لاہور ہائیکورٹ: عمران خان کی سائفر آڈیو لیک معاملے پر طلبی کے خلاف درخواست سماعت کیلئے مقرر
لاہور ہائی کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے سائفر آڈیولیک معاملے پر تحقیقات کے سلسلے میں وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے) میں طلبی کے خلاف دائر درخواست سماعت کے لیے مقرر کردی۔
سابق وزیراعظم عمران خان نے بیرسٹر سلمان صفدر کی وساطت سے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی، جس کو رجسٹرار آفس نے سماعت کے لیے مقرر کر دیا۔
لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس اسجد جاوید گھرال 6 دسمبر کو عمران خان کی درخواست پر سماعت کریں گے۔
چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے درخواست میں وفاقی حکومت، ایف آئی اے اور تفتیشی افسر کو فریق بنایا ہے۔
درخواست میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ عمران خان ایک ایمان دار، باعزت شہری اور ملک کی نامور شخصیت ہیں۔
کہا گیا ہے کہ عمران خان کا ملکی سیاست کو نئے دھارے میں لانے میں اہم کردار ہے، عمران خان کی بڑھتی ہوئی شہرت سیاسی طاقتوں کے خلاف ایک خطرہ بن چکی ہے۔
لاہور ہائی کورٹ میں دائر درخواست میں کہا گیا ہے کہ بطور وزیراعظم عمران خان نے امریکا کو افغانستان سے نکلنے میں کامیاب کردار ادا کیا۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ ایف آئی اے نے سائفر پیغام کے معاملے پر انکوائری شروع کر رکھی ہے اور اس معاملے پر بیان قلم بند کروانے کے لیے 6 دسمبر کو طلب کر رکھا ہے۔
عمران خان نے موقف اپنایا ہے کہ سائفر انکوائری کو پہلے ہی سپریم کورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے لیکن سیاسی انتقام کا نشانہ بنانے کے لیے بے بنیاد انکوائری میں طلب کیا گیا ہے۔
بیرسٹر صفدر کی توسط سے دائر درخواست میں عدالت سے کہا گیا ہے کہ وزیر آباد میں عمران خان پر قاتلانہ حملہ بھی اسی سیاسی انتقام کا شاخسانہ ہے۔
ایف آئی اے میں طلبی کو سیاسی انتقام قرار دیتے ہوئے عدالت سے درخواست کی گئی ہے کہ طلبی کے نوٹس میں کسی قانون کی پاسداری نہیں کی گئی ہے لہٰذا سائفر آڈیو لیک اسکینڈل کی انکوائری غیر قانونی قرار دے کر کالعدم کیا جائے۔
عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ درخواست کے حتمی فیصلے تک سائفر آڈیو لیک اسکینڈل انکوائری روک دی جائے۔
یاد رہے کہ وفاقی حکومت نے سائفر آڈیو لیکس کے معاملے پر اکتوبر میں سابق وزیر اعظم عمران خان، ان کے ساتھی سابق وزرا اور سابق پرنسپل سیکریٹری اعظم خان کے خلاف سقانونی کارروائی کی باضابطہ منظوری دیتے ہوئے تحقیقات کے لیے ایف آئی اے کی انکوائری ٹیم تشکیل دی تھی۔
بعدازاں تحقیقاتی ٹیم نے عمران خان اور شاہ محمود قریشی سمیت دیگر کو بیان دینے کے لیے طلب کرلیا تھا۔
آڈیو لیکس
خیال رہے کہ 28 ستمبر کو لیک ہونے والی پہلی آڈیو میں مبینہ طور پر سابق وزیراعظم عمران خان اپنے سابق پرنسپل سیکریٹری اعظم خان سے بات کرتے سنے گئے، جس کی ابتدا میں مبینہ طور پر عمران خان نے کہا کہ ’ہم نے بس صرف کھیلنا ہے اس کے اوپر، نام نہیں لینا امریکا کا، صرف کھیلنا ہے کہ یہ تاریخ پہلے سے تھی اس کے اوپر‘۔
گفتگو میں مبینہ طور پر اعظم خان نے کہا کہ ’میں سوچ رہا تھا کہ یہ جو سائفر ہے میرا خیال ہے ایک میٹنگ اس پر کر لیتے ہیں، جس میں شاہ محمود قریشی اور سیکریٹری خارجہ ہوں گے، شاہ محمود کو کہیں گے کہ وہ لیٹر پڑھ کر سنائیں، وہ جو بھی پڑھ کر سنائیں گے اسے کاپی میں بدل دیں گے، وہ میں منٹس میں (تبدیل) کردوں گا کہ سیکریٹری خارجہ نے یہ چیز بنادی ہے۔‘
آڈیو میں مبینہ طور پر اعظم خان نے مزید کہا کہ ’بس اس کا کام یہ ہوگا کہ اس کا تجزیہ ہوگا جو اپنی مرضی کے منٹس میں کردیں گے تاکہ دفتری ریکارڈ میں آجائے اور تجزیہ یہی ہوگا کہ سفارتی روایات کے خلاف دھمکی دی گئی، سفارتی زبان میں اسے دھمکی کہتے ہیں۔‘
اس پر عمران خان کو یہ پوچھتے سنا جاسکتا ہے کہ ’تو پھر کس کس کو بلائیں اس میں، شاہ محمود قریشی، آپ (اعظم خان) اور سہیل (سیکریٹری خارجہ)، ٹھیک ہے تو پھر کل ہی کرتے ہیں۔‘
جس کے بعد دوسری آڈیو لیک میں مبینہ طور پر عمران خان پارٹی رہنماؤں اسد عمر، شاہ محمود قریشی اور سابق پرنسپل سیکریٹری اعظم عمران خان سے گفتگو کرتے سنائی دیے۔
آڈیو میں عمران خان کہتے ہیں کہ ’اچھا شاہ جی، کل آپ نے، ہم نے، تینوں نے اور سیکریٹری خارجہ نے میٹنگ کرنی ہے، اس میں ہم نے صرف کہنا ہے کہ وہ جو لیٹر ہے نا اس کے چپ کر کے مرضی کے منٹس لکھ دے، اعظم خان کہہ رہا ہے کہ اس کے منٹس بنا لیتے ہیں، اسے فوٹو اسٹیٹ کرا لیتے ہیں‘۔
عمران خان کہتے ہیں کہ ’ہم نے تو امریکیوں کا نام لینا ہی نہیں ہے، کسی صورت میں، اس ایشو کے اوپر پلیز کسی کے منہ سے امریکا کا نام نہ نکلے، یہ بہت اہم ہے آپ سب کے لیے، کس ملک سے لیٹر آیا ہے، میں کسی کے منہ سے اس کا نام نہیں سننا چاہتا‘۔
اس دوران مبینہ طور پر اسد عمر کہتے ہیں کہ ’لیٹر نہیں ہے، میٹنگ کی ٹرانسکرپٹ ہے‘، اس پر عمران خان کہتے ہیں کہ ’وہی ہے نا، میٹنگ کی ٹرانسکپرٹ اور لیٹر ایک ہی چیز ہے، لوگوں کو ٹرانسکرپٹ تو نہیں سمجھ آنی تھی نا، آپ پبلک جلسے میں تو یہ کہتے ہیں‘۔