توہین عدالت کیس: پی ٹی آئی قیادت کے ٹوئٹس اور اسکرین شاٹ درخواست کا حصہ بنانے کی استدعا
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے خلاف سپریم کورٹ میں توہین عدالت کیس کی سماعت سے ایک روز قبل وفاقی حکومت نے 17 نومبر کو عدالت میں ایک اور درخواست دائر کردی جس میں 25 مئی کو لانگ مارچ کے دوران عمران خان اور پارٹی قیادت کے متعدد ٹوئٹ اور اسکرین شاٹ پیش کرنے کی اجازت مانگی گئی ہے۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے خلاف توہین عدالت کیس کی درخواست آج (18 نومبر) کو سماعت کے لیے مقرر ہے، سپریم کورٹ کا پانچ رکنی بینچ چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سماعت کرےگا۔
خیال رہے کہ اس درخواست میں حکومت نے سابق وزیر اعظم کو لانگ مارچ کے ذریعے ریاست کے خلاف ’جہاد‘ کے نام پر امن و امان کی صورت حال بگاڑنے سے روکنے کا حکم بھی طلب کیا تھا۔
25 مئی کے اس عدالتی حکم میں پی ٹی آئی کو اسلام آباد کے ایچ-نائن اور جی-نائن کے درمیان پشاور موڑ کے قریب ’آزادی مارچ‘ کے انعقاد سے روک دیا گیا تھا، تاہم عمران خان اور ان کے حامیوں نے عدالتی احکامات کی مبینہ خلاف ورزی کرتے ہوئے ڈی چوک کا رخ کیا تھا۔
بینچ میں چیف جسٹس کے علاوہ جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی شامل ہیں۔
جاری مقدمے میں پی ٹی آئی قیادت کے اسکرین شاٹ اور متعدد ٹوئٹ داخل کرنے کی درخواست سپریم کورٹ کے 1980 کے آرڈر نمبر 33 کے رول نمبر 6 کے تحت داخل کی گئی ہے۔
درخواست میں استدعا کی گئی کہ درخواست گزار انصاف کے مفاد کے حصول کے لیے 25 مئی کو لانگ مارچ کی ریلی کے دوران پی ٹی آئی کی قیادت کے متعدد ٹوئٹ اور اسکرین شاٹ عدالت کے سامنے پیش کرنا چاہتے ہیں۔
یاد رہے کہ 16 نومبر کو توہین عدالت کیس میں عمران خان نے سپریم کورٹ میں اپنا تفصیلی جواب جمع کروایا تھا، جواب عمران خان کے دستخط کے ساتھ ان کے وکیل سلمان اکرم راجا نے عدالت عظمیٰ میں جمع کروایا ہے۔
تفصیلی جواب میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ جانتے بوجھتے سپریم کورٹ کی حکم عدولی نہیں کی گئی، یقین دہانی کرواتا ہوں کہ مجھے 25 مئی کی شام کو عدالتی حکم کے بارے میں آگاہ نہیں کیا گیا۔
اس کے علاوہ عمران خان نے عدالت سے درخواست کی کہ 25 مارچ کو آزادی مارچ کے واقعات کے حوالے سے توہین عدالت کی کارروائی ختم کی جائے، انہوں نے کہا کہ آئی ایس آئی، انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) ، اسلام آباد پولیس سمت قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے رپورٹ حقائق کے خلاف اور یکطرفہ ہیں۔
سپریم کورٹ کو جمع کروائے گئے 23 صفحات پر مشتمل جواب میں عمران خان نے اپنے وکیل کے ذریعے بتایا کہ انہیں یہ اطلاعات موصول نہیں ہوئی کہ عدالت نے سیکٹر ’ایچ نائن اور ’جی نائن‘ کے درمیان واقع گراؤنڈ کے علاوہ کسی بھی جگہ پر ریاست کے خلاف پُرامن جلسہ منعقد کرنے کی اجازت نہیں دی۔
جواب میں اس بات پر زور دیا گیا کہ سپریم کورٹ کی ہدایات ریاستی حکام کی جانب سے ملک میں مبینہ طور پر تشدد کی صورتحال پیدا کرنےکے تناظر میں جاری کی گئی تھی۔
جواب میں مزید کہا گیا کہ ریاست کی جانب سے مزاحمت اور کارروائیاں کی گئی جس پر پی ٹی آئی کی قیادت اور عمران خان کا کوئی کنٹرول نہیں تھا۔