• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:02pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:02pm
شائع November 14, 2022

جب 1990ء کی دہائی میں امریکا نے پاکستان کی جانب سے ایف 16 طیاروں کی قیمت کی ادائیگی کے باوجود جہاز پاکستان کو فراہم کرنے سے انکار کردیا تب پاکستان نے اپنے دفاعی شعبے کے لحاظ سے ایک سبق سیکھا اور وہ سبق تھا خود انحصاری کا۔

امریکا کے اس فیصلے سے خطے میں طاقت کا عدم توازن قائم ہونے لگا اور پاکستان کو اپنے دفاعی آلات کے حوالے سے ایک الگ سمت کی جانب دیکھنا پڑا۔

اس دہائی میں پالیسی سازوں نے مقامی سطح پر ہتھیاروں کی تیاری کی منصوبہ بندی کی جو اس قدر کامیاب رہی کہ پاکستان نے نہ صرف مقامی ضروریات کو پورا کرنا شروع کردیا ہے بلکہ یہ ہتھیار عالمی مارکیٹ کا بھی حصہ بننا شروع ہوگئے۔ بس اپنی اسی کامیابی کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لیے سال 2000ء میں پہلی بار انٹرنیشنل ڈیفنس ایگزیبیشن اینڈ سیمینار (آئیڈیاز) کا آغاز کیا گیا اور تب سے اب تک اس کا انعقاد مستقل بنیادوں پر ہورہا ہے۔

ملک کی سب سے بڑی دفاعی نمائش کی میزبانی کے لیے کراچی کا انتخاب ہوا۔ 11ویں آئیڈیاز 15 سے 18 نومبر تک منعقد کی جارہی ہے جو خطے میں دفاعی سازو سامان کی نمائش کا سب سے بڑا فورم بن گیا ہے۔

آئیڈیاز میں اسلحے کی صنعت سے متعلق مقامی اور غیر ملکی کمپنیوں اور ڈیلرز کو اپنی مصنوعات اور خدمات کو اجاگر کرنے کا موقع ملتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ یہاں دفاعی پیداوار سے متعلق مشترکہ منصوبے، آوٹ سورسنگ اور تعاون پر تبادلہ خیال کے مواقع بھی موجود ہوتے ہیں۔

آئیڈیاز 2022ء ایسے وقت میں منعقد ہورہی ہے جب دنیا میں سیاسی، تجارتی اور دفاعی سطح پر نئے بلاک ابھر رہے ہیں۔ امریکا اور چین کے درمیان تجارتی کشمکش، جنوبی بحیرہ چین میں کشیدگی اور پھر اس سال یوکرین پر روسی حملے نے ایشیائی خطے کے ساتھ ساتھ یورپ میں بھی سلامتی کے خطرات کو بڑھا دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں اس وقت دفاعی اخراجات میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔

دنیا میں اسلحے کی صنعت و تجارت اور دفاعی اخراجات پر نظر رکھنے والے ادارے اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹوٹ (ایس آئی پی آر آئی) کے مطابق سال 2021ء کے اختتام تک دنیا میں سالانہ دفاعی اخراجات تاریخ میں پہلی مرتبہ 2 ہزار ارب ڈالر سے زائد ہوگئے اور دسمبر 2021ء تک دنیا نے دفاع کی مد میں 2 ہزار 113 ارب ڈالر خرچ کیے ہیں۔

اپنے دفاعی اخراجات میں اضافہ کرنے والے ممالک میں امریکا، چین، بھارت، برطانیہ اور روس نمایاں ہیں۔ ایس آئی پی آر آئی کے مطابق گزشتہ سال سے دنیا میں ایک مرتبہ پھر دفاعی شعبے میں اخراجات بڑھ رہے ہیں جس کی بنیادی وجہ اقوامِ عالم میں ایک مرتبہ پھر بڑھتا ہوا باہمی عدم اعتماد ہے۔ صورتحال یہ ہوچکی ہے کہ دفاعی اخراجات سالانہ عالمی جی ڈی پی کے 6.1 فیصد کی شرح سے بڑھ رہے ہیں اور دنیا کی مجموعی پیداوار کا 2.2 فیصد دفاع پر خرچ ہورہا ہے۔

