چھوٹی چھوٹی، چمکتی آنکھیں کبھی بند اور کبھی کھلتیں، ننھا سا جسم کپڑے میں لپٹا جب میرے ہاتھوں میں آیا تو یقین جانیے ایسا لگا کہ پوری دنیا میری گود میں سما گئی ہے، خوشی سے نہال اور آنکھیں اشک بار تھیں، جب میں بیٹی کا باپ بنا۔
بیٹی کی پیدائش سے چار سال قبل خدا نے بیٹا عطا کیا مگر جب اس نوعیت کے احساسات، خوشی اور سرشاری نہ تھی۔ قدرت نے واقعی بیٹیوں کے لیے الگ ہی محبت رکھی ہے۔ ان کی موجودگی قدرت کا انعام اور زندگی کا مظہر ہے اور ان ہی کے دم سے ہی ہمارے آنگن پُررونق ہیں۔
مگر۔۔۔! جب انہی آنگنوں میں خون میں لت پت بیٹیوں کے لاشے پڑے ہوں، تو دل کیا روح بھی لرز جاتی ہے۔
کراچی کے علاقے شمسی سوسائٹی میں گزشتہ دنوں ایسا ہی کربناک واقعہ دیکھنے میں آیا، جہاں ایک باپ نے اپنی تین بیٹیوں اور بیوی کو ذبح کرکے خود کو بھی مارنے کی کوشش کی جو ناکام ہوئی۔ پولیس کے مطابق سب سے بڑی بیٹی 16 سال، پھر 12 اور تیسری صاحبزادی 10 سال کی تھی۔
یہ قاتل باپ ناخواندہ یا کسم پرسی کا شکار نہیں تھا بلکہ اچھی ملازمت کررہا تھا اور اس کے پاس بہترین گاڑیاں بھی تھیں جبکہ بیٹیاں بہتر تعلیمی اداروں میں زیرِ تعلیم تھیں۔
پولیس کے مطابق فواد سیلز منیجر تھا اور اس نے کسی کاروبار میں چند شراکت داروں کے ساتھ سرمایہ کاری کر رکھی تھی، جہاں چند ماہ سے کاروبار اچھا نہ چلنے کی وجہ سے وہ شراکت داروں کو منافع کی ادائیگی نہیں کرپا رہا تھا۔
اہلِ محلہ اور قریبی دوست کے مطابق فواد انتہائی ملنسار، بااخلاق اور بیٹیوں سے انتہائی شفقت و محبت کرنے والا باپ تھا۔ پولیس نے بتایا ہے کہ فواد کے پاس سے موبائل برآمد ہوا جس میں لکھے پیغام کے مطابق اس نے یہ انتہائی اقدام کی وجہ سرمایہ کاروں کی جانب سے مسلسل تنگ کرنے، گھر پر چکر لگانے اور بیوی سے جھگڑے کو قرار دیا۔
فواد زیرِ علاج ہے اور صحت یابی کے بعد اس کا باقاعدہ بیان قلم بند کیا جائے گا اور قانون کے مطابق کیس کی کارروائی آگے بڑھے گی۔
مگر سوال اپنی جگہ کھڑا ہے کہ ایک تعلیم یافتہ، صاحبِ ثروت شخص نے محض چند ماہ کے کاروباری گھاٹے اور پریشانی کی وجہ سے کیسے اس بھیانک عمل پر خود کو آمادہ کرلیا؟ ہم اس افسوسناک واقعے سے کیا سبق حاصل کرسکتے ہیں؟ اس نوعیت کے واقعات سے محفوظ رہنے اور دوسروں کو ان سے بچانے کے لیے کیا کیا جاسکتا ہے؟
خود کشی اور قتل جیسا انتہائی قدم اٹھانے کی نوبت کیوں آتی ہے؟
جس طرح ہمیں بخار، کھانسی نزلہ ہو تو ڈاکٹر سے رجوع کرتے ہیں بلکہ اسی طرح دیگر بیماریوں کی طرح دماغی یا نفسیاتی عوارض کے حل کے لیے ہمیں ماہرِ نفسیات سے رابطہ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
بحریہ یونیورسٹی کراچی کے انسٹیٹیوٹ آف پروفیشنل سائیکولوجی ڈپارٹمنٹ کی سربراہ کرن بشیر احمد کا کہنا تھا کہ ’یہ انتہائی افسوسناک پہلو ہے کہ ہمارے ہاں دماغی یا نفسیاتی مسائل کے شکار فرد کو پاگل کا لیبل لگادیا جاتا ہے اور اسی سوچ کی وجہ سے معاشرے میں ایسے افراد جنہیں نفسیاتی بیماریاں لاحق ہوتی ہیں وہ اپنا علاج کرانے سے کتراتے ہیں‘۔
