سفارتی عملے کی تنخواہیں روکنے کا معاملہ: ’ٹرانزیکشنز میں بعض اوقات تاخیر ہوجاتی ہے‘
بیرون ملک پاکستان کے سفارتی عملے کی تنخواہیں روکے جانے کے حوالے سے میڈیا میں زیر گردش افواہوں کی تصدیق یا تردید کیے بغیر ترجمان دفتر خارجہ نے وضاحت دیتے ہوئے کہا ہے کہ بیرون ملک پاکستانی مشنز کو مناسب وسائل کی فراہمی اور ٹرانزیکشنز میں بعض اوقات تاخیر ہوجاتی ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ’بیرون ملک پاکستانی مشنز کو مناسب وسائل فراہم کرنے میں متعدد اقدامات اور ٹرانزیکشنز کا سلسلہ شامل ہوتا ہے جس میں بعض اوقات تاخیر ہوجاتی ہے، وزارت خارجہ اس سلسلے میں وزارت خزانہ اور متعلقہ محکموں کے ساتھ مصروف عمل ہے‘۔
بیان میں کہا گیا کہ ’اس بات کو یقینی بنانا حکومتِ پاکستان کی پالیسی ہے کہ بیرون ملک پاکستانی مشنز کے امور ہموار انداز میں سرانجام دیے جاسکیں، حکومت کے تمام متعلقہ محکمے اس مقصد کے لیے پُرعزم ہیں۔
ترجمان دفتر خارجہ نے مزید کہا کہ پاکستانی سفارت کار اور مشنز بیرون ملک پاکستان کی نمائندگی اور اپنے فرائض خوش اسلوبی سے سرانجام دینے کے لیے پُرعزم ہیں۔
قبل ازیں میڈیا میں یہ افواہیں گردش کررہی تھیں کہ بیرون ملک بیشتر پاکستانی سفارت خانوں میں موجود عملے کو تنخواہوں کی ادائیگی روک دی گئی ہے جس وجہ سے سفارتی عملے کو معمول کے سفارتی اُمور کی انجام دہی اور اخراجات پورے کرنے میں شدید دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
’اردو نیوز‘ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی وزارت خزانہ نے سکوک بانڈز کی ادائیگیوں کے لیے بیرون ملک پاکستانی مشنز کے عملے کی 3 ماہ کی تنخواہیں روک دی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق مختلف ممالک میں پاکستانی سفارت خانے میں موجود عملے نے رابطہ کرنے پر اس بات کی تصدیق کی کہ بیشتر سفارت خانوں میں 3، 3 ماہ کی تنخواہیں ادا نہیں کی گئیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ برطانیہ میں لندن اور مانچسٹر، فرانس، جرمنی، بیلجیئم، برسلز، ترکیہ میں انقرہ اور اسنتبول، اسپین میں میڈرڈ اور عمان میں مسقط سمیت متعدد ممالک میں پاکستانی مشنز کو 3 ماہ سے تنخواہیں ادا نہیں کی گئیں۔
رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ ’وزارت خارجہ سے تنخواہیں بن کر نیشنل بینک اور پھر اسٹیٹ بینک کے ذریعے متعلقہ ممالک پہنچتی ہیں، یہ تنخواہیں ڈالرز کی شکل میں بیرون ملک منتقل ہوتی ہیں، پاکستان میں زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے گر رہے تھے، روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں بھی اضافہ ہو رہا تھا اس وجہ اسٹیٹ بینک نے گزشتہ 3 ماہ سے سفارتی عملے کی تنخواہوں کی مد میں جانے والے کروڑوں ڈالرز اپنے پاس روک رکھے ہیں‘۔
خیال رہے کہ ڈان اخبار کی 9 دسمبر کو شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے پاس موجود زرمبادلہ کے ذخائر 78 کروڑ 40 لاکھ ڈالر کمی کے ساتھ 6 ارب 72 کروڑ ڈالر پر آگئے ہیں جو کہ تقریباً 4 سال کی کم ترین سطح ہے۔
اپریل میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے نئی حکومت کا اولین ایجنڈا زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ رہا ہے، تاہم اسٹیٹ بینک کے ذخائر میں اس وقت سے اب تک تقریباً 4 ارب ڈالر کی کمی آچکی ہے جوکہ اُس وقت 10 ارب 90 کروڑ ڈالر تھے۔
معاشی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ذخائر میں کمی پاکستان کے لیے غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی مزید مشکل بنا سکتی ہے، 6 ارب 70 کروڑ ڈالر سے زائد کے موجودہ ذخائر محض ایک ماہ کی درآمدات کے لیے کافی ہیں۔
پاکستان اب عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی جانب سے ایک اور قسط کے اجرا کی امید کر رہا ہے لیکن مالیاتی خسارے میں اضافے پر آئی ایم ایف کے اعتراض کے سبب بظاہر نویں جائزے کے لیے مذاکرات تاخیر کا شکار ہیں۔
دریں اثنا وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے نجی ٹی وی چینل کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ عالمی مالیاتی فنڈ (ئی ایم ایف) آئندہ تعطیلات کی وجہ سے نویں اور دسویں جائزے کو یکجا کر سکتا ہے اور نویں جائزے کے لیے پاکستان کی کارکردگی مکمل ہے۔
اسحٰق ڈار نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف کی موجودگی میں چین اور سعودی عرب کے وزرائے اعظم سے بات چیت کی جن کی طرف سے مثبت جواب ملاجبکہ سعودی عرب نے کہا کہ مارکیٹ کو اعتماد میں لینے کے لیے وہ مالی تعاون کریں گے، اس حوالے سے سعودی عرب کے وزیر خزانہ کا ایک بیان بھی عالمی سطح پر شائع ہوا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان کے ساتھ مزید مالی تعاون کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ بقایاجات کی 70 فیصد کمٹمنٹ ہو چکی ہے اور بیرونی خسارہ کم کر رہے ہیں کیونکہ گزشتہ برس کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کا تخمینہ 5.8 ارب ڈالر تھا، جسے کم کرکے 2.8 ارب ڈالر پر لائے ہیں، اگر اس رفتار سے چلیں تو وہ 10ارب ڈالر نہیں بلکہ شاید خسارہ 7 سے 8 ارب ڈالر کے قریب ہوگا۔
عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی جانب سے قرض کی اقساط پر بات کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ بحیثیت ملک گزشتہ حکومت کی وجہ سے ہم نے آئی ایم ایف کے سامنے اپنی ساکھ ختم کی، عالمی مالیاتی ادارہ موجودہ سہ ماہی کے بجائے مزید چیزیں مانگ رہا ہے۔