• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

فوجی افسران کےخلاف ٹوئٹ: سینیٹر اعظم سواتی کا 2 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور

شائع November 27, 2022
ایف آئی اے نے سینیٹر اعظم سواتی کو گرفتار کرلیا — فوٹو: ڈان نیوز
ایف آئی اے نے سینیٹر اعظم سواتی کو گرفتار کرلیا — فوٹو: ڈان نیوز

اسلام آباد کی جوڈیشل مجسٹریٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینیٹر اعظم خان سواتی کا دو روزہ جمسانی ریمانڈ منظور کرلیا۔

وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے سینیٹر اعظم سواتی کو ڈیوٹی جج وقاص احمد راجا کی عدالت میں پیش کیا جہاں ایف آئی اے نے ان کے 8 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی، مگر عدالت نے دو روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کیا۔

اعظم سواتی کی جانب سے بابر اعوان عدالت میں پیش ہوئے جہاں انہوں نے کہا کہ اعظم سواتی پر جسمانی اور دماغی تشدد کے اثرات برقرار ہیں، ان کو جسمانی طور پر بھی تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور ویڈیو کے ذریعے دماغی ٹارچر بھی کیا گیا۔

بابر اعوان نے کہا کہ یہ قانون کی حکمرانی کی بات کرتے ہیں، آٹا اسمگلنگ روک نہیں سکتے، یہ قانون کی حکمرانی نہیں، قانون کا مذاق اور قانون کا قتل ہے۔

انہوں نے کہا کہ زندگی کا سب سے بڑا محافظ موت کا وقت ہے جو اللہ کی قدرت میں ہے، ہم موت سے نہیں ڈرتے۔

بابر اعوان نے خدشہ ظاہر کیا کہ اعظم سواتی کی جان کو بھی خطرہ ہے، جان تو سب سے پیاری چیز ہے، اللہ قرآن میں بھی کہتا ہے۔

انہوں نے نے ایف آئی اے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ بیان دیں کہ اگر ان کی حراست میں اعظم سواتی کو کچھ ہوتا ہے تو یہ ذمہ دار ہوں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ جو ٹوئٹس کیے گئے وہ ایف آئی آر میں لگائی گئی دفعات پر پورا نہیں اترتے، پولیس کی جانب سے لیے گئے بیان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔

بابر اعوان نے کہا کہ اعظم سواتی کا 164 کا بیان نہیں لیا گیا جبکہ ان پر پچھلی بار بھی وحشیانہ تشدد کیا گیا تھا اور اب تک وہ اس تشدد سے ٹھیک نہیں ہوئے۔

دوران سماعت تفتیشی افسر نے کہا کہ کچھ متنازع ٹوئٹس ہیں جس کے باعث سینیٹر کو گرفتار کیا گیا ہے۔

تفتیشی افسر نے کہا کہ ایک بیانیہ بنایا جارہا ہے، ان چیزوں پر پہلے بھی ان (اعظم سواتی) پر ایف آئی آر درج کی جاچکی ہے جبکہ انہوں نے ٹوئٹ سے انکار نہیں کیا اور دوسری بار اس جرم کا ارتکاب کیا ہے۔

بابر اعوان نے کہا کہ یہاں جو ایف آئی اے کے لوگ موجود ہیں ان کا نام آرڈر شیٹ میں شامل کیا جائے جس پر جج نے استفسار کیا کہ میں صرف ان کا نام شامل کروں گا جو لوگ یہاں موجود ہیں۔

ایف آئی اے کی جانب سے اعظم سواتی کے 8 دن کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی گئی تھی مگر عدالت نے دو روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کیا۔

قبل ازیں پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر اعظم خان سواتی کو فوجی افسران کے خلاف متنازع ٹوئٹ کرنے پر گرفتار کیا گیا تھا۔

اسلام آباد سائبر کرائم رپورٹنگ سینٹر (سی سی آر سی) کے ٹیکنیکل اسسٹنٹ انیس الرحمٰن کی مدعیت میں ریاست کی شکایت پر ایف آئی اے کی جانب سے اعظم سواتی کے خلاف فرسٹ انفارمیشن (ایف آئی آر) رپورٹ درج کی گئی تھی۔

سابق وفاقی وزیر کے خلاف مقدمہ پیکا 2016 کی دفعہ 20 اور پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ131، دفعہ 500، دفعہ 501، دفعہ 505 اور دفعہ 109 کے تحت درج کیا گیا تھا۔

ایف آئی آر میں تین ٹوئٹر اکاؤنٹس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اعظم سواتی اور مذکورہ اکاؤنٹس نے غلط عزائم اور مذموم مقاصد کے ساتھ ریاستی اداروں، سینئر افسران سمیت جنرل قمر جاوید باجواہ کے خلاف انتہائی جارحانہ انداز میں ٹوئٹر پر مہم کا آغاز کیا۔

