• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

جنرل قمر باجوہ کے ہنگامہ خیز 6 سالہ دور کا خاتمہ، کیا ’باجوہ ڈاکٹرائن‘ جاری رہے گا؟

شائع November 29, 2022
نواز شریف نے نومبر 2016 میں جنرل قمر جاوید باجوہ کو آرمی چیف مقرر کیا تھا — فوٹو: اے ایف پی
نواز شریف نے نومبر 2016 میں جنرل قمر جاوید باجوہ کو آرمی چیف مقرر کیا تھا — فوٹو: اے ایف پی

ملکی تاریخ کے 16 ویں سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ آج پاکستان آرمی جو تقریباً 5 لاکھ فعال جوانوں پر مشتمل دنیا کی بڑی افواج میں سے ایک ہے کے سربراہ کے طور پر اپنی ہنگامہ خیز، انتہائی اہم واقعات سے بھرپور اور متحرک 2 مدتیں مکمل کرنے کے بعد سبکدوش ہوگئے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق نومبر 2016 میں جب جنرل قمر جاوید باجوہ کو آرمی چیف مقرر کیا گیا تو اس وقت پاکستان اپنے شمال مغرب میں دہشت گردی کی لہر سے نبرد آزما تھا، اسے روایتی حریف بھارت کے ساتھ کشیدہ تعلقات کا سامنا تھا اور دیرینہ اتحادی امریکا کے ساتھ اپنے تعلقات کی بدلتی صورتحال کو سمجھنے کی کوششوں میں مصروف تھا جہاں غیر مستقل مزاج شخصیت کے مالک ڈونلڈ ٹرمپ صدر کا عہدہ سنبھالنے والے تھے۔

اپنے پیش رو جنرل راحیل شریف جن کا امیج اور تشخص فوج کے میڈیا ونگ نے منظم طریقے سے ایسے شخص کے طور پر اجاگر کیا جو ہر محاذ پر آگے بڑھ کر قیادت کرتا تھا، کی جگہ لینا بھی جنرل قمر جاوید باجوہ کے لیے ایک طرح کا چیلنج ہی تھا، جنرل قمر باجودہ 1990 کے بعد سے اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کی جانب سے منتخب ہونے والے ساتویں آرمی چیف تھے۔

جنرل قمر جاوید باجوہ کو اپنے پیش رو سے 2 بڑے معاملات ورثے میں ملے جن سے انہیں فوری طور پر نمٹنا تھا، ان میں سے ایک معاملہ سیاسی نوعیت کا اور دوسرا سول ملٹری مسائل سے متعلق تھا، سیاسی معاملہ سپریم کورٹ میں نواز شریف اور ان کے خاندان کے خلاف پاناما پیپرز کے الزامات تھے اور سول ملٹری مسائل ملک کی انسداد دہشت گردی کی حکمت عملی پر فوجی اور سیاسی قیادت کی متصادم سوچ سے متعلق تھا، یہ معاملہ ڈان کی جانب سے رپورٹ کی گئی ایک خصوصی خبر جو ’ڈان لیکس‘ کے نام سے مشہور ہوئی، کے بعد ملک بھر میں عوامی سطح پر گرما گرم موضوع بحث بن گیا۔

جنرل قمر جاوید باجوہ نے عوامی سطح پر اپنی شخصیت کے اظہار کے لیے کچھ وقت لیا، عہدہ سنبھالنے کے ابتدائی چند مہینوں میں انہوں نے کمانڈ اور اسٹاف دونوں سطح کے عہدوں پر اہم افسران کی ترقیوں اور تبادلوں کے ذریعے اپنی کمان اور گرفت کو مستحکم کرنے پر توجہ مرکوز کی، دسمبر میں پاک فوج میں اہم افسران کے تقرر و تبادلے ہوئے جن میں ڈی جی آئی ایس آئی، ڈی جی آئی ایس پی آر اور جنرل راحیل شریف کے دور کے تعینات سی جی ایس کی جگہ اہم کور کمانڈرز اور اسٹاف افسران کو تعینات کیا گیا۔

میجر جنرل کے عہدے سے لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر ترقیاں جنرل قمر جاوید باجوہ نے فوج کی نئی قیادت سنبھالنے کے فوری بعد کیں، ترقی پانے والوں کو اہم عہدے دیے گئے، اسی دورن 2 اسٹار جنرلز کے لیول پر انہوں نے بطور نئے ڈی جی ایم او (میجر جنرل ساحر شمشاد مرزا)، بطور ڈی جی ایم آئی (میجر جنرل عاصم منیر)، بطور ڈی جی آئی ایس پی آر (میجر جنرل آصف غفور) اور انتہائی اہم پوزیشن پر بطور ڈی جی آئی ایس آئی (میجر جنرل فیض حمید) کو تعینات کیا، ان کی جانب سے یہ تعیناتیاں اس تناظر میں کی گئیں کہ ان افسران نے آنے والے برسوں میں سپہ سالار کا اہم مشیر ثابت ہونا تھا۔

