بھینسے کا سینگ، فرشتے کی لات
ہمارے بچپن میں صرف ایک پی ٹی وی ہی ہوا کرتا تھا جس کے واحد چینل پر ہم بصیرت سے لیکر فرمان الٰہی تک سارے پروگرام دیکھا کرتے تھے۔
رات گئے اکثر 'راگ رنگ' کے نام سے کلاسیکی موسیقی کا ایک پروگرام نشر ہوتا تھا. کلاسیکی موسیقی سے شغف نہ رکھنے کے باوجود ہم بھی وہ پروگرام دیکھ لیتے کیوں کہ دوسرا چینل دیکھنے کی کوئی سہولت میسر نہیں تھی۔
راگ رنگ شروع ہوتے ہی ہماری امّاں ہمیشہ کچھ نہ کچھ بڑ بڑا تے ہوئے ٹی وی کے سامنے سے اُٹھ جایا کرتی تھیں۔ ایک دن وجہ پوچھنے پر پہلے تو انہوں نے ان بزرگ گائیکوں کو خوب صلواتیں سنائیں پھر کہنے لگیں "ذرا ان کی عمریں دیکھو۔ ابھی بھی یہ اپنی حرکتوں سے باز نہیں آتے حالانکہ ان کو چاہئے کہ اپنی باقی ماندہ عمر عبادت میں گزاریں، نفلی روزے رکھیں اور نمازیں پڑھیں۔ لیکن ان کو نہ تو اللہ کا کوئی خوف ہے نہ ہی قیامت کا۔ تبھی تو ان خرافات میں گرفتار ہیں اورجب بھی دیکھو موسیقی کے نام پر منہ سے عجیب و غریب آوازیں نکالتے رہتے ہیں"
مجھے سالوں پہلے کہی ہوئی امّاں کی یہ باتیں بار بار یاد آتی ہیں۔ اس وقت بھی جب کسی ٹی وی چینل پر کسی ایسے احمق شخص کو دیکھتا ہوں جو ایمیزون کے کسی دورافتادہ مقام پر مگر مچھوں کی کسی معدوم ہوتی ہوئی نسل پر تحقیق کر رہا ہوتا ہے اور تب بھی جب کوئی بے وقوف خاتون اپنا گھر بار چھوڑ کے اینا کونڈا کی تلاش میں دنیا کے کسی گمنام گوشے میں ننگے پاؤں کیچڑ میں گھومتی نظر آتی ہے۔
امّاں کی وہ باتیں ہر ایسے لمحے میں میرے دماغ میں گونجتی ہیں جب میں کسی کو پاگلوں کی طرح سمندر کی تہہ میں کچھ کھوجتے ہوئے یا مچھلیوں کی عادات سے متعلق تحقیق کے نام پر وقت ضائع کرتے دیکھتا ہوں یا جب کچھ خبطی لوگ چیونٹیوں، چمگادڑوں، چھپکلیوں،سانپوں اور دیگر جانوروں یا پرندوں اور حشرات الارض کی تلاش میں بیابانوں، پہاڑوں، غاروں اور جنگلوں کی خاک چھانتے دکھائی دیتے ہیں۔
مجھے ایسے لوگوں کے ان فضول مشاغل پر ہمیشہ حیرت ہوتی ہے اور ان کی بے عقلی پر ماتم کرنے کو دل چاہتا ہے۔ انتہائی افسوس ہوتا ہے کہ یہ کیسے لوگ ہیں جو اپنی زندگی کے بہترین ایّام اللہ کی عبادت میں صرف کرنے کے بجائے ان فضول اور واہیات کاموں میں ضائع کرتے ہیں؟
مجھے امّاں کی کہی ہوئی وہ باتیں اس وقت کچھ زیادہ ہی شدت سے یاد آتی ہیں جب میں اسٹیفن ہاکنگ کے بارے میں کوئی ڈاکومنٹری دیکھتا ہوں۔ وہی اسٹیفن ہاکنگ جو بولنے بلکہ لب ہلانے سے بھی قاصر ہے۔ منہ سے رال ٹپکتی رہتی ہے جسے وہ صاف کرنے پر بھی قادر نہیں۔ ہاتھ پیر ہلانے سے معزور اور کھانا کسی نرس کے ہاتھوں کھانے پر مجبور ہے، لباس بھی نرس ہی تبدیل کرتی ہے۔ یقینا دیگر ضروری کاموں کے لئے بھی وہ کسی کا محتاج رہتا ہوگا لیکن زرا اس کے کرتوت دیکھیں کہ اس حالت میں بھی وہ اللہ اللہ کرنے کے بجائے کائنات کی گتھیوں کو سلجھانے کی ناکام کوششوں میں اپنا وقت ضائع کر رہا ہے۔ حالانکہ اسے اپنے بے چارگی کے یہ ایّام عبادات میں گزارنے چاہئے، توبہ استغفار کرنی چاہئے اور اللہ سے رو رو کر اپنے لئے صحت کی دعائیں مانگنی چاہئے۔ اسے چاہئے کہ اپنی آخرت سنوارنے کی خاطر کسی مولوی سے رہنمائی حاصل کرے جو اسے نہ صرف قیامت کے عذاب سے بچنے کے تیر بہ ہدف نسخے بتا دے گا بلکہ انتہائی آسانی سے کائنات کے مکمل اسرارو رموز بھی سمجھا دے گا ۔
یہ بات میں پورے وثوق سے اس لئے کہہ سکتا ہوں کیوں کہ بچپن میں سکول کی چھٹیوں کے دوران دیگر بچوں کی طرح میں بھی دینی تعلیم حاصل کرنے ایک مقامی مدرسے جایا کرتا تھا۔ ایک دن جب ہم سارے بچے سبق یاد کرنے میں مصروف تھے تو ہمیں زلزلے کے کچھ جھٹکے محسوس ہوئے۔ ہم اُٹھ کر بھاگنے لگے تو مولوی صاحب نے ڈانٹ کر ہمیں دوبارہ بیٹھنے کو کہا۔ کسی بچّے نے زلزلوں کے آنے کی وجہ پوچھی تو مولوی صاحب بچے کو سمجھاتے ہوئے فرمانے لگے کہ ہماری یہ دنیا ایک بھینسے (گاو ماہی) کے سینگ پر ٹکی ہے اور یہ بھینسا ایک ایسی مچھلی کی پیٹھ پہ کھڑا ہے جو پانی میں تیر رہی ہے۔
