کراچی: کمیٹی ڈالنے والے شہریوں سے 42 کروڑ روپے کا فراڈ
کراچی کی ایک کاروباری خاتون نے ماہانہ کمیٹی کے سلسلے میں سیکڑوں شہریوں بالخصوص خواتین سے 42 کروڑ روپے کا فراڈ کردیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سوشل میڈیا پر اثر انداز کراچی کی خاتون سیکڑوں شہریوں سے کمیٹی ڈالنے کے لیے ماہانہ رقم وصول کرتی تھیں جس کا کوئی تحریری ریکارڈ محفوظ نہیں تھا اور یوں تمام لوگوں سے 42 کروڑ روپے کا فراڈ کر کے اسکیم ختم کرنے کا اعلان کردیا۔
ہوم بیسڈ فوڈ بزنس ’ڈیلی بائٹس‘ اور ہینڈی کرافٹ اسٹارٹ اَپ ’کروز‘ کی مالک سدرہ حُمید نے مبینہ طور پر سوشل میڈیا پر یہ اعلان کر کے اپنے سیکڑوں ڈپازٹرز کو دھوکا دیا کہ ان کے پاس 200 کے قریب اپنی کمیٹیوں کی ادائیگی کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔
گزشتہ کئی دنوں سے سوشل میڈیا پر اسکیم کے متاثرین کی کہانیاں گردش کر رہی تھیں جہاں متعدد لوگوں نے اسے ’پونزی اسکیم‘ قرار دیا جبکہ متاثرین نے ایک دوسرے سے رابطہ کرکے خاتون کے خلاف کارروائی کے لیے ایک واٹس ایپ گروپس بھی بنائے۔
تاہم متاثرین نے معاملہ خود حل کرنے کی کوشش میں پولیس اور وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) سے رابطہ نہیں کیا۔
ادھر سدرہ حُمید نے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ شیئر کرتے ہوئے متاثرین سے درخواست کی کہ ’بے چین مت ہوں آپ کی رقم چند ماہ میں واپس کی جائے گی۔‘
ایک متاثر شہری نے ڈان کو بتایا کہ خاتون نے 15 سے 20 کروڑ روپے کا فراڈ کیا ہے۔
ایک لاکھ 50 ہزار روپے کا نقصان کرنے والی ایک خاتون ثنا عدنان نے کہا کہ زیادہ تر لوگ سدرہ حمید کو گزشتہ 7 سے 10 سالوں سے جانتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میں دو کمیٹیوں میں شامل ہوئی اور ایک کمیٹی میں 50 ہزار روپے ماہانہ ادا کر رہی تھی جبکہ 20 ماہ کی کمیٹی میں 25 ہزار روپے ادا کر رہی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ روایتی طور پر ہر ماہ کمیٹی کے ایک رکن کو کل رقم ادا کی جاتی ہے، لیکن ہمیں پتا چلا کہ ہر ماہ کوئی نہ کوئی انجان رکن یا اس کے خاندان کے کسی فرد کو کُل رقم ادا کی جاتی تھی جبکہ ہم تمام اراکین ماہانہ کمیٹی میں کئی ماہ سے رقم دیتے آرہے تھے اور پتا چلا کہ ساری رقم دراصل خود سدرہ کو جارہی تھی۔
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک اور متاثرہ شخص نے کہا کہ گزشتہ چند ماہ سے سدرہ حُمید سوشل میڈیا پر اپنی مہنگی اشیا بشمول گھڑیاں، موبائل فون کی تصاویر لگا رہی تھیں اور اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ رقم کہاں جا رہی تھی، کیونکہ ان کا خاوند ایک فری لانسر ہے اور سدرہ کھانے کی اشیا فروخت کرکے اتنی رقم نہیں بنا سکتی۔
ایک اور شہری نے بتایا کہ ان کے 9 لاکھ 70 ہزار روپے چلے گئے ہیں کیونکہ جنوری میں کمیٹی کے بارے میں جاننے کے بعد وہ 5 لاکھ کی اسکیم کے لیے ماہانہ 50 ہزار روپے کمیٹی میں رکھتے تھے۔
متاثرہ شہری نے بتایا کہ انہوں نے 8 لاکھ کی ایک کاروباری کمیٹی بھی رکھی تھی جس کے لیے وہ ماہانہ 80 ہزار روپے کمیٹی میں جمع کراتے تھے لیکن رقم واپس نہیں ہوئی۔
شہری نے کہا کہ جب انہوں نے سدرہ کے والد سے بات کی تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم صرف وہ رقم ادا کریں گے جو سدرہ کے اکاؤنٹ میں منتقل کی گئی ہے مگر بات یہ ہے کہ رقم ایک ایسے شخص کے اکاؤنٹ میں براہ راست منتقل کی گئی ہے جس نے سدرہ کے کہنے پر اس مخصوص مہینے میں کمیٹی میں حصہ لیا تھا۔
تاہم ڈان نے مؤقف کے لیے سدرہ حُمید سے رابطہ کیا مگر نہ تو انہوں نے فون پر بات کی اور نہ ہی میسج کا جواب دیا۔
تبصرے (1) بند ہیں