جب جنرل قمر جاوید باجوہ نے کمان سنبھالی تو آپریشن ’ضرب عضب‘ آخری مراحل میں داخل ہو چکا تھا، اس وقت انہوں نے عندیہ دیا کہ کراچی میں انسداد دہشت گردی اور ’اینٹی کرپشن‘ کی کارروائیوں سے حاصل ہونے والے ثمرات کو پائیدار اور مستحکم کرنے پر توجہ دی جائے گی۔

انہوں نے دہشت گردوں کے ٹھکانوں اور سلیپر سیلز کو نشانہ بنانے کے لیے انٹیلی جنس پر مبنی کارروائیوں کو ترجیح بنایا، ان کی اس مہم کو آپریشن ’ردالفساد‘ کا نام دیا گیا جس کا مقصد دہشت گردی اور انتہا پسندی دونوں سے نمٹنے کے ساتھ ساتھ جرائم، سیاست اور کرپشن کے گٹھ جوڑ کو توڑنا تھا، اس نکتہ نظر نے ملکی سیاست کو متاثر کیا جب کہ فوجی قیادت سمجھتی تھی کہ اس کے افسران اور جوان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جانیں دے رہے ہیں جب کہ کرپشن اور بدعنوانی کی وجہ سے سویلین طرز حکمرانی میں کوئی بہتری نہیں آرہی۔

دہشت گردی میں کمی کا رجحان جو جنرل راحیل شریف کے شروع کردہ آپریشن ضرب عضب سے شروع ہوا 2020 کے آخر تک جاری رہا جب کہ اس رجحان میں اضافے کی ابتدائی علامات 2021 میں دیکھی گئیں، 2022 میں خاص طور پر اس میں مزید اضافہ ہوا جس میں گزشتہ سال کے مقابلے میں رواں سال کے 11 مہینوں میں دہشت گردانہ حملوں میں 60 فیصد اضافہ ہوا، گزشتہ 3 مہینوں میں کل 132 دہشت گرد حملے رپورٹ ہوئے جن میں صرف نومبر کے دوران ہی ہونے والے 50 حملے شامل ہیں۔

کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اس لہر میں سب سے آگے ہے، داعش اور بلوچستان لبریشن فرنٹ (بی ایل اے) بھی ان حملوں میں ملوث ہیں۔

مختلف حلقوں کی جانب سے خبردار کیے جانے کے باوجود گزشتہ سال کے دوران اٹھائے گئے سب سے زیادہ متنازع اقدامات میں سے ایک قدم ٹی ٹی پی کے ساتھ بات چیت اور مذاکرات تھے جب کہ عسکریت پسند گروپ نے اپنے اتحادیوں، افغان طالبان کی ثالثی میں ہونے والی بات چیت اور بعد میں اعتماد سازی کے اقدام کے طور پر ہونے والی جنگ بندی کو اپنے قدم دوبارہ جمانے کے لیے ایک موقع کے طور پر استعمال کیا اور پھر خیبرپختونخوا میں انسداد دہشت گردی آپریشنز کے تناظر میں معاہدے سے مکر گیا۔

ٹی ٹی پی اور بلوچ باغی گروہوں کے تعاون کی واضح علامات نے پاکستان میں کام کرنے والے چینی حکام کی سیکیورٹی کے چیلنج کو مزید پیچیدہ بنا دیا جب کہ اس وقت بلوچ اور سندھی قوم پرست باغیوں کے درمیان بھی بڑھتے گٹھ جوڑ کی اطلاعات ہیں، بلوچ باغیوں نے نہ صرف اپنی حکمت عملی کو متنوع بنایا بلکہ بلوچستان سے باہر ملک کے دیگر حصوں میں بھی حملے کیے، چینی کارکنوں پر ہونے والے حملوں نے کئی مہینوں تک اسلام آباد اور بیجنگ کے درمیان ’آہنی بھائی چارے‘ پر شدید دباؤ ڈالا اور تعلقات کو کشیدہ رکھا۔

اس دوران جبری گمشدگیاں بھی ملک میں کئی دہائیوں سے انسانی حقوق کا بڑا مسئلہ رہی ہیں تاہم گزشتہ 6 برسوں کے دوران یہ مسئلہ مزید سنگین صورتحال اختیار کر گیا جب کہ کارکنوں، صحافیوں اور طلبہ (خاص طور پر بلوچستان سے تعلق رکھنے والے) کو خاص طور پر بڑی تعداد میں نشانہ بنایا گیا، اپریل 2022 میں جبری گمشدگیوں سے متعلق تحقیقاتی کمیشن کے حوالے سے جاری رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ 2017 اور 2021 کے درمیان 4 ہزار581 افراد لاپتا ہوئے۔

