ادبی کانفرنسوں اور کتب میلوں کی گہما گہمی میں سال 2022ء کا اختتام
جس وقت یہ سطریں لکھی جارہی ہیں پاکستان میں ادبی سرگرمیاں عروج پر ہیں۔ یوں تو گزشتہ چند برس سے یہ چلن بن گیا ہے کہ نومبر آتے ہی ادبی میلے ٹھیلے شروع ہوجاتے ہیں، کانفرنسوں کے ڈول ڈال جاتے ہیں اور کتب میلے سج جاتے ہیں، مگر رواں برس اس عمل میں حیران کن تسلسل دکھائی دیا۔
ملتان لٹریری فیسٹیول کے زیرِ اہتمام نومبر کے وسط میں جو 2 روزہ میلا سجا، اس نے خاصی توجہ بٹوری۔ صرف ادیب اور شاعر ہی نہیں، اس کے پُرجوش شرکا بھی سوشل میڈیا کے ذریعے ادب کے عشاق تک اس کی خبریں پہنچاتے رہے۔
اس کے فوری بعد فیصل آباد میں قلم کاروں کا میلہ سج گیا۔ فیصل آباد آرٹس کونسل میں منعقدہ یہ تقریب لٹریری فیسٹیول کی نویں کڑی تھی۔ اب اس سلسلے نے توانا روایت کی شکل اختیار کر لی ہے۔ ادب کی یہ لہر سفر کرتی ہوئی کراچی پہنچی، جہاں چوتھے ادب فیسٹیول کا آغاز ہوچکا تھا۔
کراچی ادبی میلوں کے معاملے میں دیگر شہروں کے لیے سمت نما ہے۔ یہاں باقاعدگی سے اردو کانفرنس اور کراچی لٹریچر فیسٹیول جیسی بڑی سرگرمیاں منعقد ہوتی رہی ہیں۔ ادب فیسٹیول بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اس کی داغ بیل امینہ سید اور مرحوم آصف فرخی نے ڈالی تھی۔ اس سلسلے کا چوتھا فیسٹول 26 تا 27 نومبر فریئر ہال میں سجا۔
اس فیسٹیول کے فوری بعد وہ ایونٹ شروع ہوا، جو نہ صرف شہر کراچی، بلکہ اردو دنیا کی پہچان بن گیا ہے۔ یہ ذکر ہے آرٹس کونسل میں منعقدہ عالمی اردو کانفرنس کا۔ یہ پندرہویں کانفرنس تھی۔ مندوبین کی تعداد اور شرکا کے جوش و خروش کو پیمانہ بنایا جائے تو بھارت میں ہونے والا جشن ریختہ ہی اس کے ہم پلہ ٹھہرتا ہے۔ اس برس یہ کانفرنس یکم دسمبر کو شروع ہوئی اور چار روز جاری رہی۔ اس دوران درجنوں سیشن ہوئے جن میں سیکڑوں مندوبین نے شرکت کی۔ ادب کے ساتھ ساتھ صحافت، سیاست اور فنون لطیفہ کی دیگر اصناف بھی زیر بحث آئیں ساتھ ہی اس کانفرنس میں دیگر زبانوں کی نمائندگی بھی نظر آتی ہے۔
پھر دسمبر کے پہلے ہفتے ہی میں بہاولپور میں فیض ادبی میلہ کے دوسرے سیزن نے جلوے بکھرے۔ ایک بڑے ادیب سے کسی میلے یا کانفرنس کا منسوب کیا جانا یقیناً قابلِ ستائش عمل ہے۔ فیض اور منٹو اردو ادب کے وہ نام ہیں جو پوری توانائی سے 20ویں سے 21ویں صدی میں داخل ہوئے اور جن کے موضوعات آج بھی متعلقہ ہیں۔ جس وقت بہاولپور میں فیض کے نام کی محفل سجی تھی اس وقت کراچی میں وفاقی اردو یونیورسٹی کے زیرِ اہتمام عہد جدید اور اردو ادب کے موضوع پر ایک روزہ کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔
دسمبر میں کراچی کا موسم اس وقت مزید خوشگوار ہوگیا، جب کراچی انٹرنیشنل بک فیئر کا آغاز ہوا۔ یہ کتب میلہ کراچی کی شناخت کا توانا حوالہ ہے جہاں زندگی کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد شرکت کرتے ہیں اور بڑے پیمانے پر کتابیں فروخت ہوتی ہیں۔ ویسے جس تواتر سے کانفرنسیں اور میلے منعقد ہورہے ہیں، اسی تناسب سے کتب میلوں کے انعقاد کی بھی ضرورت ہے۔ بالخصوص سستی کتابوں کی اشاعت اور ان کی تشہیر، جن کا ہدف درسگاہیں اور طلبا ہوں۔