ایف آئی آر میں مزید کہا گیا ہے کہ ’اس طرح نام لے کر اور الزام عائد کرنے والی اشتعال انگیز ٹوئٹس ریاست کو نقصان پہنچانے کے لیے مسلح افواج کے افسران کے درمیان تفریق پیدا کرکے بغاوت کی شرارت ہے۔‘

ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ اشتعال انگیز ٹوئٹس پر تبصرے کرکے ملزمان نے فوجی افسران کو ان کی ذمہ داریوں اور وفاداری سے بہکانے کی کوشش کی اور اعظم سواتی کی طرف سے یہ بار بار کوشش کی جارہی تھی۔

ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ 26 نومبر کو اعظم سواتی نے ایک ٹوئٹ شیئر کی تھی جس میں لکھا تھا کہ وہ سینئر فوجی افسر کے خلاف ہر فورم پر جائیں گے جبکہ 19 نومبر کو ایک اور ٹوئٹر اکاؤنٹ سے ٹوئٹ میں لکھا گیا کہ ملک کی تباہی کے ذمہ دار جرنیل ہیں جس پر اعظم سواتی نے جواب دیا کہ ’شکریہ۔‘

ایف آئی آر کے مطابق 24 نومبر کو ایک ٹوئٹر اکاؤنٹ کی ٹوئٹ میں لکھا گیا تھا کہ ’تبدیلی کا آغاز اداروں سے کرپٹ جرنیلوں کا گند صاف کرنے سے ہونا چاہیے تھا،‘ جس پر بھی اعظم سواتی نے جواب دیا کہ ’شکریہ‘۔

ایف آئی آر میں مزید لکھا گیا ہے کہ 24 نومبر کو ایک اور ٹوئٹر اکاؤنٹ نے ایک متنازع ٹوئٹ کیا گیا جس پر اعظم سواتی نے انتہائی جارحانہ انداز میں جواب دیا۔

ایف آئی آر کے مطابق سینیٹر کے خلاف ماضی میں بھی اسی طرح کی شکایات درج ہوئی ہیں، مزید لکھا گیا ہے کہ اعظم سواتی نے ریاست کے ستونوں کے درمیان بدنیتی پیدا کرنے کی کوشش کر کے عام لوگوں اور مسلح افواج کے اہلکاروں کو اکسانے کی کوشش کی۔

ایف آئی آر میں مزید کہا گیا ہے کہ اعظم سواتی نے غلط معلومات کی بنیاد پر رازداری کی خلاف وزری کی جو کسی افسر، سپاہی، سیلر یا ایئرمین کو میوٹنی یا اپنے فرائض میں کوتاہی پر اکسانے کی کوشش ہے، مزید کہا گیا ہے کہ ایسے بیانات سے عوام میں خوف پیدا ہونے کا بھی امکان ہے۔

بعد ازں تحریک انصاف نے ٹوئٹر پر پارٹی رہنماؤں کی تصاویر جاری کرتے ہوئے لکھا کہ وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی، سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر ڈاکٹر شہزاد وسیم، عمران اسمٰعیل اور دیگر قیادت سینیٹر اعظم خان سواتی کی جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے پیشی کے دوران ایف ایٹ کچہری پہنچ گئی ہے۔

بلوچستان میں علیحدہ سے ایف آئی آر درج

پی ٹی آئی رہنما اعظم سواتی کے خلاف کچلاک پولیس اسٹیشن میں ایک اور مقدمہ درج کر لیا گیا۔

مقدمہ عزیز الرحمن نامی شہری کی جانب سے درج کرایا گیا ہے، جس میں پیکا 2016 کی دفعہ 20 اورپاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 131، 504، 500، 501، 505 اور 109 شامل ہیں۔

فرسٹ انفارمیشن رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اعظم سواتی نے راولپنڈی میں تقریر کے دوران پاک فوج کے خلاف غلط زبان استعمال کی، اور پاک فوج کے خلاف لوگوں کو اکسایا۔

ایف آئی آر میں مزید کہا گیا ہے کہ ٹوئٹر پر بھی اعظم سواتی نے پاک فوج کے خلاف غلط زبان استعمال کی۔

ایف آئی آر میں شکایت کنندہ کا کہنا تھا کہ ذمہ دار شہری ہوں، اعظم سواتی کے خلاف کارروائی کی جائے۔

پیمرا نے اعظم سواتی کی تقاریر نشر کرنے پر پابندی عائد کردی

دوسری جانب پاکستان الیکٹرانک میڈیا اتھارٹی (پیمرا) نے سینیٹر اعظم خان سواتی کی تقاریر، انٹرویوز اور میڈیا ٹاک نشر کرنے پر پابندی عائد کردی۔