   تصویر: ایس آئی پی آر آئی
تصویر: ایس آئی پی آر آئی

دیکھا جائے تو اس وقت امریکا دنیا میں کہیں بھی جنگ میں مصروف نہیں اور افغانستان سے بھی امریکی افواج کا انخلا مکمل ہوچکا ہے، مگر اس کے باوجود امریکی افواج نے 2021ء میں 801 ارب ڈالر یعنی امریکی جی ڈی پی کا 3.5 فیصد صرف دفاع پر خرچ کیا ہے۔ یہاں یہ بات اہم ہے کہ امریکا کے زیادہ تر اخراجات دفاعی تحقیق پر ہورہے ہیں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکا نئی جنگی ٹیکنالوجی پر کام کررہا ہے۔

روس اس وقت یوکرین کے ساتھ جنگ کررہا ہے اور اس وجہ سے اس کے دفاعی اخراجات میں ہوش ربا اضافہ ہوا ہے، مگر اس جنگ کی تیاری روس نے گزشتہ سال سے ہی شروع کردی تھی اور اپنے بجٹ کو 65 ارب 90 کروڑ ڈالر تک بڑھا دیا تھا جو روسی جی ڈی پی کا 2.9 فیصد ہے۔ اس سے قبل سال 2016ء سے 2019ء کے درمیان روس نے دفاعی اخراجات میں کمی کی تھی۔

برِاعظم ایشیا میں بھی متعدد ملکوں کے دفاعی اخراجات میں اضافہ ہوا ہے جس میں چین سرِفہرست ہے۔ ویسے تو چین گزشتہ 27 سال سے اپنے دفاعی اخراجات میں اضافہ کررہا ہے مگر سال 2021ء میں اس نے 239 ارب ڈالر اپنی افواج پر خرچ کیے جو چینی جی ڈی پی کا 4.7 فیصد ہے۔ چین اپنے قیام کے بعد سے ہی دفاع سے متعلق 5 سالہ پروگرام جاری رکھے ہوئے ہے اور ابھی اس حوالے سے 14واں منصوبہ جاری ہے جو 2025ء میں مکمل ہوگا۔ چین اور بھارت کی مسلح افواج گزشتہ کئی سال سے لداخ، سکم، ڈوکلام اور لائن آف ایکچوئل کنٹرول کے دونوں اطراف آمنے سامنے ہیں۔

جاپان نے دفاعی بجٹ میں 7 ارب ڈالر کا اضافہ کرتے ہوئے اسے 54 ارب ڈالر کردیا ہے۔ اس اضافے کی بنیادی وجہ چین ہے کیونکہ جاپان سمندروں میں چین کی قائم ہوتی بالادستی سے خائف ہے۔ اسی کے ساتھ آسٹریلیا کا فوجی بجٹ بھی 31 ارب 80 کروڑ ڈالر ہوگیا ہے۔ آسٹریلیا چین کا مقابلہ کرنے کے لیے امریکا سے 128 ارب ڈالر مالیت کی 8 ایٹمی آبدوز حاصل کررہا ہے۔

وسطی اور مغربی یورپ میں دفاع پر خرچ کرنے والا سب سے بڑا ملک جرمنی ہے جس نے 2021ء میں 56 ارب ڈالر خرچ کیے ہیں۔ قطر کے دفاعی اخراجات میں بھی اضافہ ہوا ہے جو 11 ارب ڈالر سے تجاوز کرگئے ہیں۔

دنیا میں دفاع پر ہونے والے اخراجات کے حوالے سے بھارت 76 ارب 60 کروڑ ڈالر کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔ سال 2012ء سے اس کے دفاعی اخراجات میں 33 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔

دفاعی اخراجات میں اضافے کے اس تجزیے کا جائزہ لینا اس لیے اہم ہے کہ دنیا میں اگر تیزی سے دفاعی اخراجات بڑھ رہے ہیں اور ہر ملک اپنے اپنے دفاع کے حوالے سے فکر مند ہے تو ایسے میں دفاعی نمائش آئیڈیاز خطے کے ممالک کو ایک موقع فراہم کرتی ہے کہ وہ کس طرح مغربی ملکوں پر انحصار کیے بغیر انتہائی کم قیمت پر معیاری دفاعی مصنوعات حاصل کرسکتے ہیں۔ یہ نمائش دفاعی سفارتکاری میں اہم ترین تصور کی جاتی ہے۔

