• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

قومی ادارہ صحت کی ٹائیفائیڈ بخار کی تشخیص کیلئے ٹیسٹ بند کرنے کی ہدایت

شائع December 23, 2022
این ایچ آئی کے ایک سینئر افسر نے بتایا کہ تقریباً ایک دہائی قبل وائڈل ٹیسٹ دنیا بھر میں بند کردیا گیا تھا — فائل فوٹو
این ایچ آئی کے ایک سینئر افسر نے بتایا کہ تقریباً ایک دہائی قبل وائڈل ٹیسٹ دنیا بھر میں بند کردیا گیا تھا — فائل فوٹو

قومی ادارہ برائے صحت (این آئی ایچ) نے ملک بھر میں صحت کی سہولیات اور لیبارٹریز کو ہدایت کی ہے کہ غلط نتائج کے امکان کی وجہ سے ٹائیفائیڈ کے دو بنیادی ٹیسٹ وائڈل اور ٹائفیڈوٹ بند کرکے صرف ’بلڈ کلچر ٹیسٹ‘ پر ہی قائم رہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق این آئی ایچ نے ملک بھر میں لیبارٹریز کو ہدایت جاری کی ہے کہ غلط مثبت نتائج کے باعث ٹائیفائیڈ کی تشخیص کے لیے صرف بلڈ کلچر ٹیسٹ کا استعمال کیا جائے۔

وائڈل اور ٹائفیڈوٹ ٹیسٹ کو اس لیے ترجیح دی جاتی ہے کیونکہ زیادہ تر لیبارٹریز کے پاس بلڈ ٹیسٹ کلچر کی سہولیات میسر نہیں ہوتیں۔

طبی ماہر کے مطابق وائڈل اور ٹائفیڈوٹ ٹیسٹ ملک میں بڑے پیمانے پر ڈرگ ریزسٹنٹ (ایکس ڈی آر) ٹائیفائیڈ بخار کے پھیلاؤ کی وجہ بن رہے ہیں جس پر زیادہ تر اینٹی بائیوٹک ادویات کا اثر نہیں ہوتا۔

انہوں نے کہا کہ ملک میں پہلے ہی پولیو وائرس پایا جاتا ہے اور گزشتہ کچھ برسوں سے ملک کو ٹائیفائیڈ کے اینٹی مائیکروبیل ریزسٹنس (اے ایم آر) بیکٹیریا کا سامنا ہے۔

این ایچ آئی نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ انہیں پتا چلا ہے کہ کچھ لیبارٹریز اور ہسپتال باالخصوص سیلاب زدہ علاقوں میں ابھی تک ٹائفائیڈ بخار کی تشخیص کے لیے وائڈل اور ٹائفیڈوٹ ٹیسٹ کا استمعال کرتی ہیں۔

این ایچ آئی نے اپنے خط میں لکھا کہ ’ملک میں ٹائفائیڈ بخار بڑھنے کے پیش نظر اس بات پر دوبارہ زور دیا جاتا ہے کہ ٹائفائیڈ بخار کی تشخیص کے لیے وائڈل اور ٹائفیڈوٹ ٹیسٹ نہیں کیے جائیں گے اور اس عمل کو فوری طور پر ختم کیا جائے اور ٹائفائیڈ کی تصدیق کے لیے صرف بلڈ کلچر ٹیسٹ کا طریقہ ہی اپنایا جائے۔

چاروں صوبوں کے محکمہ صحت کو ارسال کیے گئے خط کے ذریعے سرجن جنرل آف پاکستان آرمی اور وفاقی محکمہ صحت اور متعلقہ حکام سے درخواست کی گئی ہے کہ ایسی لیبارٹریز پر نظر رکھی جائے جو وائڈل اور ٹائفیڈوٹ ٹیسٹ کا استعمال کرتی ہیں۔

