ورلڈ کپ فائنل سے باہر ہونے کے باوجود مراکش کی ٹیم ہیرو بن گئی
فٹ بال ورلڈ کپ پر جہاں دنیا بھر کی نظریں ہیں وہیں مراکش کی ٹیم کو بھی خوب سراہا جا رہا ہے اور ٹیم کے کھلاڑیوں کو فائنل کی تاریخی دوڑ میں دفاعی چیمپیئن فرانس سے0-2 کی شکست کے باوجود مراکش کے عوام نے ہیرو قرار دے دیا ہے۔
مراکش کی فٹ بال ٹیم چاہے ورلڈ کپ کے فائنل میں پہنچنے سے رہ گئی ہو لیکن انہیں اپنے عوام کی طرف سے بھرپور حمایت اور محبتیں مل رہی ہیں۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کے مطابق مراکش کے شہریوں اور فٹ بال کے شائقین نے ٹیم کی تاریخی کارکردگی کو سراہتے ہوئے سیمی فائنل میں ہار کو قسمت قرار دیا ہے۔
فٹ بال ورلڈ کپ کے سیمی فائنل مقابلے پر بات کرتے ہوئے کاسا بلانکا کے ایک شہری اسامہ عبدو نے کہا کہ ’ٹیم نے بہت اچھا کھیلا لیکن قسمت ہمارے ساتھ نہیں تھی‘۔
اسامہ عبدو نے کہا کہ پھر بھی ہم دفاعی چمپیئن کے ساتھ کھڑے ہیں جو بہت بڑی بات ہے۔
انہوں نے جذباتی انداز میں کہا کہ ’ورلڈ کپ سے بھی آگے، ٹیم نے ہمارا خواب آخر تک پورا کیا اور صرف اس کارکردگی پر میں نے اپنی ٹوپی ان کے سامنے رکھی‘۔
ایک اور مداح حاکم سلامہ نے فرانس سے0-2 کی شکست کے باوجود اپنی ٹیم کی خوب تعریف کی تاہم کہا کہ ’ہم نے اس صدی کا موقع گنوا دیا‘۔
گزشتہ شام مراکش کے دارالحکومت رباط میں بارش کے بعد جہاں موسم دلفریب ہوگیا تھا وہیں تاریخی فتوحات کا جوش و خروش بھی تھوڑا دور ہوچکا تھا کیونکہ فرانس ورلڈ کپ فائنل تک پہنچ چکا تھا اور ان کی ٹیم مقابلے میں پیچے رہ گئی تھی، اسی لیے اس وقت خاموشی چھائی ہوئی تھی۔
کاسا بلانکا کے درب سلطان ضلع کے تاجر راشد سابق نے میچ سے قبل کہا تھا کہ ’ہماری قومی ٹیم ورلڈ کپ شروع ہونے کے بعد سے معجزے دکھا رہی ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’مسئلہ یہ نہیں کہ وہ جیتیں گے یا ہاریں گے مگر انہوں نے مراکش کے عوام کی طرف سے عزت اور داد وصول کی ہے، جس کی کوئی قیمت نہیں ہے‘۔
تاہم راشد سابق نے اس دن میٹھی اشیا چھوڑ کر مراکش کے جھنڈے فروخت کیے۔
مراکش کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ’میپ‘ کے مطابق شکست کے باجود بھی حکمران شاہ محمد ششم نے مراکش کے لوگوں کی عزت رکھنے پر قومی ٹیم کو بھرپور مبارک پیش کی۔
تاہم بادشاہ شاہ محمد ششم نے فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون کو بھی فون پر مبارک باد پیش کی۔
’فتوحات خوابوں میں شامل ہیں‘
کاسا بلانکا کے قدیم ترین علاقوں میں سے درب سلطان نو آبادیات کے خلاف مزاحمت کا مرکز تھا جہاں شمالی افریقی بادشاہت 1912 سے 1956 تک فرانسیسی زیر اثر تھی۔
نوآبادیاتی حکام کے خلاف مزاحمت کی اسی سرزمین نے مراکش کی سرفہرست ٹیموں میں سے ایک ’راجا دی کاسا بلانکا‘ کو بھی جنم دیا جبکہ یہ جگہ 1970 میں ورلڈ کپ میں گول کرنے والے پہلے مراکشی کھلاڑی لیجنڈ اسٹرائیکر محمد جریر کی جائے پیدائش بھی ہے۔
نوجوان محمد ندیفی نے کہا کہ ’اس محلے میں ہمیں فٹ بال پسند ہے، اس لیے قومی ٹیم کی فتوحات ہمارے خوابوں میں شامل ہیں‘۔
مراکش بھر میں تمام دکانوں میں ٹیم کی حمایت میں بنی جرسیاں اور جھنڈے خریدنے کے لیے عوام کو جم غفیر موجود تھا۔
مقامی تاجر خالد علاوی نے کہا کہ ’قومی ٹیم نے نہ صرف ہمیں خوش کیا ہے بلکہ بہت سے لوگوں کو درپیش سخت معاشی مسائل کے دوران دوبارہ کاروبار شروع کرنے کی قوت بھی بخشی ہے‘۔
’عالمی سطح پر حمایت‘
مراکش کی ٹیم نے سخت محنت سے جہاں اپنے عوام کی حمایت حاصل کی ہے وہیں انہیں پورے براعظم میں بھی سراہا جا رہا ہے۔
آئیوری کوسٹ سے سیدبی زومانا نے کہا کہ مراکش نے پورے براعظم کو قابل فخر بنا دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں تمام تر پیش رفت سے آگاہی رکھتا تھا جیسا کہ مراکش میرا ہی ملک ہو۔
غزہ سے سینیگال تک مراکشی ٹیم کی کامیابی نے اپنے ملک کی اہمیت کو اجاگر کر دیا ہے۔
سید محسن نے میچ کے بعد کہا کہ ’ٹیم نے ثابت کیا کہ ایک افریقی ٹیم اس مقام پر جا سکتی ہے اور مقابلہ کر سکتی ہے‘۔
چند شائقین کو اس لیے بھی مایوسی ہوئی کیونکہ قومی پرواز رائل ایئر ماروک کو قطر میں مداحوں کے لیے اضافی پروازیں منسوخ کرنے پر مجبور کیا گیا۔
تاہم دیگر شائقین جو کہ خلیج تو پہنچے ہوئے تھے مگر وعدے کے مطابق میچ کے لیے ٹکٹ حاصل کرنے سے قاصر رہے انہیں بھی مایوسی سے دوچار ہونا پڑا۔
کئی شائقین نے مراکش فٹ بال فیڈریشن کی انتظامیہ پر الزام عائد کیا ہے کہ انہوں نے اپنے دوستوں اور اہل خانہ کو ٹکٹ جاری کیے اور عام مداحوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