یہاں خیرپور میں نومبر کے وسط میں منعقد ہونے والے کلچرل اور لٹریچر فیسٹول کا ذکر بھی ضروری ہے۔ پھر سب سے اہم تو آکسفورڈ کا کراچی لٹریچر فیسٹول، المعروف کے ایل ایف ہے جو رواں برس مارچ میں منعقد ہوا۔ یہ اس توانا سلسلے کی 13ویں کڑی تھی۔
ملک بھر میں ہونے والے میلوں ٹھیلوں اور کانفرنسوں کو جہاں سراہا جاتا ہے، وہیں ان پر مختلف طبقات کی جانب سے تنقید بھی کی جاتی ہے۔ کبھی یہ شکوہ کیا جاتا ہے کہ چند گنے چنے چہروں کو ہی ان فیسٹیولز میں مدعو کیا جاتا ہے، کہیں موضوعات کے انتخاب پر سوال اٹھایا جاتا ہے اور کبھی یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ ان تقریبات میں مقامی ادیب اور زبانوں کی نمائندگی کم ہوتی ہے۔
گو ان اعتراضات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اور ان کا سدباب مستقبل کی سمت موثر انداز میں پیش قدمی میں معاون ہوسکتا ہے، مگر یہ بھی سچ ہے کہ ملک بھر کے عوام کے لیے یہ تقریبات کسی تحفے سے کم نہیں۔ ان کے وسیلے قارئین ان ممتاز ادیبوں کو سن سکتے ہیں اور مل سکتے ہیں، جنہیں کل تک وہ فقط مطالعے کے وسیلے سے جانتے تھے۔ پھر یہ کانفرنسیں ادیبوں کو بھی یہ اعتماد عطا کرتی ہیں کہ وہ تاحال رائے عامہ کے نمائندے ہیں۔
کچھ تذکرہ کتابوں کا
جہاں اس برس کئی اہم تقریبات منعقد ہوئیں، وہیں کتابوں کی اشاعت میں بھی تیزی آئی اور کئی اہم تخلیقات منظرِ عام پر آئیں۔ اردو کے ممتاز ادیب، مستنصر حسین تارڑ کے پنجابی ناول ’میں بھناں دِلّی دے کِنگرے‘ کی اشاعت کے دو پہلو اہم ہیں، ایک تو یہ انگریز سرکار کے خلاف انقلاب کا نعرہ بلند کرنے والے اساطیری کردار بھگت سنگھ کی زیست کا احاطہ کرتا ہے اور دوسرا یہ کہ ایک جید ادیب نے اپنی مادری زبان کو اظہار کے لیے منتخب کیا۔
مادری زبانوں ہی کے تناظر میں یہاں ہندوستانی ادیبہ گیتانجلی شری کا تذکرہ بھی ہونا چاہیے جن کا ذریعہ اظہار ان کی ماں بولی، یعنی ہندی ہے۔ یوں تو ماضی میں اہم اعزازات ان کے حصے میں آئے مگر 2022ء میں ان کے ناول ’ریت سمادھی‘ کے انگریزی ترجمے کو انٹرنیشنل بکر پرائز سے نوازا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 2022ء ہی کے آخر تک یہ باکمال ناول اردو قالب میں ڈھل کر قارئین تک پہنچ گیا۔ یہ مشکل مرحلہ معروف براڈ کاسٹر، ادیب اور مترجم، انور سن رائے نے بڑی خوبی سے طے کیا۔
معروف صحافی اور خاکہ نگار محمود الحسن کی کتاب ’گزری ہوئی دنیا سے‘ بھی پڑھنے والوں تک پہنچی۔ قوسین سے شائع ہونے والی اس کتاب نے سنجیدہ قارئین کو اپنی سمت متوجہ کیا۔ نشاط یاسمین خان کا افسانوی مجموعہ ’ماں ری‘ بھی اسی برس قارئینِ ادب کے مطالعے میں آیا۔
