بیٹی کی شادی کے اخراجات والد کو برداشت کرنا ہوں گے، لاہور ہائیکورٹ
لاہور ہائی کورٹ نے بیٹی کی شادی کے اخراجات کے حوالے سے شہری کی درخواست پر فیصلے میں کہا ہے کہ کوئی بھی والد اپنی بیٹی کی صرف شادی تک اخراجات برقرار رکھنے کا پابند نہیں بلکہ مالی حیثیت کے مطابق شادی کے اخراجات بھی برداشت کرنے کا پابند ہوگا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس چوہدری محمد اقبال نے فیملی کورٹ کے فیصلے کے خلاف دائر درخواست کا فیصلہ سنایا کہ ایک والد کی طرف سے اپنے بچے کو مالی ادائیگی کوئی مہربانی نہیں بلکہ یہ ان کا مذہبی، قانونی، اخلاقی اور معاشرتی فرض ہے، جسے رد نہیں کیا جا سکتا۔
لاہور ہائی کورٹ نے فیملی کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کرنے والے شہری کی درخواست مسترد کردی، جس میں انہیں اپنی بیٹی کی شادی کے لیے 15 لاکھ روپے کے اخراجات برداشت کرنے کا حکم دیا گیا تھا کیونکہ بیٹی اپنی ماں کے ساتھ رہتی ہیں۔
تاہم، والدہ نے اپنے سابق شوہر سے بیٹی کی شادی کےاخراجات کے لیے 30 لاکھ روپے طلب کیے تھے۔
جسٹس چوہدری محمد اقبال نے اپنے فیصلے میں کہا کہ آئین کا آرٹیکل 35 بچوں اور ان کی والدہ کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہاں تک کہ جب ایک عورت بالغ ہو جائے پھر بھی اس سے رسمی طور پر ازدواجی زندگی میں داخل ہونے کے لیے اپنے والد کی مدد اور معاونت کی ضرورت ہوتی ہے۔
فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ والد کو اپنی طرف سے ایک نگران کی حیثیت میں کام کرنا چاہیے تاکہ وہ اپنی بیٹی کی شادی کے نکاح میں نگران کے طور پر شرکت کرسکیں۔
لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے مطابق دیکھ بھال کا حق صرف خوراک، کپڑوں اور گھر تک محدود نہیں ہوتا بلکہ اس کا نفاذ ذہنی اور جسمانی بہتری کے لیے اخراجات پر بھی ہوتا ہے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ یہ درست ہے کہ ایک والد اپنی بیٹی کی شادی تک ہی اخراجات برداشت کرنے کا پابند ہے مگر اس کے بعد مالی اخراجات کا بوجھ صرف ماں پر کیسے ڈالا جا سکتا ہے جو اپنے بچوں کو کفالت فراہم کرنے کے لیے کہیں بھی مالی طور پر شامل نہیں۔
لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے میں مزید لکھا گیا ہے کہ درخواست گزار کی طرف سے اپنی بیٹی کی شادی کے لیے اخراجات ادا نہ کرنے کا مقصد اس کو اپنی والدہ کے ساتھ رہنے کی سزا دینا ہے جس کو درخواست گزار نے خود طلاق دی تھی۔