ڈان سے بات کرتے ہوئے این ایچ آئی کے ایک سینئر افسر نے بتایا کہ تقریباً ایک دہائی قبل وائڈل ٹیسٹ دنیا بھر میں بند کردیا گیا تھا، جبکہ دنیا کے اکثر ممالک میں ٹائفیڈوٹ بھی ختم کردہا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ دونوں ٹیسٹ میں غلط مثبت نتائج سامنے آتے ہیں جس کا مطلب ہوتا ہے کہ ایک مریض بھلے ہی ٹائفائیڈ سے متاثر نہ ہو لیکن رپورٹ میں انہیں ٹائفائیڈ مثبت بتایا جاتا ہے جس کے نتیجے میں ڈاکٹر، مریضوں کو اینٹی بائیوٹک ادویات لینے کی تجویز دیتا ہے اور پھر یہ عمل اینٹی مائیکروبیل رزسٹنٹ کا سبب بنتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ٹائفیڈوٹ ٹیسٹ کی قیمت صرف 150 روپے ہے مگر لیبارٹریز میں ایک ہزار روپے وصول کیے جاتے ہیں۔

سینئر افسر نے کہا کہ بلڈ کلچر ٹیسٹ، ٹائیفائیڈ کی تشخیص کے لیے بہترین ہے جس پر تقریباً 2 ہزار روپے لاگت آتی ہے لیکن زیادہ تر لیبز میں یہ ٹیسٹ کرانے کی سہولت نہیں ہے، لہٰذا لیبز ڈاکٹروں کو ٹائفیڈٹ ٹیسٹ تجویز کرنے کے لیے کمیشن ادا کرتی ہیں اور ملک بھر میں اس ٹیسٹ کو تجویز کیا جاتا ہے۔

امریکا کے ادراہ صحت نے 2018 میں پاکستان میں ایکس ڈی آر ٹائفائیڈ کے پھیلاؤ کے سلسلے میں ایک ایڈوائزری جاری کی تھی جس سے صحت کے قومی اور عالمی اداروں میں تشویش پیدا ہوگئی تھی جیسا کہ پاکستان پہلے ہی پولیو وائرس کے پھیلاؤ میں شامل تھا اور پھر ٹائفائیڈ کے اینٹی مائیکروبیل رزسٹنٹ بیکٹیریا کے پھیلاؤ کا الزام بھی پاکستان پر عائد ہوا تھا۔

امریکی محکمے سینٹرز فار ڈزیز کنٹرول اینڈ پری وینشن کی طرف سے جاری کردہ ایڈوائزری میں کہا گیا تھا کہ پاکستان میں ایکس ڈی آر ٹائفائیڈ بخار کا پھیلاؤ جاری ہے جس پر کوئی اینٹی بائیوٹک ادویات کا اثر نہیں ہوتا۔

سال 2018 کے دوران پاکستان سے سفر کرنے کے باعث اس بخار کے کیسز برطانیہ اور امریکا میں بھی رپورٹ ہوئے تھے۔

ایکس ڈی آر ٹائفائیڈ بیکٹیریا میں ایک ایسی ذہانت ہوتی ہے جس کی وجہ سے اینٹی بائیوٹک کے زیادہ استعمال کی وجہ سے یہ دوا کے مطابق خود کو بدلتا ہے اور ادویات کے خلاف مزاحمت پیدا کرتا ہے۔

ماضی میں اس بخار کو ختم کرنے کے لیے کم طاقت والی ادویات کا استعمال کیا جاتا تھا لیکن اے ایم آر کی وجہ سے اب زیادہ طاقت والی ادویات کی ضرورت ہوتی ہے۔

این ایچ آئی افسر نے کہا کہ اگر اینٹی بائیوٹک ادویات کا غیر ضروری استعمال جاری رہا تو پاکستان میں ایکس ڈی آر ٹائفائیڈ وائرس کے مریضوں میں اضافہ ہوگا۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024