہ قابلیت کو تسلیم کیا بلکہ بحیثیت انسان بھی ان کے رویے اور برتاؤ کی تعریف کی۔
لکھاری کے یہ جملے واقعی دل کو لگتے ہیں کہ ’ارشد کو اس کے والد نے اصرار کرکے آرمی میڈیکل کالج میں داخلہ دلوایا تھا لیکن وہ وہاں سے بھاگ گیا کہ اسے کچھ اور کرنا ہے۔ ارشد کے والد آخری وقت تک ارشد کے اس فیصلے پر برہم تھے۔ ’یہ صحافت بھی کوئی پیشہ ہوتا ہے؟‘، وہ ارشد کے دوستوں کو کہا کرتے تھے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ صحافت میں آیا تو پیشے کا حق ادا کردیا‘۔
اہمیت پاکستانی فلموں کی نہیں، معیاری فلموں کی ہونی چاہیے!
رواں سال ڈان بلاگز نے دیگر موضوعات کی طرح فلمی صنعت کو بھی موضوع بنایا۔ خرم سہیل کے لکھے گئے اس بلاگ میں لکھاری نے پاکستانی فلمی صنعت کی مخدوش حالت کا تجزیہ کرتے ہوئے اس کی وجوہات پر روشنی ڈالی ہے۔
لکھاری نے اس تحریر میں پاکستانی فلم سازوں کے اس رویے پر سخت تنقید کی کہ سال بھر فلمیں ریلیز کرنے کے بجائے صرف عید پر فلمیں ریلیز کی جاتی ہیں۔ لکھاری کے مطابق اس رویے کے باعث تمام فلموں کو مناسب تعداد میں شوز ملنا مشکل ہوتے ہیں۔
لکھاری نے پاکستان میں فلم انڈسٹری کی بحالی کو سراہتے ہوئے یہ بھی کہا کہ پاکستان میں فلمیں بننا خوش آئند امر ہے تاہم ان فلموں کی مقبولیت اور بہتر کاروبار کے لیے ضروری ہے کہ یہ فلمیں معیاری بھی ہوں۔
انہوں نے چند مقامی فلم سازو کی جانب سے ایک ہولی ووڈ فلم پر ظاہر کیے گئے خدشات پر تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ ’چند ایک فلم ساز چاہتے ہیں کہ ہولی وڈ کی فلمیں بھی اس ملک میں آنا بند ہوجائیں، اور صرف ان مقامی فلم سازوں کی ڈراما نما فلموں کو دیکھنے عوام کا تانتا سینما تھیٹرز میں بندھا رہے اور سب جانتے ہیں کہ یہ دیوانے کا خواب ہے کیونکہ فلم بین کو سینما تھیٹرز تک لانے کے لیے معیاری کام کرنا پہلی شرط ہے۔‘
ڈان بلاگز
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
پاکستان کی سابق وزیرِاعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کے یومِ پیدائش کے موقع پر شائع ہونے والے اس بلاگ میں غزالہ فصیح نے بے نظیر بھٹو کی پولیٹیکل سیکریٹری اور محرم راز ناہید خان سے گفتگو کی اور ان کی زبانی پاکستان میں بے نظیر بھٹو کی منائی گئی آخری سالگرہ کی روداد قارئین تک پہنچائی۔
ناہید خان نے پاکستان میں محترمہ کی آخری سالگرہ کی یادیں تازہ کرتے ہوئے بتایا کہ ’21 جون 98ء کو ہم نے بی بی کی سالگرہ کوکونٹ گروو میں منائی۔ یہ ریسٹورنٹ آرٹس کونسل کے پاس تھا مگر اب ختم ہوچکا ہے۔ بی بی اپنی سالگرہ ہمیشہ نجی سطح پر چند گنے چنے دوستوں کے ساتھ مناتی تھیں البتہ پارٹی کی سطح پر الگ تقریبات ہوتی تھیں۔ اس سالگرہ میں وہ بہت خوش اور خوبصورت نظر آ رہی تھیں۔ انہوں نے شوخ رنگ کا لباس زیب تن کیا ہوا تھا اور سب دوستوں سے ہنسی مذاق کر رہی تھیں۔ سالگرہ میں میرے اور صفدر (ناہید خان کے شوہر ڈاکٹر صفدر عباسی) کے علاوہ بی بی کی کلاس فیلوز سمیعہ وحید، سلمیٰ وحید، اسکول کی دوست ٹُچی (مسز راشد)، کزن فخری بیگم، کزن طارق اور اس کی بیگم یاسمین اور کزن کا بیٹا جہانزیب جس کے والدین لندن میں تھے اور وہ اپنی تعلیم کی وجہ سے بی بی کے پاس رہتا تھا شریک تھے۔ بی بی کا پسندیدہ چاکلیٹ کیک منگوایا گیا تھا۔ بے نظیر اپنے دوستوں کے حلقے میں دل کھول کر ہنستی تھیں، وہ مزاح پسند کرتی تھیں اور خود بھی لطائف سناتی تھیں۔ پاکستان میں یہ ان کی آخری سالگرہ ثابت ہوئی، کیونکہ اپریل 1999ء میں وہ دبئی چلی گئی تھیں‘۔
ناہید خان کے ساتھ ہونے والی یہ گفتگو صرف بے نظیر بھٹو کی سالگرہ تک ہی محدود ہی نہیں رہی بلکہ انہوں نے محترمہ کی پوری سیاست اور زندگی میں آنے والے نشیب و فراز پر بھی گفتگو کی جو قارئین نے بےحد پسند کی۔
امریکی صدر جو بائیڈن کا دورہ مشرق وسطٰی اور ہم!