انہوں نے بتایا کہ ’ہمارے ہاں نفسیاتی بیماریوں کے حوالے سے معاشرے کے عمومی رویے اور برتاؤ کی وجہ سے اکثر لوگ دماغی امراض کو باقاعدہ بیماری ہی تصور نہیں کرتے ہیں کیونکہ ان کے ذہنوں میں یہ بات پنپ چکی ہوتی ہے کہ اگر وہ ان عوارض کے بارے میں لوگوں سے بات کریں گے یا اس کے علاج کی سعی کریں گے تو انہیں پاگل، خبطی، دیوانہ وغیرہ کے القابات سے نواز دیا جائے گا اور اسی وجہ سے ایسے افراد خود سے جنگ لڑتے رہتے ہیں، اور نفسیاتی پیچیدگیوں کا باقاعدہ شکار ہوکر انتہائی قدم اٹھالیتے ہیں‘۔
کرن احمد نے بتایا کہ ’بدقسمتی سے عمومی طور پر ہمارے معاشرے کی بے حسی کی وجہ سے کسی بھی پریشانی کا شکار فرد مزید الجھتا چلا جاتا ہے، خواہ کسی کو مالی مسائل کا سامنا ہو، جسمانی بیماری کا شکار ہو یا کوئی خانگی تنازعات ہوں، ان تمام مسائل کو حل کرنے میں دیر یا ناکامی کی صورت میں انسان ڈپریشن میں چلا جاتا ہے اور اس صورتحال میں جب اسے کوئی سہارا نہیں دیتا، اس کی اخلاقی مدد نہیں کی جاتی تو وہ مسائل سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے خودکشی، اپنے پیاروں کا قتل یا کوئی بھی انتہائی قدم اٹھالیتا ہے‘۔
معاشرے کا رویہ کیسا ہونا چاہیے؟
آپ کے گھر کا کوئی فرد کسی جسمانی بیماری کا شکار ہو تو آپ اس کا علاج و معالجہ کرتے ہیں، اسے درپیش بیماری کے ماہر افراد کے پاس لے کر جاتے ہیں اور اس کو تسلی دیتے ہیں کہ وہ جلد شفایاب ہوجائے گا۔ بالکل یہ رویہ دماغی و نفسیاتی عوارض میں بھی اختیار کرنا چاہیے۔
کرن بشیر کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ ’بعض اوقات بلکہ بیشتر کیسز میں نفسیاتی مسائل کا شکار فرد یہ بات محسوس نہیں کرپاتا کہ وہ واقعی دماغی امراض کا شکار ہوگیا ہے، ایسی صورتحال میں اس کے اردگرد رہنے والوں کا کردار انتہائی اہم ہوتا ہے۔ انہیں اپنے گھر کے اس فرد پر مسلسل نظر رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے، اس کے مزاج، طبعیت میں آنے والے اتار چڑھاؤ پر اس سے انتہائی تحمل کے ساتھ پُرسکون ماحول میں بات کرنی چاہیے اور کوشش کرنی چاہیے کہ اس کو زیادہ سے زیادہ بولنے کا موقع دیا جائے۔ اس کے غیر معمولی رویے پر اس سے چڑنے، اس پر غصہ کرنے کے بجائے اس فرد سے مسئلہ دریافت کیا جائے اور اس کے حل کے لیے کوشش کی جائے‘۔
وہ مزید کہتی ہیں کہ ’دماغی عوارض کا شکار فرد بہت زیادہ توجہ کا طلبگار ہوتا ہے، اسے جھڑکنے یا اس کا مذاق اڑانے کی صورت میں اس کی پریشانی میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔ ایسے فرد کو بار بار یہ احساس دلانے کی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ اکیلا نہیں ہے، جو بھی مسئلہ ہے وہ بہت جلد حل ہوجائے گا۔ اس کے سامنے کسی بھی قسم کی منفی یا مایوسی کی باتوں سے مکمل اجتناب کیا جانا چاہیے‘۔
ماہرینِ نفسیات کے مطابق ڈپریشن، بے چینی یا کسی نفسیاتی عارضے کا شکار لوگوں کی جانب سے انتہائی قدم اٹھانے کی وجوہات میں ایک اہم وجہ ان کے ساتھ برتا جانے والا غیر انسانی اور غیر ہمدردانہ سلوک ہے۔
ماہر نفسیات سے کب رجوع کرنا چاہیے؟
اب سوال یہ ہے کہ وہ کون سی علامات، رویے یا مزاج میں تبدیلیاں ہیں جن کے رونما ہونے پر انسان کو ماہرِ نفسیات سے فوری رجوع کرنے کی ضرورت ہوتی ہے؟
