پنجاب کی سیاست: 1993ء اور 2022ء کے حالات میں کیا مماثلت پائی جاتی ہے؟
پنجاب اسمبلی کی تحلیل کے اعلان کے بعد جنم لینے والا آئینی اور سیاسی بحران بالآخر عدالتی جنگ میں تبدیل ہوگیا اور لاہور ہائیکورٹ کے عبوری احکامات کے بعد یہ بحران تقریباً ٹل گیا ہے اور آئینی عہدیداروں کے درمیان سیاسی زور آزمائی کی شدت میں بھی خاصی کمی کے آثار نظر آنے لگے ہیں۔
گزشتہ 3، 4 دنوں میں سیاسی مخالفین نے ایسے آئینی داؤ پیچ استعمال کیے جس سے گھمبیر بحران کا خطرہ پیدا ہوگیا تھا۔ جیسے جیسے پنجاب اسمبلی کی تحلیل کا مقررہ دن قریب آنے لگا تو نہ صرف حزبِ اختلاف نے وزیرِاعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کردی بلکہ حزبِ اختلاف سے تعلق رکھنے گورنر پنجاب بلیغ الرحمٰن نے وزیرِاعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ لینے کا بھی کہہ دیا۔
جس پر اسپیکر پنجاب اسمبلی سبیطن خان نے پہلے سے جاری اجلاس کو اس دن تک یعنی 23 دسمبر تک ملتوی کردیا جب پنجاب اسمبلی کی تحلیل کی سمری گورنر پنجاب کو بھجوانی تھی۔
پھر گورنر پنجاب بلیغ الرحمٰن نے اسمبلی کی تحلیل کا مقررہ دن شروع ہونے سے پہلے ہی وزیرِاعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا۔ بس یہی وہ فیصلہ تھا جس نے پرویز الٰہی کو زیادہ متاثرہ فریق بنادیا اور انہوں نے دادرسی کے لیے لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کرلیا اور یوں بال عدالتی کورٹ میں پہنچ گئی۔
لاہور ہائیکورٹ کے 5 رکنی فل بینچ نے پرویز الٰہی کے اسمبلی تحلیل نہ کرنے کی یقین دہانی پر انہیں وزارتِ اعلٰی پر بحال کردیا اور گورنر پنجاب کے اس نوٹیفکیشن پر عمل درآمد روک دیا جس کے تحت پرویز الٰہی کو عہدے سے ہٹایا گیا تھا۔
طویل سماعت کے بعد فل بینچ نے پرویز الٰہی کو اعتماد کا ووٹ لینے کا پابند تو نہیں کیا البتہ یہ ضرور قرار دیا کہ وہ خود چاہیں تو ووٹ لے سکتے ہیں۔
پرویز الٰہی کی درخواست پر کارروائی کے دوران کمرہ عدالت وکلا سے بھرا ہوا تھا۔ ان وکلا میں تحریک انصاف، مسلم لیگ (ق) اور مسلم لیگ (ن) کے وکیل شامل تھے۔ شام کو لگ بھگ سوا 6 بجے کے قریب مونس الٰہی اور ان کے کزن حسین الٰہی بھی اپنے وکیل بیرسٹر علی ظفر کے ساتھ عدالت میں پہنچے۔
سماعت کے دوران ایک موقع پر جب بیرسٹر علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے گورنر پنجاب کا حوالہ دیا تو فل بینچ کے ایک رکن نے ریمارکس دیے کہ یہ معلوم کریں کہ وہ کون سا ٹی وی چینل دیکھتے ہیں۔
فل بینچ کے رُوبرو جن قانونی نکات پر دلائل ہوئے ان میں اہم نکتہ یہ تھا کہ پرویز الٰہی نے اعتماد کا ووٹ لینے سے انکار نہیں کیا بلکہ اسپیکر پنجاب اسمبلی نے اجلاس مؤخر کیا ہے۔ گورنر پنجاب کے پاس ایک منتخب وزیرِاعلیٰ کو ہٹانے کا اختیار نہیں ہے۔ بیرسٹر علی ظفر نے اپنا مؤقف واضح کرنے کے لیے مثال دی کہ یہ معاملہ بالکل اسی طرح کا ہے جیسے لڑائی 2 لوگوں کی ہو اور کارروائی تیسرے کے خلاف کی جائے۔
بیرسٹر علی ظفر کے بقول اجلاس مؤخر کرنے سے وزیرِاعلیٰ کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ پرویز الٰہی کے وکیل نے یہ نشاندہی بھی کی کہ گورنر پنجاب نے اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے کوئی ٹھوس وجوہات بیان نہیں کیں۔
