• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:00pm Isha 6:25pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:00pm Isha 6:25pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

دہشت گرد حملے کا خطرہ، وزارت داخلہ کا پی ٹی آئی کو راولپنڈی کی ریلی ملتوی کرنے کا مشورہ

شائع November 24, 2022
حکومت کا کہنا ہے کہ دہشت گرد عوامی اجتماعات جیسے آسان اہداف کو نشانہ بنا سکتے ہیں — فائل فوٹو: ٹوئٹر
حکومت کا کہنا ہے کہ دہشت گرد عوامی اجتماعات جیسے آسان اہداف کو نشانہ بنا سکتے ہیں — فائل فوٹو: ٹوئٹر

وزارت داخلہ نے عسکریت پسند گروپوں یا بنیاد پرستوں کی جانب سے ممکنہ دہشت گرد حملے کے خطرے کی وارننگ دیتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے کہا ہے کہ وہ ’حقیقی آزادی‘ لانگ مارچ کے ایک حصے کے طور پر جاری اپنے عوامی اجتماعات کو ملتوی کر دے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی کے سیکریٹری جنرل اسد عمر کو لکھے گئے خط میں وزارت داخلہ نے کہا کہ ملک کی سیکیورٹی صورتحال کو دیکھتے ہوئے ’پی ٹی آئی کی قیادت کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے بچنے کے لیے 26 نومبر کو راولپنڈی میں ہونے والے عوامی اجتماع کو ملتوی کرنے کے امکان پر غور کرے۔‘

رواں ہفتے کے اوائل میں پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے پارٹی کے لانگ مارچ کے دوبارہ آغاز کے لیے 26 نومبر کو اپنے حامیوں سے راولپنڈی میں جمع ہونے کو کہا تھا اور توقع ہے کہ وزیر آباد حملے میں زخمی ہونے والے چیئرمین تحریک انصاف ایک بار پھر دوبارہ ذاتی طور پر لانگ مارچ میں شریک ہوں گے، چند دن قبل مارچ کو راوت پہنچنے پر روک دیا گیا تھا۔

وزارت داخلہ نے اپنے خط میں کہا کہ وہ ریاست مخالف عناصر سے عمران خان کی جان کو لاحق خطرات سے متعلق الرٹ شیئر کر رہی ہے اور یہ انتباہات قابل اعتماد انٹیلی جنس ذرائع کی معلومات کی بنیاد پر تیار کیے گئے ہیں۔

خط میں مزید کہا گیا ہے کہ خطرات کے پیش نظر وفاقی حکومت نے عمران خان کے دارالحکومت میں قیام کے لیے بلٹ پروف گاڑی فراہم کی تھی اور پولیس اور سول آرمڈ فورسز کو تعینات کیا تھا، تاہم پی ٹی آئی کے سربراہ اس وقت لاہور میں ہیں اور مارچ کے شرکا روات چلے گئے تھے، وزارت داخلہ نے امید ظاہر کی کہ حکومت پنجاب سابق وزیر اعظم اور مارچ کے شرکا کے تحفظ کے لیے اپنے دائرہ اختیار میں تمام ضروری حفاظتی اقدامات کرے گی۔

اس حوالے سے کہا گیا کہ القاعدہ/داعش اور ٹی ٹی پی جیسے ریاست مخالف عناصر اور ٹی ایل پی کے بنیاد پرست نوجوان ملک کو غیرمستحکم کرنے کے لیے عوامی اجتماعات جیسے آسان اہداف کا فائدہ اٹھا کر خودکش حملے، آئی ای ڈیز (دیسی ساختہ بم) وغیرہ سے حملہ کر سکتے ہیں۔

سابق وزیر اسد عمر کو لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ سیکیورٹی خطرات کی سنگینی کے پیش نظر زیادہ سے زیادہ احتیاط برتنے کی ضرورت پر زور دینا چاہیے۔

خط میں اس بات پر بھی افسوس کا اظہار کیا گیا پی ٹی آئی کو دھمکیوں کے بارے میں خبردار کرنے کی بار بار درخواستوں کے باوجود بالخصوص 26 نومبر کو راولپنڈی میں ہونے والے احتجاج کے تناظر میں پارٹی قیادت سیکیورٹی کی صورتحال سے ’غافل‘ دکھائی دیتی ہے، تازہ ترین انٹیلی جنس رپورٹ صوبائی حکومتوں کے ساتھ شیئر کی گئی تھی، وزارت داخلہ نے پی ٹی آئی پر زور دیا کہ وہ سیکیورٹی کی صورتحال کو مدنظر رکھے اور ریلی کو ملتوی کرنے پر غور کرے۔

دریں اثنا، صوبائی حکومتوں کو لکھے گئے اسی طرح کے ایک خط میں وزارت داخلہ نے کہا کہ اسے قابل اعتماد انٹیلی جنس ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ پی ٹی آئی کے لانگ مارچ میں شریک عام لوگوں کے ساتھ ساتھ عمران خان کی جان کو بھی شدید خطرہ لاحق ہے۔

خط میں انٹیلی جنس ایجنسی کی جانب سے شیئر کردہ کچھ عوامل کا تذکرہ کرتے ہوئے دعویٰ کیا گیا کہ اس طرح کے حملے کے خدشات میں اضافہ ہو گیا ہے، مذکورہ خط میں مشتبہ شوٹر کے ویڈیو بیان اور تحریک لبیک پاکستان کے ’بنیاد پرست اور غیر تعلیم یافتہ‘ نوجوان اراکین کے عقیدے کا ذکر کیا گیا جن کا ماننا ہے کہ عمران خان ماضی میں ٹی ایل پی کے مظاہرین پر پولیس کریک ڈاؤن کے ذمہ دار تھے، لہٰذا وزارت داخلہ نے کہا کہ ٹی ایل پی کے کسی بھی بنیاد پرست نوجوان کی طرف سے انتقامی کارروائی کے لیے تن تنہا حملے کی کسی بھی کوشش کو رد نہیں کیا جاسکتا۔

خط میں پی ٹی آئی-مجلس وحدت المسلمین اتحاد اور سابق حکمران جماعت کے لانگ مارچ میں مذہبی جماعت کی شرکت کا بھی حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ان کی شرکت کے پیش نظر یہ مارچ اہل تشیع مخالف شدت پسندوں کا نشانہ بن سکتا ہے کیونکہ طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد داعش کے دہشت گردوں کی بڑی تعداد افغانستان سے پاکستان میں داخل ہو گئی ہے۔

اسد عمر کو لکھ گئے خط میں القاعدہ کی جانب سے منظم اور بڑے حملے کے خطرے کا انتباہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ اس پس منظر میں ایسے نرم اہداف کے خلاف بڑے پیمانے پر بم دھماکے/آئی ای ڈی حملے یا خودکش حملے کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا، لہٰذا مذکورہ بالا خطرات کے پیش نظر یہ درخواست کی جاتی ہے کہ اس طرح کے کسی بھی واقعے کے امکان کو روکنے کے لیے انتہائی چوکس رہنے اور احتیاط برتنے کی ضرورت ہے۔

خط پنجاب، خیبر پختونخوا، آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کے چیف سیکریٹریز اور اسلام آباد کے چیف کمشنر کو بھیجا گیا ہے اور اس کی نقول وزیر اعظم کے سیکریٹری، سندھ اور بلوچستان کے چیف سیکریٹریز کو بھی ارسال کردی گئی ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024