امریکی صدر جو بائیڈن کے دورہ مشرقی وسطیٰ کے حوالے سے لکھاجانے والا یہ بلاگ رواں سال قارئین نے بہت پسند کیا۔ اس بلاگ میں وسی بابا نے امریکا-اسرائیل تعلقات کے ماضی اور مستقبل پر روشنی ڈالی۔
لکھاری کے مطابق اسرائیلی حکام کو امریکا میں ٹف ٹائم دینے والوں میں بائیڈن پہلے نمبر پر رہے ہیں۔ لبنان پر حملے کے بعد جب اسرائیلی وزیرِاعظم مناخم بیگن امریکا پہنچے تو ریگن کے ساتھ ان کی ملاقات خوشگوار رہی۔ سینیٹ کی خارجہ امور کمیٹی میں ان کی جھڑپ بائیڈن کے ساتھ ہوگئی جہاں بائیڈن نے لبنان حملے سے زیادہ اسرائیل کی توسیع پسندانہ تعمیراتی پالیسی پر تنقید کی اور امداد بند کرنے کی دھمکی دی۔ میز پر مکے مارے تو اسرائیلی وزیرِاعظم نے کہا کہ بائیڈن یہ رائٹنگ ٹیبل ہے مکے مارنے کو نہیں بنی۔ مجھے دھمکیاں مت دو، میں فخریہ یہودی ہوں اور اپنے 3 ہزار سال کی ثقافت پر فخر کرتا ہوں۔ دھمکیوں سے مؤقف نہیں بدلوں گا۔
اس بلاگ میں لکھاری نے یہ بھی بتایا کہ ’ہمارے دوست اور حریف ملک پوزیشن بدل رہے ہیں۔ ہمارے لیے سوچنے کی بات بس ایک ہے کہ جو کچھ ہمارے اردگرد ہو رہا اس سب کا اثر تو ہم پر لازمی پڑے گا لیکن ہم کہیں اس میں متعلق ہیں؟ اس کو دیکھ سمجھ بھی رہے ہیں یا نہیں؟ ہمارے پاس کسی سفارتی پہل کاری کے لیے گنجائش کتنی رہ گئی ہے جبکہ ہم معیشت کے لیے مجبور بھی ہیں کہ انہی دوست ملکوں کی طرف دیکھیں جو خود اب کہیں اور دیکھ رہے ہیں‘۔
صحافت کا حق ادا کرنے والے ارشد شریف سے بس ’ریڈ لائن‘ کراس ہوگئی!
کینیا میں پاکستانی صحافی ارشد شریف کے قتل کی خبر نے صرف صحافتی برادری کو ہی نہیں بلکہ عام افراد کو بھی متاثر کیا تھا۔ اس قتل کے حوالے سے سوالات بہت زیادہ اور جوابات بہت کم دستیاب ہیں۔
ارشد شریف کے قتل کے بعد ان کے ساتھ کام کرنے والے افراد نے اپنے اپنے طریقوں سے انہیں یاد کیا۔ یہ بلاگ بھی ماضی میں ارشد شریف کے ساتھ کام کرنے والے صحافی عاطف خان کی تحریر ہے جس میں انہوں نے نہ صرف ارشد شریف کی پیشہ ورانہ قابلیت کو تسلیم کیا بلکہ بحیثیت انسان بھی ان کے رویے اور برتاؤ کی تعریف کی۔
لکھاری کے یہ جملے واقعی دل کو لگتے ہیں کہ ’ارشد کو اس کے والد نے اصرار کرکے آرمی میڈیکل کالج میں داخلہ دلوایا تھا لیکن وہ وہاں سے بھاگ گیا کہ اسے کچھ اور کرنا ہے۔ ارشد کے والد آخری وقت تک ارشد کے اس فیصلے پر برہم تھے۔ ’یہ صحافت بھی کوئی پیشہ ہوتا ہے؟‘، وہ ارشد کے دوستوں کو کہا کرتے تھے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ صحافت میں آیا تو پیشے کا حق ادا کردیا‘۔
اہمیت پاکستانی فلموں کی نہیں، معیاری فلموں کی ہونی چاہیے!