لاہور ہائیکورٹ کے فل بینچ کے رُوبرو منظور وٹو کو وزارتِ اعلیٰ سے ہٹانے کے خلاف درخواست کا تذکرہ بھی ہوا۔
26 برس پہلے لاہور ہائیکورٹ کے فل بینچ کے سامنے منظور وٹو کی درخواست کی پیروی سابق وزیرِ قانون ایس ایم ظفر نے کی تھی اور اب ان کے بیٹے بیرسٹر علی ظفر فل بینچ کے روبرو اس وزیرِاعلیٰ کے وکیل ہیں جن کو وزارتِ اعلیٰ سے ہٹا دیا گیا۔
فل بینچ کے سامنے بیرسٹر علی ظفر نے عدالتی مہلت کے بعد یہ یقین دہانی کروانے سے معذوری ظاہر کی کہ پرویز الٰہی وزارتِ اعلیٰ پر بحالی کے بعد اسمبلی تحلیل نہیں کریں گے. البتہ پرویز الٰہی کے وکیل نے کہا کہ عدالت اگر حکم دے دے تو ایسا نہیں ہوگا، جس پر فل بینچ نے کہا کہ عدالت اگر حکم دے تو پھر حکم کی پاسداری کیسے یقینی بنائی جائے گی؟
تاہم فل بینچ نے جب دوبارہ مہلت دی تو بیرسٹر علی ظفر نے اپنے موکل پرویز الٰہی کی جانب سے یہ یقین دہانی کروادی کہ ان کی عہدے پر بحالی کے بعد اسمبلی تحلیل نہیں کی جائے گی۔
میاں منظور وٹو کی درخواست کی سماعت کے دوران اس وقت کے فل بینچ نے میاں منظور وٹو کے وکیل کے خدشے پر بھی یقین دہانی مانگی تھی کہ اعتماد کا ووٹ لینے کے وقت ہارس ٹریڈنگ نہیں ہوگی لیکن پنجاب حکومت کے وکیل یعنی ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل میاں جمیل اختر نے یہ یقین دہانی دینے سے معذوری ظاہر کی تھی اور کہا تھا کہ حکومت سے ہدایات لیے بغیر وہ کسی قسم کی یقین دہانی نہیں کرواسکیں گے۔
سیاسی اوراق کو پلٹنے سے نئے سیاسی اور آئینی بحران کی مماثلت کہیں نہ کہیں ماضی میں جنم لینے والے سیاسی بحرانوں سے ضرور ملتی ہے۔ ان بحرانوں میں گورنر، وزیرِاعلیٰ اور اسپیکر کا کردار کسی نہ کسی طرح اہم اور متحرک رہا البتہ آئینی عہدوں پر براجمان رہنے والی شخصیات ضرور تبدیل ہوئیں لیکن ان کے کردار میں کوئی خاص فرق نہیں پڑا۔
پنجاب میں نئی بحرانی صورتحال میں بھی ماضی کی جھلک کہیں نہ کہیں ضرور نظر آتی ہے۔ آج بھی اسپیکر پنجاب اسمبلی سبطین خان کی رولنگ میں 26 برس پرانے عدالتی فیصلے یعنی منظور وٹو کے فیصلے کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔
اسپیکر پنجاب اسمبلی سبطین خان نے اعتماد کا ووٹ لینے کے بارے میں رولنگ میں منظور وٹو کی درخواست پر عدالتی فیصلے کی نظیر کا حوالہ دیا۔ یہ وہی فیصلہ ہے کہ جب منظور وٹو کو پنجاب اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے کہا گیا اور پھر منظور وٹو نے وزارتِ اعلیٰ پر بحالی کے لیے لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کیا تھا۔
یہ صوبے بلکہ ملک کی سیاسی تاریخ کا انوکھا اقدام ہے کہ حکومت اسمبلی توڑنا چاہتی ہے اور اس کے برعکس حزبِ اختلاف اسے قائم رکھنا چاہتی ہے۔
1985ء کے بعد سے تواتر کے ساتھ قومی اسمبلی سمیت پنجاب اسمبلی اپنی مقرر معیاد سے پہلے (2) 58 بی کے آئینی اختیار کے تحت صدرِ مملکت کی صوابدید پر ٹوٹتی رہی ہیں۔
1993ء میں مسلم لیگ (ن) نے اسپیکر پنجاب اسمبلی منظور وٹو کی جانب سے اپنے وزیرِاعلیٰ غلام حیدر وائیں کی حکومت گرانے پر بھرپور جوابی وار کیا اور نئے وزیرِاعلٰی پنجاب کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کردی۔ اس وقت کے گورنر پنجاب الطاف حسین بھی منظور وٹو کی مدد کے لیے میدان میں اترے اور حزبِ مخالف کی عدم اعتماد کو ناکام بنانے کے لیے اسمبلی تحلیل کردی۔ اپوزیشن نے جوابی وار کیا اور اسمبلی کی تحلیل کو لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کردیا۔ لاہور ہائیکورٹ کے فل بینچ نے پنجاب اسمبلی کو بحال کردیا لیکن گورنر الطاف حسین نے عدالتی فیصلے کے کچھ دیر بعد دوبارہ اسمبلی توڑ دی۔