پیمرا کی طرف سے جاری کیے گئے نوٹی فکیشن میں لکھا گیا ہے کہ اعظم سواتی نے گزشتہ روز راولپنڈی میں ایک جلسے کے دوران تقریر کی جس میں انہوں نے ریاستی اداروں کے خلاف اشتعال انگیز باتیں کرنے کے ساتھ ساتھ بے بنیاد اور من گھڑت الزامات عائد کیے اور ٹی وی چینلز نے بغیر کسی کنٹرول کے وہ تقریر نشر کردی۔

نوٹی فکیشن میں مزید کہا گیا ہے کہ اعظم سواتی کی طرف سے کی گئی نفرت انگیز، تہمت آمیز اور اشتعال انگیز تقریر اور ریاستی اداروں کے خلاف بیانات آئین کے آرٹیکل 19 کی سراسر خلاف ورزی ہے۔

نوٹی فکیشن کے مطابق پیمرا نے گزشتہ روز کی گئی تقریر کا جائزہ لینے کے بعد اعظم سواتی کی تقاریر، انٹرویوز اور میڈیا ٹاک کسی بھی ٹی وی چینل پر نشر کرنے پر پابندی عائد کردی ہے۔

پارٹی رہنماؤں کی مذمت

قبل ازیں پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں نے ایف آئی اے کی جانب سے سینیٹر اعظم خان سواتی کو دوبارہ گرفتار کرنے پر اظہار مذمت کیا تھا۔

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا کہ ’میں حیران ہوں کہ ہم کتنی تیزی سے نہ صرف بنانا ری پبلک بلکہ ایک فاشسٹ ریاست میں تبدیل ہو رہے ہیں۔‘

اعظم سواتی کی گرفتاری پر ردِعمل دیتے ہوئے عمران خان نے ٹوئٹر پر اپنے بیان میں کہا کہ ’سینیٹر اعظم سواتی کو حراست میں لے کر تشدد کرنے کے بعد ایک بلیک میلنگ ویڈیو ان کے خاندان کو بھیجی جانے والی تکلیف کو کوئی کیسے نہیں سمجھ سکتا۔‘

تحریک انصاف کے رہنما اسد عمر نے اعظم سواتی کی مبینہ گرفتاری پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ اعظم سواتی نے جس باوقار انداز میں خود کو آج گرفتاری کے لیے پیش کیا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ایک اصول کے لیے لڑ رہے ہیں۔

اسد عمر نے ٹوئٹ میں لکھا کہ ’آپ اعظم سواتی کے الفاظ کے انتخاب یا ان کے خیالات سے اختلاف کر سکتے ہیں، لیکن آپ ان سے اس بات پر اختلاف نہیں کر سکتے کہ جو کچھ بھی ہو قانون کے دائرے میں رہ کر کرنا چاہیے۔‘

سابق وفاقی وزیر اور تحریک انصاف کی رہنما شیریں مزاری نے کہا کہ ’ہمارے آزادی مارچ سے خطاب کرنے کے بعد ایف آئی اے نے سینیٹر اعظم سواتی کو دوبارہ گرفتار کیا کیونکہ تقریر میں انہوں نے کچھ سوالات کیے اور بتایا کہ ان کے اور ان کے خاندان کے ساتھ کیا ہوا۔

شیریں مزاری نے ٹوئٹر پر اعظم سواتی کی مبینہ گرفتاری کے حوالے سے ایک ویڈیو جاری کرتے ہوئے گرفتاری کو فاشزم قرار دیا اور کہا کہ کیا ان کا یہ جرم ہے، کیا چیئرمین سینیٹ نے دوبارہ اس گرفتاری کی منظوری دی ہے؟

خیبر پختونخوا کے وزیر خزانہ تیمور خان جھگڑا نے گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ہفتوں سے اعظم سواتی انصاف کے لیے ایک سے دوسری جگہ دوڑ رہے ہیں مگر ایک 74 سالہ شخص اب مزاحمت کی علامت ہے۔

خیال رہے کہ اس سے قبل پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر اعظم خان سواتی کو 12 اور 13 اکتوبر کی درمیانی شب گرفتار کیا گیا تھا۔

سابق وفاقی وزیر کو آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے خلاف ٹوئٹ کرنے پر وفاقی تحقیقاتی ادارے کے سائبر کرائم سیل نے گرفتار کیا تھا۔

ایف آئی اے کی جانب سے دائر کیے گئے مقدمے کے مطابق ’پی ٹی آئی کے سینیٹر کو آرمی چیف سمیت ریاستی اداروں کے خلاف نفرت انگیز اور دھمکی آمیز ٹوئٹ کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔‘

16 اکتوبر کو بھی انہیں اسلام آباد ڈسٹرکٹ سیشن کورٹ کے ڈیوٹی مجسٹریٹ شعیب اختر کی عدالت میں پیش کیا گیا تھا جہاں ان کا دوسری بار ایک روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کیا گیا تھا، جب کہ اس سے قبل بھی عدالت نے ان کا 2 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کیا تھا۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024