• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

انگلینڈ کے ہاتھوں وائٹ واش: پاکستان اور انگلینڈ کی ٹیموں میں بنیادی فرق کیا رہا؟

شائع December 20, 2022

آپ اسے وائٹ واش کہیں یا پھر کلین سوئپ لیکن ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ کسی مہمان ٹیم نے پاکستان کو پاکستان میں ایسی بدترین شکست سے دوچار کیا ہے۔

انگلش ٹیم نے اس فتح کے ساتھ ٹیسٹ کرکٹ میں ایک نئی سمت اور رجحان متعارف کروادیا ہے۔ یہ ٹیم اب کھیل کے اصل جذبے کے ساتھ تو کھیلتی ہی ہے لیکن ساتھ میں شائقین کو تفریح بھی فراہم کرتی ہے۔

پاکستان اور انگلینڈ کے دوروں کے دوران دونوں ہی ٹیموں کے حوالے سے کئی تنازعات سامنے آچکے ہیں لیکن اس سے قطع نظر بین اسٹوکس کی سربراہی میں اس ٹیم نے طویل دوراینے کی اس کرکٹ کو بالکل تبدیل کردیا ہے۔

پنڈی کے فلیٹ ٹریک پر اننگ ڈیکلیئر کرنے کا خطرہ لینے کے بعد 74 رنز سے فتح دراصل اس بات کا اظہار تھا کہ وہ سیریز کو اپنی مرضی سے چلانا چاہتے ہیں اور اس فارمیٹ کو بھی دلچسپ بنانا چاہتے ہیں۔

انگلینڈ نے دوسرے میچ میں اسی انداز میں کھیلا کہ کسی طرح میچ ڈرا نہ ہو بلکہ میچ کا کوئی نہ کوئی نتیجہ نکلے۔ ایسا ہوا بھی اور انگلینڈ وہ میچ 26 رنز سے جیت گیا۔ ملتان ٹیسٹ میں امپائرنگ کا معیار ناقص رہا لیکن انگلینڈ نے بیٹنگ، باؤلنگ اور فیلڈنگ تینوں شعبوں میں جارحانہ کرکٹ کھیلی۔

اس سیریز میں انگلینڈ کے کھلاڑیوں، زیک کرالی، بین ڈکٹ، ہیری بروکس، اولی پوپ اور باؤلرز جیمی انڈریسن، مارک ووڈ، جیک لیچ اور کراچی ٹیسٹ میں ڈیبیو کرنے والے ریحان احمد نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ ہمیں انگلش کپتان بین اسٹوکس کو بھی نہیں بھولنا چاہیے۔ کوچ برینڈن میکولم اور بین اسٹوکس کی قیادت میں ہی انگلش ٹیم جارحانہ انداز میں ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے کے قابل ہوئی ہے۔

پاکستان نے مقابلہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن ہمیں یہ بات تسلیم کرنی چاہیے کہ انگلینڈ نے ہر اعتبار سے ہم سے بہتر کھیل پیش کیا۔ ہماری ٹیم سلیکشن ناقص تھی، جن کھلاڑیوں کو منتخب کیا گیا وہ ٹیسٹ کے لیے موزوں نہیں تھے۔ پاکستان نے انگلینڈ کے برخلاف ایک دفاعی حکمتِ عملی اختیار کی جس سے بعد میں مایوسی ہوئی۔

مجھے بہت حیرت ہوئی کہ کاؤنٹی کرکٹ کے گزشتہ سیزن میں اچھی کارکردگی دکھانے والے شان مسعود کو ابتدائی 2 ٹیسٹ میچوں میں کھلایا ہی نہیں گیا۔ اس کے علاوہ محمد رضوان کو ٹیسٹ میں کھلایا گیا جو محدود اوورز کی کرکٹ کھیلتے ہیں اور ٹیسٹ کرکٹ میں بہت بہتر کارکردگی نہیں دکھا سکے۔ یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ آخر محمد علی، فہیم اشرف اور وسیم جونئیر کو ٹیسٹ میں کھلانے کا کیا مقصد تھا۔

حیرت ہوئی کہ شان مسعود کو 2 ٹیسٹ میں کھلایا ہی نہیں گیا— تصویر: اے پی
حیرت ہوئی کہ شان مسعود کو 2 ٹیسٹ میں کھلایا ہی نہیں گیا— تصویر: اے پی

میرے خیال میں اس ٹیسٹ سیریز میں جو چیز پاکستان کے لیے سب سے بہتر ثابت ہوئی وہ لیگ اسپنر ابرار احمد کا سامنے آنا تھا۔ یقینی طور پر وہ بہت آگے جائیں گے اور ملک کے لیے بہترین کھیل پیش کریں گے۔ ان کا گیند پر بہترین کنٹرول ہوتا ہے اور وہ گوگلی سمیت کئی طرح سے گیند کرواسکتے ہیں۔ اگر وہ پُرجوش انداز میں کھیلتے رہے تو ان کے ٹیلنٹ کو دیکھنا واقعی متاثر کن ہوگا۔ سعود شکیل اور آغا سلمان نے بھی بہتر کھیل پیش کیا اور تجربے کے ساتھ ساتھ ان میں مزید بہتری آئے گی۔