بیرونی محاذ پر دیکھا جائے تو جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھارت کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی کے دوران کمان سنبھالی، اس دوران تقریباً روزانہ ہی لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری پر فائرنگ اور گولہ باری کا تبادلہ ہوتا تھا لیکن اس میدان اور محاذ پر ان کے تجربے نے ایل او سی پر صورتحال کو کامیابی سے سنبھالنے میں ان کی مدد کی۔

فروری 2019 میں دونوں ممالک کے درمیان فضائی محاذ پر ایک مشکل بحران نے سر اٹھایا جس کے دوران پاکستان نے ایک پائلٹ کو پکڑ لیا جسے فوری رہا کردیا گیا، اگست 2019 میں اگرچہ بھارت نے یکطرفہ طور پر مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو تبدیل کر دیا لیکن پاکستان نے فوجی طور پر تحمل کا مظاہرہ کیا، 2020 کے آخر میں اعلیٰ سطح کے بیک چینل کے ذریعے شروع ہونے والے مذاکرات کی وجہ سے 2003 کے جنگ بندی معاہدے کی تجدید ہوئی جو بلاتعطل تاحال برقرار ہے۔

افغانستان کے محاذ پر جنرل قمر جاوید باجوہ نے سرحد پر باڑ کی تعمیر کی نگرانی کی، ان کی زیر نگرانی فوج نے افغانستان میں سابق حکومت کے ساتھ مشکل تعلقات میں کشیدگی بڑھانے والے عناصر کو سنبھالنے کے لیے باڑ لگانے کو ترجیح دی، 2018 کے بعد جنرل قمر جاوید باجوہ نے دوحہ میں طالبان اور امریکا کے درمیان ہونے والے مذاکرات کی پاکستان کی جانب سے سہولت کاری کا گرین سگنل دیا جس کے نتیجے میں طالبان اور امریکا کے درمیان معاہدہ طے پایا جس کے تحت افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا ہوا۔

اس دوران جنرل قمر جاوید باجوہ نے ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت میں واشنگٹن کے ساتھ پاکستان کے مشکل تعلقات کو آگے بڑھانے کے لیے سہولت کاری کے کردار کا فائدہ اٹھایا، اس محاذ پر انہوں نے اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کو امریکا کے ساتھ تعلقات بحال کرنے میں شراکت دار کے طور پر دیکھا تاہم آخر کار عمران خان اور جنرل قمر جاوید باجوہ دونوں کا امریکا کے ساتھ تعلقات سے متعلق نکتہ نظر مختلف رہا۔

انہوں نے پاک فضائیہ کو جدید بنانے پر خاص طور پر چین سے ایچ کیو -9/پی ایئر ڈیفنس سسٹمز کے حصول پر خصوصی توجہ دی، اس کے ساتھ ہی دیگر اقدامات کے علاوہ انہوں نے چینی ساختہ وی ٹی 4 ٹینکس جو کہ پاکستانی فوج کے پاس موجود اسلحے کے ذخائر کے سب سے جدید ٹینک ہیں، کو شامل کرکے ملکی دفاع کو مزید مضبوط بنایا۔

فوج نے اپنی صلاحیت کو بڑھانے کے لیے سال 2021 میں چینی نژاد ایس ایچ 15، 15ایم ایم ٹرک ماونٹڈ ہووٹزر کو بھی شامل کیا، چین سے عسکری ہارڈویئر کے علاوہ پاک فوج نے 2018 میں ترکی سے ٹی-129 گن شپ ہیلی کاپٹرز بھی حاصل کیے۔

یہ بھی جنرل قمر جاوید باجوہ کے دور میں ہوا کہ اگست 2015 میں طے پانے والے معاہدے کے تحت روس نے پاکستان کو فوجی ساز و سامان کی فروخت پر عائد پابندی ختم کی، اس معاہدے کے تحت روس نے ایم آئی 35 ہیلی کاپٹر فراہم کیے لیکن اس کے بعد ماسکو سے کوئی قابل ذکر خریداری نہیں ہوئی۔

جیسا کہ اب جنرل قمر جاوید باجوہ کی قیادت کا سورج غروب ہوگیا ہے اور وہ پس منظر میں چلے گئے ہیں، اب دیکھنا ہے کہ کیا ان کے جانشین جنرل سید عاصم منیر ’باجوہ ڈاکٹرائن‘ کا وہ نظریہ جس نے گزشتہ 6 برسوں کے دوران ہونے والے واقعات کی سمت کا تعین کیا، اس کو جاری رکھیں گے یا بطور نئے آرمی چیف وہ کوئی نیا ڈاکٹرائن، نظریہ یا پالیسی متعارف کرائیں گے۔

تبصرے (1) بند ہیں

rizwan soomro Nov 29, 2022 01:38pm
رجیم کا ذکر بھی تو کرو جو ملک کی مشعیت کے سات ہوا اس کا ذکر بھی کرو

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024