جب بھینسے دنیا کو اپنے ایک سینگ سے دوسرے پر منتقل کرتا ہے تو زلزلہ آتا ہے۔ پھر کہنے لگے کہ یہ زلزلہ اللہ کی طرف سے ایک عذاب ہوتا ہے۔ جو لوگ بے گناہ اور معصوم ہوتے ہیں زلزلہ ان کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا لیکن جو گناہ گار ہوتے ہیں وہ کسی صورت اس سے نہیں بچ سکتے۔ اس لئے زلزلے سے بھاگنا فضول ہے۔
چھٹی کے وقت ہم باہر نکلے تو ایک لڑکے نے گستاخی کی کہ چونکہ مولوی صاحب خود پاؤں سے معزور اور بھاگنے سے قاصر ہیں اس لئے ہمیں بھی زلزلے کے دوران بھاگنے سے منع کر رہے تھے ورنہ شاید سب سے پہلے وہ خود بھاگ کھڑے ہوتے۔
ایسے ہی ایک دن جب ایک شاگرد نے گرج چمک اور بارش سے متعلق کوئی سوال پوچھا تو مولوی صاحب حسب معمول انتہائی ساد ہ اور سلیس زبان میں بتانے لگے کہ دراصل جب اللہ تعالیٰ اپنے فرشتے کو بارش برسانے کا حکم دیتا ہے تو فرشتہ آسمان کے پیٹ پر ایک زوردار لات رسید کرتا ہے جس کی ضرب سے بجلی چمکتی ہے اور آسمان درد کے مارے چیخنے اور غرّانے لگتا ہے تبھی بارش ہونے لگتی ہے۔
اب اتفاق دیکھئے کہ گریجویشن کے دوران ہمارے سلیبس میں جیو لوجی اور جیو گرافی کے مضامین بھی شامل تھے جن میں زلزلوں اور بارش کے بارے میں تفصیلی سائنسی معلومات درج تھیں ۔ لیکن ان میں بتائی گئی باتوں کی نسبت بارش اور زلزلے کی جو توجیہات مولوی صاحب نے بیان کی تھیں وہ زیادہ آسان اور سمجھ میں آنے والی تھیں اس لئے آج بھی میرے حافظے میں پہلے دن کی طرح محفوظ ہیں جبکہ کالج میں پڑھائی گئی با تیں میں کب کا بھول چکا ہوں۔
لہٰذا، اسٹیفن ہاکنگ اور ان جیسے دیگر لوگوں کو میرا یہی مشورہ ہے کہ وہ بھی کائنات کی تشکیل، تھیوریٹکل فزکس، بلیک ہولز، فورتھ ڈائمنشن، ٹائم ٹریول، بلیک پارٹیکلز یا گاڈ پارٹیکلز جیسی سمجھ میں نہ آنے والی بے سروپا باتوں پر اپنا وقت ضائع کرنے کے بجائے اپنی آخرت کی فکر کریں اور کائنات کے اسرار و رموز کو سمجھنے کی خاطر کسی مولوی سے رجوع کریں جو ان رازوں سے اس آسانی سے پردہ اٹھائے گا کہ سب کے چودہ طبق روشن ہو جائیں گے۔
کیڑے مکوڑوں، پرندوں، سانپوں اور مگر مچھوں پر تحقیق کرنے والوں کے لئے بھی میرا یہی مشورہ ہے کہ اب بھی وقت ہے کہ وہ اپنی تمام فضول سرگرمیاں فوری ترک کرکے اپنی باقی ماندہ زندگی توبہ استغفار میں گزار یں اور کسی تبلیغی جماعت میں شمولیت اختیار کرکے اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کر نے کی سبیل کریں۔
اس نیک کام کی تکمیل کے لئے وہ بلا شبہ پاکستان کا انتخاب کر سکتے ہیں جہاں ثواب کمانے اور آخرت سنوارنے کے بے شمار مواقع موجود ہیں اور جہاں ان عظیم مقاصد کے حصول کی خاطر دنیا بھر سے لوگ بلا کسی روک ٹوک کے آتے رہتے ہیں۔ یہ اسلام کا ایک ایسا قلعہ ہے جس کا ایک دروازہ حقیقت کے متلاشیوں کو اپنی آغوش میں سمانےکے لئے ہر دم تیاررہتا ہے جبکہ دوسرا سیدھا جنت میں کھلتا ہے۔
مجھے یقین ہے کہ جب وہ کچھ عرصہ یہاں گزار لیں گے تو انسانی جانوں کی بے وقعتی اور انسانیت کی تذلیل کے نظارے دیکھ دیکھ کر وہ اپنی ساری دھما چوکڑی بھول جائیں گے ، کائنات کی تسخیر اور بے زبان مخلوقات کی نسلیں بچانے کا بھوت خود بخودان کے سروں سے اُتر جائے گا اور سب اپنے گناہ بخشوانے اور اپنی آخرت سنوارنے کے لئے اسی راستے پر چل پڑیں گے جو سیدھا جنت کو جاتا ہے۔
تبصرے (13) بند ہیں