رواں سال ڈان بلاگز نے دیگر موضوعات کی طرح فلمی صنعت کو بھی موضوع بنایا۔ خرم سہیل کے لکھے گئے اس بلاگ میں لکھاری نے پاکستانی فلمی صنعت کی مخدوش حالت کا تجزیہ کرتے ہوئے اس کی وجوہات پر روشنی ڈالی ہے۔
لکھاری نے اس تحریر میں پاکستانی فلم سازوں کے اس رویے پر سخت تنقید کی کہ سال بھر فلمیں ریلیز کرنے کے بجائے صرف عید پر فلمیں ریلیز کی جاتی ہیں۔ لکھاری کے مطابق اس رویے کے باعث تمام فلموں کو مناسب تعداد میں شوز ملنا مشکل ہوتے ہیں۔
لکھاری نے پاکستان میں فلم انڈسٹری کی بحالی کو سراہتے ہوئے یہ بھی کہا کہ پاکستان میں فلمیں بننا خوش آئند امر ہے تاہم ان فلموں کی مقبولیت اور بہتر کاروبار کے لیے ضروری ہے کہ یہ فلمیں معیاری بھی ہوں۔
انہوں نے چند مقامی فلم سازو کی جانب سے ایک ہولی ووڈ فلم پر ظاہر کیے گئے خدشات پر تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ ’چند ایک فلم ساز چاہتے ہیں کہ ہولی وڈ کی فلمیں بھی اس ملک میں آنا بند ہوجائیں، اور صرف ان مقامی فلم سازوں کی ڈراما نما فلموں کو دیکھنے عوام کا تانتا سینما تھیٹرز میں بندھا رہے اور سب جانتے ہیں کہ یہ دیوانے کا خواب ہے کیونکہ فلم بین کو سینما تھیٹرز تک لانے کے لیے معیاری کام کرنا پہلی شرط ہے۔‘
ڈان بلاگز
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
امریکی صدر جو بائیڈن کے دورہ مشرقی وسطیٰ کے حوالے سے لکھاجانے والا یہ بلاگ رواں سال قارئین نے بہت پسند کیا۔ اس بلاگ میں وسی بابا نے امریکا-اسرائیل تعلقات کے ماضی اور مستقبل پر روشنی ڈالی۔
لکھاری کے مطابق اسرائیلی حکام کو امریکا میں ٹف ٹائم دینے والوں میں بائیڈن پہلے نمبر پر رہے ہیں۔ لبنان پر حملے کے بعد جب اسرائیلی وزیرِاعظم مناخم بیگن امریکا پہنچے تو ریگن کے ساتھ ان کی ملاقات خوشگوار رہی۔ سینیٹ کی خارجہ امور کمیٹی میں ان کی جھڑپ بائیڈن کے ساتھ ہوگئی جہاں بائیڈن نے لبنان حملے سے زیادہ اسرائیل کی توسیع پسندانہ تعمیراتی پالیسی پر تنقید کی اور امداد بند کرنے کی دھمکی دی۔ میز پر مکے مارے تو اسرائیلی وزیرِاعظم نے کہا کہ بائیڈن یہ رائٹنگ ٹیبل ہے مکے مارنے کو نہیں بنی۔ مجھے دھمکیاں مت دو، میں فخریہ یہودی ہوں اور اپنے 3 ہزار سال کی ثقافت پر فخر کرتا ہوں۔ دھمکیوں سے مؤقف نہیں بدلوں گا۔
اس بلاگ میں لکھاری نے یہ بھی بتایا کہ ’ہمارے دوست اور حریف ملک پوزیشن بدل رہے ہیں۔ ہمارے لیے سوچنے کی بات بس ایک ہے کہ جو کچھ ہمارے اردگرد ہو رہا اس سب کا اثر تو ہم پر لازمی پڑے گا لیکن ہم کہیں اس میں متعلق ہیں؟ اس کو دیکھ سمجھ بھی رہے ہیں یا نہیں؟ ہمارے پاس کسی سفارتی پہل کاری کے لیے گنجائش کتنی رہ گئی ہے جبکہ ہم معیشت کے لیے مجبور بھی ہیں کہ انہی دوست ملکوں کی طرف دیکھیں جو خود اب کہیں اور دیکھ رہے ہیں‘۔
صحافت کا حق ادا کرنے والے ارشد شریف سے بس ’ریڈ لائن‘ کراس ہوگئی!