یہاں کچھ ذکر سب رنگ ڈائجسٹ کا بھی ضروری ہے۔ دیگر ڈائجسٹوں کے مقابلے میں سب رنگ کا معیار اتنا بلند تھا کہ یہ محض ڈائجسٹ نہیں رہا بلکہ ایک ادبی جریدہ بن گیا۔ اس کی بنیادی وجہ اس کے مدیر شکیل عادل زادہ تھے۔ قارئین کی خواہش تھی کہ شکیل عادل زادہ اپنے مشہور زمانہ ناول ’بازی گر‘ کو مکمل کریں۔ اس بابت تو فی الحال خاموشی ہے البتہ چند برس قبل سب رنگ میں شائع ہونے والی عالمی ادب کی کہانیوں کے انتخاب کا کتابی صورت میں اشاعت کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا، وہ 6 مرحلے طے کرچکا ہے۔ رواں برس ’سب رنگ کہانیاں‘ کی چھٹی کتاب شائع ہوئی، جسے ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔
معروف فکشن نگار اور نقاد محمد حمید شاہد کے منفرد ناول ’مٹی آدم کھاتی ہے‘ کو بھی 2022ء میں دوبارہ شائع کیا گیا۔ ناقدین اور قارئین اسے اسلوب اور ہیئت کا منفرد تجربہ قرار دیتے ہیں۔ ایسا ہی تجربہ ارشد رضوی کی کتاب ’زرد موسم کی یادداشت‘ میں بھی نظر آیا، جسے ایک علامتی خودنوشت کے طور پر پیش کیا گیا۔ معروف فکشن نگار طاہرہ اقبال کے نمائندہ ناول ’نیلی بار‘ کے تیسرے ایڈیشن کے اشاعت کی خبر بھی اہم رہی۔
کسی زمانے میں اردو زبان میں افسانوں کا پلڑا بھاری تھا البتہ گزشتہ چند برسوں میں تواتر سے ناول لکھے جارہے ہیں۔ اس برس بھی کئی اہم لکھاریوں نے ناول کی صورت اپنی تخلیقات کا اظہار کیا۔ ’غلام باغ‘ جیسے یادگار ناول کے خالق مرزا اطہر بیگ اپنے چوتھے ناول ’خفیف مخفی کی خواب بیتی‘ کی صورت ہمارے سامنے آئے۔ ہندوستان سے تعلق رکھنے والے فکشن نگار اور نقاد رحمٰن عباس کے ضخیم ناول ’زندیق‘ نے ہندوستان کے ساتھ ساتھ پاکستانی قارئین کو بھی متوجہ کیا۔ معروف فکشن نگار سیمیں کرن کا ناول ’اک معدوم محبت‘ بھی اسی برس شائع ہوا۔
اس فہرست میں محمد وسیم شاہد بھی شامل ہیں، جو اپنے تیسرے ناول ’اک چاند دیر و حرم‘ کے ذریعے قاری سے مخاطب ہوئے۔ سینیئر فکشن نگار محمد حفیظ خان کا ناول ’حیدر گوٹھ کا بخشن‘ ہم تک پہنچا۔ اصغر ندیم سید کا ناول ’دشتِ امکاں‘ گو گزشتہ برس شائع ہوا تھا مگر اس کی بازگشت ہمیں اس برس بھی سنائی دیتی رہی۔ یہی ایک اہم تخلیق کی پہچان ہوتی ہے۔ ڈاکٹر حنا جمشید کا ’ہری یوپیا‘ بھی قارئین کے درمیان زیرِ بحث آیا۔ افسانوی مجموعوں کی فہرست میں ایک اہم نام عرفان جاوید کا ہے جو اپنے اوّلین افسانوی مجموعے ’کافی ہاؤس‘ کے نئے ترمیم شدہ ایڈیشن کے ساتھ سامنے آئے۔ یہ کتاب سنگ میل سے شائع کی گئی۔
یہ رواں برس منعقدہ اہم تقریبات اور کتابوں کا ایک مختصر جائزہ ہے، بلاشبہ یہ مکمل نہیں۔ اس موضوع کے مکمل احاطہ کے لیے الگ دفتر درکار ہے مگر اس سے پڑھنے والے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ رواں برس اردو ادب کے میدان میں کتنی گہماگہمی رہی۔
اس گہماگہمی کا مستقبل میں کیا نتیجہ نکلے گا، یہ جاننے کے لیے ہمیں تھوڑا انتظار کرنا ہوگا۔
لکھاری مضمون نگار، استاد، قاری اور فلم بین ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