• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

توانائی کی بچت کیلئے مارکیٹیں رات 8 بجے، شادی ہالز 10 بجے بند کرنے کا فیصلہ

شائع December 20, 2022
وزیر دفاع اسلام آباد میں میڈیا کو بریفنگ دے رہے تھے — فوٹو: ڈان نیوز
وزیر دفاع اسلام آباد میں میڈیا کو بریفنگ دے رہے تھے — فوٹو: ڈان نیوز

وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ ملک اس وقت سنگین معاشی صورتحال سے گزر رہا ہے اس لیے توانائی کی بچت کرنے کے لیے شادی ہالز کے اوقات رات 10 بجے اور ریسٹورنٹس اور مارکیٹوں کے اوقات رات 8 بجے تک مقرر کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

اسلام آباد میں وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ شادی ہالز کے اوقات رات 10 بجے تک محدود کیے جائیں گے اور ریسٹورنٹس اور مارکیٹیں رات 8 بجے تک بند ہو جائیں گی، مگر ریسٹورنٹس کے لیے گنجائش ہے کہ شاید ان کو ایک گھنٹہ مزید بڑھایا جائے لیکن ان اقدامات سے 62 ارب روپے کی بچت ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ پالیسی کے نفاذ کے لیے چاروں صوبوں سے رابطہ کریں گے کیونکہ یہ ایک قومی پروگرام ہے جس کو صوبوں کی مشاورت سے شروع کرنا لازمی ہے۔

’دنیا میں مارکیٹیں 6 بجے کے بعد بند ہوجاتی ہیں‘

وزیر دفاع نے کہا کہ پوری دنیا میں مارکیٹیں 6 بجے کے بعد بند ہوجاتی ہیں مگر پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں مارکیٹیں رات کو 12 بجے تک کھلی ہوتی ہیں، جبکہ صبح کو 12 سے 2 بجے تک مارکیٹیں کھولی جاتی ہیں جس کی وجہ سے سورج کی روشنی سے مستفید نہیں ہوتے۔

ان کا کہنا تھا کہ پہلے مارکیٹیں شام کو بند ہو جاتی تھیں مگر اب نیا رواج چل پڑا ہے اس لیے ہمیں اپنی عادات کو تبدیل کرنا ہوگا اور ہمیں اگر اپنے وسائل میں رہنا ہے تو اپنے ذرائع کے مطابق رہنا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ 7 ماہ سے اس پالیسی پر کام چل رہا تھا مگر اب صوبوں سے مشاورت کریں گے اور انہیں اس بات پر راضی کریں گے کہ قومی ایمرجنسی کے لیے اس پالیسی کو اپنانا ہوگا۔

’قوم کو کفایت شعاری کی پالیسی دینے پر اتفاق‘

خواجہ آصف نے کہا کہ تین چار دنوں سے وزیر اعظم شہباز شریف کی صدارت میں کابینہ کا اجلاس ہوا ہے جس میں قوم کو محدود وسائل میں رہنے کے لیے کفایت شعاری کی پالیسی دینے پر تبادلہ خیال ہوا ہے جس پر 22 دسمبر کو عمل شروع کیا جائے گا اور اس سلسلے میں صوبوں سے بھی رائے لی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ توانائی بچت پلان پر صوبوں سے مشاورت کا فیصلہ کیا گیا ہے اور ’ورک فرام ہوم‘ کی تجویز کا بھی جائزہ لیا گیا ہے، اسی طرح اگر 20 فیصد سرکاری ملازمین ورک فرام ہوم کریں تو 55 ارب روپے کی بچت ہوگی۔

ان کا کہنا تھا کہ گھروں اور دفاتر میں پرانے پنکھوں پر 120 سے 130 واٹ بجلی خرچ ہوتی ہے مگر ان کی جگہ نئے پنکھے آگئے ہیں جو 40 سے 60 واٹ پر چلتے ہیں تو اس سے بھی 15 ارب روپے سالانہ بچائے جاسکتے ہیں، اسی طرح پرانے بلبوں کی جگہ نئے بلب لگانے سے 23 ارب روپے بچائے جاسکتے ہیں۔

’چھوٹے چھوٹے اقدامات سے اربوں روپے کی بچت ہو سکتی ہے‘

وفاقی وزیر نے کہا کہ گھروں میں چھوٹے چھوٹے اقدامات سے سالانہ 6 ہزار میگاواٹ بجلی محفوظ کی جاسکتی ہے کیونکہ توانائی کا نظام ایندھن پر چلتا ہے اور جب تک قابل تجدید توانائی پر منتقل نہ ہوں ہمیں یہ اقدامات کرنے ہوں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ گیس پر چلنے والے گیزر میں کونیکل بیفل کے لیے گیس فراہم کرنے والی کمپنیوں سے بات کریں گے، تاکہ وہ معیار کے مطابق اس پر عمل کریں جس سے سالانہ 92 ارب روپے کی بچت ہوگی۔

’الیکٹرک موٹر سائیکل لانے کے لیے کام شروع ہوگیا ہے‘

اسٹریٹ لائٹس کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اگر ان میں سے ایک کو چھوڑ کر دوسری لائٹ چلائی جائے تو اس سے سالانہ 4 ارب روپے کی بچت ہوگی، اسی طرح ایندھن پر چلنے والی موٹر سائیکلوں کی جگہ الیکٹرک موٹر سائیکل لانے کے لیے کام شروع کیا گیا ہے اور اس سلسلے میں کمپنیوں سے مذاکرات بھی ہو رہے ہیں اور اس اقدام سے سالانہ 86 ارب روپے کی بچت ہوگی۔

خواجہ آصف نے کہا کہ گھروں میں پنکھے اور ایئر کنڈیشن کے استعمال میں بچت سے 8 سے 9 ہزار میگاواٹ بجلی بچائی جاسکتی ہے اور کپیسٹی پے منٹس کی مد میں 28 ارب روپے ماہانہ بچت ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے کابینہ اجلاس میں وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کے نریندر مودی سے متعلق بیان کی مکمل حمایت کی ہے کیونکہ وزیر خارجہ نے درست جواب دیا ہے اور قوم کی ترجمانی کی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ چند ماہ قبل توشہ خانہ کے طریقہ کار پر نظر ثانی کے لیے کابینہ کی کمیٹی بنائی گئی تھی جس نے سفارشات کو حتمی شکل دے دی ہے۔

انہوں نے کہا کہ توشہ خانہ کے طریقہ کار کو مکمل طور پر تبدیل کیا جارہا ہے اور سابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے توشہ خانہ سے تحائف کے حصول اور مس ڈکلیریشن سے متعلق ایک انکوائری وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کو بھجوانے کی منظوری دی گئی ہے۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024