کینیا میں پاکستانی صحافی ارشد شریف کے قتل کی خبر نے صرف صحافتی برادری کو ہی نہیں بلکہ عام افراد کو بھی متاثر کیا تھا۔ اس قتل کے حوالے سے سوالات بہت زیادہ اور جوابات بہت کم دستیاب ہیں۔
ارشد شریف کے قتل کے بعد ان کے ساتھ کام کرنے والے افراد نے اپنے اپنے طریقوں سے انہیں یاد کیا۔ یہ بلاگ بھی ماضی میں ارشد شریف کے ساتھ کام کرنے والے صحافی عاطف خان کی تحریر ہے جس میں انہوں نے نہ صرف ارشد شریف کی پیشہ ورانہ قابلیت کو تسلیم کیا بلکہ بحیثیت انسان بھی ان کے رویے اور برتاؤ کی تعریف کی۔
لکھاری کے یہ جملے واقعی دل کو لگتے ہیں کہ ’ارشد کو اس کے والد نے اصرار کرکے آرمی میڈیکل کالج میں داخلہ دلوایا تھا لیکن وہ وہاں سے بھاگ گیا کہ اسے کچھ اور کرنا ہے۔ ارشد کے والد آخری وقت تک ارشد کے اس فیصلے پر برہم تھے۔ ’یہ صحافت بھی کوئی پیشہ ہوتا ہے؟‘، وہ ارشد کے دوستوں کو کہا کرتے تھے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ صحافت میں آیا تو پیشے کا حق ادا کردیا‘۔
اہمیت پاکستانی فلموں کی نہیں، معیاری فلموں کی ہونی چاہیے!
رواں سال ڈان بلاگز نے دیگر موضوعات کی طرح فلمی صنعت کو بھی موضوع بنایا۔ خرم سہیل کے لکھے گئے اس بلاگ میں لکھاری نے پاکستانی فلمی صنعت کی مخدوش حالت کا تجزیہ کرتے ہوئے اس کی وجوہات پر روشنی ڈالی ہے۔
لکھاری نے اس تحریر میں پاکستانی فلم سازوں کے اس رویے پر سخت تنقید کی کہ سال بھر فلمیں ریلیز کرنے کے بجائے صرف عید پر فلمیں ریلیز کی جاتی ہیں۔ لکھاری کے مطابق اس رویے کے باعث تمام فلموں کو مناسب تعداد میں شوز ملنا مشکل ہوتے ہیں۔
لکھاری نے پاکستان میں فلم انڈسٹری کی بحالی کو سراہتے ہوئے یہ بھی کہا کہ پاکستان میں فلمیں بننا خوش آئند امر ہے تاہم ان فلموں کی مقبولیت اور بہتر کاروبار کے لیے ضروری ہے کہ یہ فلمیں معیاری بھی ہوں۔
انہوں نے چند مقامی فلم سازو کی جانب سے ایک ہولی ووڈ فلم پر ظاہر کیے گئے خدشات پر تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ ’چند ایک فلم ساز چاہتے ہیں کہ ہولی وڈ کی فلمیں بھی اس ملک میں آنا بند ہوجائیں، اور صرف ان مقامی فلم سازوں کی ڈراما نما فلموں کو دیکھنے عوام کا تانتا سینما تھیٹرز میں بندھا رہے اور سب جانتے ہیں کہ یہ دیوانے کا خواب ہے کیونکہ فلم بین کو سینما تھیٹرز تک لانے کے لیے معیاری کام کرنا پہلی شرط ہے۔‘
ڈان بلاگز
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
کینیا میں پاکستانی صحافی ارشد شریف کے قتل کی خبر نے صرف صحافتی برادری کو ہی نہیں بلکہ عام افراد کو بھی متاثر کیا تھا۔ اس قتل کے حوالے سے سوالات بہت زیادہ اور جوابات بہت کم دستیاب ہیں۔
ارشد شریف کے قتل کے بعد ان کے ساتھ کام کرنے والے افراد نے اپنے اپنے طریقوں سے انہیں یاد کیا۔ یہ بلاگ بھی ماضی میں ارشد شریف کے ساتھ کام کرنے والے صحافی عاطف خان کی تحریر ہے جس میں انہوں نے نہ صرف ارشد شریف کی پیشہ ورانہ قابلیت کو تسلیم کیا بلکہ بحیثیت انسان بھی ان کے رویے اور برتاؤ کی تعریف کی۔
لکھاری کے یہ جملے واقعی دل کو لگتے ہیں کہ ’ارشد کو اس کے والد نے اصرار کرکے آرمی میڈیکل کالج میں داخلہ دلوایا تھا لیکن وہ وہاں سے بھاگ گیا کہ اسے کچھ اور کرنا ہے۔ ارشد کے والد آخری وقت تک ارشد کے اس فیصلے پر برہم تھے۔ ’یہ صحافت بھی کوئی پیشہ ہوتا ہے؟‘، وہ ارشد کے دوستوں کو کہا کرتے تھے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ صحافت میں آیا تو پیشے کا حق ادا کردیا‘۔
اہمیت پاکستانی فلموں کی نہیں، معیاری فلموں کی ہونی چاہیے!
