• KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am
  • KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am

’ڈالر کی بلا روک ٹوک افغانستان منتقلی پاکستان کیلئے بحران کا سبب‘

شائع December 27, 2022
ملک بوستان نے کہا کہ روزانہ ڈیڑھ کروڑ ڈالر قانونی طور پر پاکستان سے افغانستان جارہے ہیں — فائل فوٹو: ڈان نیوز
ملک بوستان نے کہا کہ روزانہ ڈیڑھ کروڑ ڈالر قانونی طور پر پاکستان سے افغانستان جارہے ہیں — فائل فوٹو: ڈان نیوز

چیئرمین ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن ملک بوستان کا کہنا ہےکہ گزشتہ برس افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد سے پاکستان سے بڑے پیمانے پر امریکی ڈالرز افغانستان جا رہے ہیں، یہ صورتحال پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر بتدریج ختم کررہی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایک پریس سے خطاب کرتے ہوئے ملک بوستان نے کہا کہ ڈالر کی اسمگلنگ اور جعلی درآمدات کے علاوہ حکومت کی جانب سے اس معاملے میں عدم توجہی نے شرح مبادلہ تباہ کردیا ہے۔

ملک بوستان نے نشاندہی کی کہ جب طالبان نے کابل پر قبضہ کیا تو ایک ڈالر 155 روپے میں دستیاب تھا اور پاکستان کے ذخائر 22 ارب ڈالر تھے، اب انٹر بینک مارکیٹ میں ڈالر 225 روپے میں فروخت ہورہا ہے جبکہ ذخائر تقریباً 8 سال کی کم ترین سطح پر آ گئے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان کی جانب ڈالر کے اس بلا روک ٹوک بہاؤ نے پاکستان کے لیے بحران پیدا کر دیا ہے۔

ملک بوستان نے کہا کہ روزانہ ڈیڑھ کروڑ ڈالر قانونی طور پر پاکستان سے افغانستان جارہے ہیں کیونکہ ہر شخص کو یومیہ ایک ہزار ڈالر لے جانے کی اجازت دی گئی ہے اور روزانہ 15 ہزار لوگ افغانستان سفر کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 2 ماہ قبل افغان حکومت نے ملک میں موجود تمام پاکستانی کرنسی کو ڈالر یا دیگر غیر ملکی کرنسیوں میں تبدیل کر نے کی ہدایت دی تھی، کابل میں 5 لاکھ پاکستانی روپے سے زیادہ رکھنا ممنوع ہے، اس سے زیادہ پاکستانی رقم رکھنے والے کسی بھی شخص کے خلاف انسداد منی لانڈرنگ کے قوانین کے تحت مقدمہ چلایا جائے گا۔

ملک بوستان نے کہا کہ ’42 برسوں سے افغان عوام پاکستانی کرنسی میں تجارت کر رہے تھے، ان کے پاس سیکڑوں ارب روپے ہیں لیکن افغان حکومت کی ہدایت کے بعد اب وہ ہر قیمت پر پاکستان سے ڈالر خرید رہے ہیں، وہ پاکستانی منڈیوں سے تمام ڈالرز سمیٹ لیں گے، پاکستان کو یہ معاملہ افغان حکومت کے سامنے اٹھانا چاہیے‘۔

انہوں نے کہا کہ تجارتی بینک کریڈٹ کارڈز کے لیے ایکسچینج کمپنیوں سے ماہانہ 12 سے 13 کروڑ ڈالر خرید رہے ہیں، ان کریڈٹ کارڈز کی بدولت ڈالرز قانونی طور پر ملک سے منتقل ہوتے ہیں، تاہم حکومت نے فی کریڈٹ کارڈ پر سالانہ اخراجات کی حد کو کم کر کے 30 ہزار ڈالر کر دیا ہے، اس سے پہلے اس طرح کے لین دین پر کوئی حد نہیں تھی۔

ملک بوستان نے کہا کہ رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں تقریباً 15 ہزار کنٹینرز درآمدی ڈیوٹی ادا کیے بغیر پاکستان سے افغانستان گئے جبکہ گزشتہ برس اس مدت کے دوران یہ تعداد 3 ہزار کنٹینرز تک تھی۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان افغانستان سے کوئلہ، سبزیاں، خشک میوہ جات اور دیگر معدنیات درآمد کرتا ہے جس کی یومیہ لاگت 2 سے ڈھائی کروڑ ڈالر ہے۔

انہوں نے کہا کہ افغان حکومت نے کامیابی سے ڈالر کی شرح 88 افغانی پر برقرار رکھی ہے اور یہ ان کی پالیسیوں کی وجہ سے ہے کیونکہ وہ اس وقت تک نوٹ نہیں چھاپتے جب تک انہیں ڈالر نہ مل جائیں۔

انہوں نے کہا کہ ایکسچینج کمپنیاں اس وقت دیگر غیر ملکی کرنسیوں کی برآمد کے ذریعے 3 ارب ڈالر درآمد کرتی ہیں جبکہ ترسیلات زر سالانہ 2 بلین ڈالر ہیں، اگر حکومت ہمیں ترسیلات زر کے لیے 50 غیر ملکی کمپنیوں کے ساتھ معاہدے کرنے کی اجازت دے تو ہم ہر سال 7 سے 8 ارب ڈالر تک لا سکتے ہیں جبکہ اس وقت ہمارے پاس صرف 3 ارب ڈالر ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024