ذہنی صحت کے ماہرین کے مطابق کسی فرد کو اپنے رویے اور کچھ جسمانی تبدیلیوں کے رونما ہونے پر ماہرِ نفسیات سے رابطہ کرنا چاہیے، ان کی تفصیلات کچھ یوں ہیں:
آپ جس مسئلے کا شکار ہیں خواہ وہ مسئلہ مالی نوعیت کا ہو، ذاتی قسم کا ہو، دفتری معاملہ ہو یا کوئی جسمانی بیماری ہو اور اگر آپ کو اس کا خیال مستقل ستا رہا ہے، آپ ہر وقت بس اسی سے متعلق سوچ رہے ہیں، کسی کام میں یکسوئی نہیں، تو آپ کو ماہرِ نفسیات کے پاس جانا چاہیے۔
ایسے وہ تمام مشاغل، تعلقات یا امور جن سے آپ کو دلچسپی ہو اور اچانک ان سے بیزاری ہونا شروع ہوجائے، الگ تھلگ رہنا کسی سے بات نہ کرنا، اہلِ خانہ کے درمیان بیٹھنے سے اجتناب کرنے لگنا، یاسیت کا شکار رہنا، یہ وہ علامات ہیں جن پر ذہنی صحت کے ماہر سے بات کرنے کی فوری ضرورت ہے۔
آپ اپنی کسی قیمتی چیز کو کھو دینے کے خوف میں مبتلا ہوجائیں، آپ کو یہ اندیشہ ستانے لگے کہ وہ چیز آپ سے اچانک دُور ہوجائے گی، یا چھین لی جائے گی۔ اس صورتحال میں اب آپ کو ماہرِ نفسیات سے رجوع کرنے میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔
ایسے افراد جنہیں رات کو بے چینی، نیند میں مشکلات کا سامنا ہو، وہ مکمل طور پر سکون سے نیند پوری نہیں کرپارہے ہوں تو انہیں بھی ذہنی صحت پر فوری دھیان دینے کی ضرورت ہے۔
ماہرینِ نفسیات کے مطابق بعض اوقات کچھ افراد کو حال ہی میں پیش آنے والے کسی واقعے یا منظر کی وجہ سے اچانک اپنے ماضی کا کوئی حادثہ، تکلیف یا محرومی یاد آنے لگتی ہے اور یہ کیفیت مسلسل بڑھتی چلی جاتی ہے، اس حالت میں ایسے فرد کو دماغی امراض کے ماہر سے رابطہ کرنا چاہیے۔
ماہر نفسیات کرن بشیر احمد ذہنی صحت کے مسائل کا ذمہ دار ریاستی رویے کو بھی سمجھتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’بدقسمتی سے پاکستان میں دیگر بیماریوں کی طرح دماغی و نفسیاتی امراض کو بھی سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا۔ سرکاری ہسپتالوں میں دماغی صحت سے متعلق فعال شعبے موجود نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ اس حوالے سے سرکاری سطح پر کوئی باقاعدہ پروگرام، سیمینارز وغیرہ کا انعقاد بھی نہیں کرایا جاتا‘۔
کرن بشیر کہتی ہیں کہ ’صحت مند معاشرے کے لیے ضروری ہے کہ اس افراد کے اذہان بھی تندرست و توانا ہوں اور اس کے لیے باقاعدہ ریاستی سطح پر کام کرنے کی ضرورت ہے اور اس کا آغاز ہمیں اسکولوں سے کرنا چاہیے۔ پرائمری سطح سے ہی اسکولوں میں اسکلز ڈیولپمنٹ کا ایک باقاعدہ شعبہ بنانے کی ضرورت ہے، جس میں بچوں کو یہ آگاہی دی جائے کہ انہیں امتحان میں ناکام ہونے کی صورت میں کیا کرنا چاہیے۔ اگر وہ کھیل کے میدان میں کامیاب ہوجائیں تو شکست خوردہ فرد یا ٹیم سے کیسا برتاؤ رکھنے کی ضرورت ہے، خوشی کو کس طرح منایا جائے اور پریشانی و غم میں کیسا رویہ اختیار کیا جائے‘۔
ان کے مطابق ہم اسکول کی سطح سے جب اپنے بچوں کو دماغی صحت سے متعلق آگاہ کرنا شروع کریں گے تو اس کا ثمر ایک صحت مند معاشرے کی صورت میں سامنے آسکے گا۔ ایسا معاشرہ جس میں برداشت، ایک دوسرے کی رائے کا احترام، باہمی ہمدردی کے جذبات اور بے لوث تعلقات استور ہوں گے۔