رواں سال ڈان بلاگز نے دیگر موضوعات کی طرح فلمی صنعت کو بھی موضوع بنایا۔ خرم سہیل کے لکھے گئے اس بلاگ میں لکھاری نے پاکستانی فلمی صنعت کی مخدوش حالت کا تجزیہ کرتے ہوئے اس کی وجوہات پر روشنی ڈالی ہے۔
لکھاری نے اس تحریر میں پاکستانی فلم سازوں کے اس رویے پر سخت تنقید کی کہ سال بھر فلمیں ریلیز کرنے کے بجائے صرف عید پر فلمیں ریلیز کی جاتی ہیں۔ لکھاری کے مطابق اس رویے کے باعث تمام فلموں کو مناسب تعداد میں شوز ملنا مشکل ہوتے ہیں۔
لکھاری نے پاکستان میں فلم انڈسٹری کی بحالی کو سراہتے ہوئے یہ بھی کہا کہ پاکستان میں فلمیں بننا خوش آئند امر ہے تاہم ان فلموں کی مقبولیت اور بہتر کاروبار کے لیے ضروری ہے کہ یہ فلمیں معیاری بھی ہوں۔
انہوں نے چند مقامی فلم سازو کی جانب سے ایک ہولی ووڈ فلم پر ظاہر کیے گئے خدشات پر تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ ’چند ایک فلم ساز چاہتے ہیں کہ ہولی وڈ کی فلمیں بھی اس ملک میں آنا بند ہوجائیں، اور صرف ان مقامی فلم سازوں کی ڈراما نما فلموں کو دیکھنے عوام کا تانتا سینما تھیٹرز میں بندھا رہے اور سب جانتے ہیں کہ یہ دیوانے کا خواب ہے کیونکہ فلم بین کو سینما تھیٹرز تک لانے کے لیے معیاری کام کرنا پہلی شرط ہے۔‘
رواں سال ڈان بلاگز نے دیگر موضوعات کی طرح فلمی صنعت کو بھی موضوع بنایا۔ خرم سہیل کے لکھے گئے اس بلاگ میں لکھاری نے پاکستانی فلمی صنعت کی مخدوش حالت کا تجزیہ کرتے ہوئے اس کی وجوہات پر روشنی ڈالی ہے۔
لکھاری نے اس تحریر میں پاکستانی فلم سازوں کے اس رویے پر سخت تنقید کی کہ سال بھر فلمیں ریلیز کرنے کے بجائے صرف عید پر فلمیں ریلیز کی جاتی ہیں۔ لکھاری کے مطابق اس رویے کے باعث تمام فلموں کو مناسب تعداد میں شوز ملنا مشکل ہوتے ہیں۔
لکھاری نے پاکستان میں فلم انڈسٹری کی بحالی کو سراہتے ہوئے یہ بھی کہا کہ پاکستان میں فلمیں بننا خوش آئند امر ہے تاہم ان فلموں کی مقبولیت اور بہتر کاروبار کے لیے ضروری ہے کہ یہ فلمیں معیاری بھی ہوں۔
انہوں نے چند مقامی فلم سازو کی جانب سے ایک ہولی ووڈ فلم پر ظاہر کیے گئے خدشات پر تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ ’چند ایک فلم ساز چاہتے ہیں کہ ہولی وڈ کی فلمیں بھی اس ملک میں آنا بند ہوجائیں، اور صرف ان مقامی فلم سازوں کی ڈراما نما فلموں کو دیکھنے عوام کا تانتا سینما تھیٹرز میں بندھا رہے اور سب جانتے ہیں کہ یہ دیوانے کا خواب ہے کیونکہ فلم بین کو سینما تھیٹرز تک لانے کے لیے معیاری کام کرنا پہلی شرط ہے۔‘