پاکستان کے مایہ ناز بلے باز اور قومی ٹیم کے کپتان بابر اعظم کا یہاں بہت اہم کردار ہے۔ انہیں سمجھنا ہوگا کہ ٹیم کا انتخاب ذاتی پسند و ناپسند یا پھر لیپ ٹاپ کے اعداد و شمار کی بنیاد پر نہیں کیا جاتا۔ اس کے برعکس کھلاڑیوں کا انتخاب ان کے کھیل کے معیار اور چیلنجز سے نمٹنے کی صلاحیت کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ ٹیم کو مضبوط بنانے کے لیے بابر اعظم کے پاس بہت سے انتخاب ہیں۔ ان میں محمد حسنین، شاہنواز دہانی، سرفراز احمد اور کئی دیگر کھلاڑی شامل ہیں۔

ہمیں یہاں انگلش ٹیم اور پاکستانی ٹیم کے کپتانوں کے ذہن کو بھی پڑھنا ہوگا۔ اگلش کپتان بین اسٹوکس جارحانہ انداز میں کھیلنے پر یقین رکھتے ہیں اور اپنی ٹیم کے لیے کھیلتے ہیں۔ اس کے برعکس بابر انداز دفاعی انداز میں کھیلتے ہیں اور شاید وہ اپنے لیے کھیلتے ہیں۔

چونکہ انگلش ٹیم مضبوط ہے اس وجہ سے اسٹوکس ڈیکلیئریشن جیسے رسک لے لیتے ہیں۔ پاکستان کی بیٹنگ لائن چونکہ کمزور ہے تو اس وجہ سے بابر ٹیم بچانے کے لیے کھیلتے ہیں۔ دونوں کپتانوں میں یہ بنیادی فرق ہے۔ پھر یہاں میں دوبارہ اس بات کا ذکر کروں گا کہ ٹیم ذاتی پسند اور ناپسند پر نہیں چلتی۔

یہی فرق شاید کوچنگ میں بھی ہے۔ انگلش کوچ برینڈن میکولم کا انداز بھی جارحانہ ہے اور کوچ اور کپتان نے مل کر انگلش ٹیسٹ ٹیم کے کھیل کا انداز ہی بدل دیا ہے۔ جبکہ ہمارے کوچ قدرت کے نظام پر ہی ساری ذمہ داری ڈالتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ہمارے کوچ اور کپتان بس اپنی کرسی بچانے کے لیے کھیلتے ہیں۔

26 تاریخ سے نیوزی لینڈ کے ساتھ ٹیسٹ سیریز شروع ہورہی ہے، موجودہ ٹیم کو دیکھتے ہوئے تو یہی لگتا ہے کہ اس سیریز کا نتیجہ بھی بالکل یہی ہوگا اور شاید اس سیریز میں بھی بابر اعظم ہی کپتان ہوں گے۔ ممکن ہے کہ اس سیریز کے بعد بابر کو کپتانی سے ہٹا دیا جائے کیونکہ اس وقت بابر اعظم کی کپتانی پر بہت باتیں ہورہی ہیں۔

میرے خیال میں اس وقت کپتانی کے لیے سب سے اچھا انتخاب شان مسعود ہیں۔ انہوں نے کاؤنٹی کرکٹ میں بھی بہترین کارکردگی دکھائی ہے اور وہ کاؤنٹی کرکٹ میں کئی سنچریاں اور ایک ڈبل سنچری بناچکے ہیں، اور اب یارکشائر کے کپتان بھی ہیں۔

ہر نئی حکومت کے آنے کے ساتھ ہی پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) میں بھی تبدیلیاں آتی ہیں۔ میرے خیال میں اب پی سی بی میں بھی تبدیلیاں آنا بس کچھ ہی دنوں کی بات ہے۔

بہرحال ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ انگلینڈ نے ٹیسٹ کرکٹ کو بھی ایک پُرجوش فارمیٹ بنانے کے لیے بہت عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے اور دیگر ٹیموں کو بھی ایک راستہ دکھایا ہے۔

قمر احمد

قمر احمد بطور صحافی 450 ٹیسٹ میچ کور کر چکے ہیں جو ایک ریکارڈ ہے۔ اس کے علاوہ آپ 740 ون ڈے میچز اور 12 میں سے 9 آئی سی سی ورلڈ کپ کور کرچکے ہیں۔ آپ نے 32 سال تک بی بی سی انگریزی، اردو اور ہندی سروس کے لیے کرکٹ رپورٹنگ کی ہے۔علاوہ ازیں آپ رائٹرز، اے ایف پی، دی ٹائمز، دی ڈیلی ٹیلی گراف لندن اور دی گارجئین جیسے اداروں سمیت وسڈن الماناک دی بائبل آف دی گیم کے لیے بھی رپورٹنگ کرچکے ہیں۔ آپ کی خود نوشت سوانح حیات ’فار مور دین اے گیم‘ کےعنوان سے شائع ہوئی ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (2) بند ہیں

Abdul Basit Khan Dec 21, 2022 12:06am
شان مسعود یارک شائر نہیں بلکہ ڈربی شائر کا کپتان ھے اور وہ بھی صرف ٹی ٹوینٹی بلاسٹ میں
خالد اتمان Dec 22, 2022 10:42am
بابر اعظم بہت اچھے کهڑائ ہے لیکن مڈل آڈر بلے باز کسی کام کے نہی ہیں سب ہے کچرا

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024