• KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm

ایک کیس میں متعدد ایف آئی آر کا اندراج ڈرانے، دھمکانے کے مترادف ہے، عدالت

شائع December 18, 2022
—فائل فوٹو: اے ایف پی
—فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد ہائی کورٹ کا کہنا ہے کہ ایک جرم میں متعدد ایف آئی آر کا اندراج ڈرانے دھمکانے کے مترادف ہے۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق عدالت نے گزشتہ روز سیکریٹری اطلاعات و نشریات شاہرہ شاہد، پاکستان ٹیلی ویژن (پی ٹی وی) کے مینجر ڈائریکٹر سہیل علی خان اور ڈائریکٹر نیوز مرزا راشد بیگ کی جانب سے دائر درخواست پر تفصیلی حکم نامہ جاری کیا۔

لاہور اور پشاور میں انسداد دہشت گردی قانون کے تحت دو مقدمات درج کیے جانے کے بعد درخواست گزاروں نے عدالت سے رجوع کیا تھا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس طارق محمود جہانگیری نے تفصیلی حکم نامے میں کہا کہ اسلام آباد کی حدود سے باہر درج کی گئی ایف آئی آر سپریم کورٹ کے حکم نامے کی خلاف ورزی ہے۔

عدالت عظمیٰ نے ایم ایس ٹی صغراں بی بی اور ریاست کے کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایک جرم کے خلاف صرف ایک ایف آئی آر درج کی جاسکتی ہے۔

جسٹس طارق محمود نے کہا کہ درخواست گزاروں کے ساتھ اسلام آباد کی حدود میں پیش آنے والے مبینہ واقعے کا مقدمہ درج کیا گیا جبکہ لاہور اور پشاور میں درج کی گئی ایف آئی آر سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی ہے۔

انہوں نے کہا ’اختیارات کا غلط استعمال‘ گیا جس کی وجہ سے درخواست گزار ذہنی اذیت کے ساتھ ساتھ ہراسانی کا شکار ہوئے اور اپنی زندگی اور آزادی کے حوالے سے خوف میں مبتلا ہیں۔

عدالت نے نشاندہی کی کہ درخواست گزار اعلیٰ حکومتی افسران ہیں جو اپنی ذمہ داریاں ادا کررہے ہیں جبکہ ایف آئی آر کے مواد اور الزامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ تمام درخواست گزار دہشت گردی کے مرتکب نہیں ہیں۔

جس کے نتیجے میں عدالت نے لاہور اور پشاور میں درج ایف آئی آر کالعدم قرار دے دی اور پولیس کو مذکورہ کیس میں درخواست گزاروں کے خلاف ایف آئی کے اندراج سے روک دیا۔

عدالت نے درخواست گزاروں کے وکیل کو ہدایت کی کہ وہ شکایت کنندگان کو مقدمے میں فریق بنائیں۔

خیال رہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما جاوید لطیف نے پریس کانفرنس کے دوران پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے خلاف مذہبی بنیادوں پر تشویش ناک الزامات عائد کیے تھے جسے پی ٹی وی نے براہ راست نشر کیا تھا اور بعدازاں درخواست گزاروں کے خلاف مقدمات درج کیے گئے تھے۔

19 ستمبر کو لاہور کے گرین ٹاؤن تھانے میں پولیس نے انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کی دفعہ 9- 11 ایکس (3) کے تحت مقدمہ درج کیا تھا۔

دفعہ 9 کے تحت اگر کسی نے نفرت پھیلانے کے جرم میں 5 سال قید کی سزا سنائی جائے گی جبکہ دفعہ 11 ایکس (3) کے تحت مجمع کے دوران خطاب میں مذہبی، فرقہ وارانہ یا نسلی نفرت پر اکسانے کے لیے جرم میں 10 سال تک قید کی سزا سنائی جائے گی۔

شکایت کنندگان نے کہا کہ جاوید لطیف کی پریس کانفرنس وزیراطلاعات مریم اورنگزیب اور درخواست گزار پاکستان ٹیلی ویژن (پی ٹی وی) کے مینجر ڈائریکٹر سہیل علی خان اور ڈائریکٹر نیوز مرزا راشد بیگ کی ملی بھگت سے پی ٹی وی پر نشر کی گئی، دوسری ایف آئی آر پشاور کے ضلع رحمٰن بابا تھانے میں درج کی گئی تھی۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024