پنجاب اسمبلی کی تحلیل اور بحالی کا عمل جاری رہا اور اسی دوران چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس نسیم حسن شاہ کی سربراہی میں فل بینچ نے نواز شریف کی حکومت اور قومی اسمبلی کو بحال کردیا۔
اسی ساری صورتحال میں تناؤ بڑھنے سے وفاق اور صوبہ پنجاب آمنے سامنے آگئے۔ صوبائی دارالحکومت لاہور میں ایک جانب رینجرز اور دوسری جانب پولیس اہلکار تعینات کردیے گئے۔ اور اگر موجودہ بحران پر نظر ڈالیں تو اس بار بھی رینجرز کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا تھا۔
جس طرح آج گورنر پنجاب بلیغ الرحمٰن نے پرویز الٰہی سے اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے کہا ہے بالکل اسی طرح ماضی میں گورنر راجہ سروپ خان نے اس وقت کے وزیرِاعلیٰ میاں منظور وٹو کو اعتماد کے ووٹ کے لیے کہا تھا، اور اس وقت آج کے وزیرِاعلیٰ پرویز الٰہی پنجاب اسمبلی میں قائدِ حزب اختلاف تھے۔
پرویز الٰہی کی طرح میاں منظور وٹو بھی ایک اتحادی حکومت کے وزیرِ اعلٰی تھے۔ 1993ء میں پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ (ج) یعنی جونیجو لیگ کے ساتھ حکومت بنائی۔ پیپلز پارٹی نے اس وقت تحریک انصاف کی طرح پنجاب میں ارکان کی تعداد زیادہ ہونے کے باوجود وزارتِ اعلیٰ مسلم لیگ (ج) کو دی جس طرح اب مسلم لیگ (ق) کو دی گئی ہے۔
اُس وقت تحریک انصاف کی طرح پیپلز پارٹی نے بھی اسپیکر اسمبلی کا عہدہ اپنا پاس رکھا اور پیپلز پارٹی کے اسپیکر پنجاب اسمبلی حنیف رامے تھے۔
1993ء میں مسلم لیگ (ج) کے میاں منظور وٹو وزیرِاعلیٰ بنے اور اب مسلم لیگ (ق) کے پرویز الٰہی وزیرِاعلیٰ ہیں۔ پنجاب کی دونوں سیاسی شخصیات پرویز الٰہی اور میاں منظور احمد وٹو نہ صرف 3 مرتبہ اکٹھے رکن پنجاب اسمبلی بنے بلکہ ان میں ایک قدر یہ بھی مشترک ہے کہ وہ اسمبلی کی جس مدت میں اسپیکر تھے اسی معیاد میں وہ اسپیکر اسمبلی سے قائدِ ایوان یعنی وزیرِاعلی بھی بنے۔
منظور وٹو کو لاہور ہائیکورٹ کے فل بینچ نے پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کے منصب پر بحال کرکے ہدایت کی کہ وہ اعتماد کا ووٹ لیں۔ منظور وٹو ابھی اعتماد کا ووٹ نہیں لے سکے تھے کہ اس وقت کے صدرِ مملکت فاروق لغاری نے قومی اسمبلی توڑ دی اور یوں صوبائی اسمبلیاں بھی تحلیل ہوگئیں۔
ماہرین قانون اس وقت آئینی پیچیدگیوں پر اپنی رائے کا اظہار ضرور کررہے ہیں لیکن دلیل اُسی کی مانی جائے گی جو عدالت کو قائل کرنے کامیاب ہوسکے گا۔
عباد الحق گزشتہ 30 برس سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ آپ بی بی سی سمیت ملکی و بین الاقوامی صحافتی اداروں سے منسلک رہے ہیں جہاں آپ سیاسی و عدالتی امور کو کور کرتے رہے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
عباد الحق گزشتہ 30 برس سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ آپ بی بی سی سمیت ملکی و بین الاقوامی صحافتی اداروں سے منسلک رہے ہیں جہاں آپ سیاسی و عدالتی امور کو کور کرتے رہے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