ڈائریکٹر جنرل ڈیفنس پرموشن آرگنائزیشن (ڈیپو) میجر جنرل عارف ملک ہلال امتیاز (ملٹری) سے ہونے والی حالیہ ملاقات میں ان کا یہی کہنا تھا کہ ’آئیڈیاز دراصل دفاعی سفارتکاری کا ایک بڑا اور اہم موقع ہوتا ہے۔ یہ نمائش عالمی برادری کے سامنے پاکستان کو ایک جدید، ترقی یافتہ اور پُرامن بقائے باہمی پر یقین رکھنے والی ریاست کے طور پر اجاگر کرنے کا بھی موقع فراہم کرتی ہے۔ اس سال 106 ممالک کو آئیڈیاز میں شرکت کے لیے مدعو کیا گیا ہے جن میں آسٹریا اور رومانیہ پہلی مرتبہ شریک ہوں گے‘۔

اس سال کے سمینار کا موضوع دفاعی شعبے میں آرٹیفیشل انٹیلیجنس ہے۔ اس ٹیکنالوجی سے دفاعی شعبے میں ایک کلیدی تبدیلی ممکن ہے۔ اس سیمنار میں وزرا، وزارتِ دفاع کے اعلٰی حکام، دفاعی ٹیکنالوجی سے متعلق ادارے، اس شعبے کی تدریس سے متعلق افراد، محققین اور دفاعی تجزیہ کار شرکت کررہے ہیں۔ اس سیمنار میں پاکستانی جامعات کے 6 مقالے بھی پیش کیے جائیں گے۔

آئیڈیاز کا سال 2000ء میں پہلی مرتبہ انعقاد کیا گیا اور تب سے اب تک ہر نمائش میں ملکی اور غیر ملکی دفاعی صنعت کی کمپنیوں کی شرکت بڑھ رہی ہے۔ پہلی آئیڈیاز میں شامل کمپنیوں کی تعداد 100 سے کچھ زائد تھی جو 2018ء میں بڑھ کر 500 سے زائد ہوگئی تھی۔ اس نمائش میں افریقہ، امریکا، ایشیائی ممالک، وسطی ایشیائی ممالک، یورپ اور مشرق وسطیٰ کے ممالک بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔

آئیڈیاز میں پاکستان مقامی طور پر تیار ہونے والے ہمہ جہت جنگی ہتھیاروں کی نمائش کرتا ہے۔ ان میں فضائی جنگ کے لیے تیار کردہ جے ایف 17 تھنڈر کے علاوہ لڑاکا پائلٹس کی تربیت کے لیے مشاق، سپر مشاق اور کے 8 طیارے بھی نمائش کے لیے پیش کیے جاتے ہیں۔

   آئیڈیاز نمائش میں موجود جے ایف 17 تھنڈر طیارہ— تصویر: اے ایف پی
آئیڈیاز نمائش میں موجود جے ایف 17 تھنڈر طیارہ— تصویر: اے ایف پی

آئیڈیاز میں شریک مندوبین پاکستان نیوی کے مقامی سطح پر تیار ہونے والے آلات کا جائزہ پاک نیوی ڈاک یارڈ اور کراچی شپ یارڈ اینڈ انجینیئرنگ ورکس پر لیتے ہیں جہاں چھوٹے اور درمیانے درجے کے بحری جہازوں کی تیاری کے علاوہ آبدوزیں بھی تیار کی جاتی ہیں۔

اس کے علاوہ یہاں جدید او پی وی، میزائل بوٹس، بارودی سرنگیں تلاش کرنے والے بحری جہاز، فریگیٹ، ہمہ جہت استعمال ہونے والے جنگی بحری جہاز اور دیگر اسلحے کی تیاری اور مرمت و دیکھ بھال بھی کی جاتی ہے۔ یہاں مغربی ممالک کم اخراجات میں مرمت اور اپ گریڈیشن کی سہولت سے بھی مستفید ہوسکتے ہیں۔

پاکستان میں بری افواج کے لیے مقامی طور پر تیار کردہ الخالد ٹینک میں متعدد ممالک دلچسپی لے رہے ہیں۔ یاد رہے کہ اسے مین بیٹل ٹینک قرار دیے جانے کے ساتھ ساتھ دنیا کے جدید ٹینکوں میں بھی شمار کیا جاتا ہے۔ میں چند سال قبل فائر پاور ڈیمو میں الخالد ٹینک کو چلتے چلتے گولا فائر کرتے اور ٹھیک نشانہ لگاتے دیکھ چکا ہوں۔

ہلکی جنگ کے لیے الضرار، بکتر بند سعد جیسے بڑے ہتھیاروں کے علاوہ پی او ایف میں تیار کردہ ویپن سسٹم، چھوٹے ہتھیار، بارود، میزائل اور میزائل کی ری لائفننگ کی سہولت کو بھی نمائش میں پیش کیا جائے گا۔ ری لائفننگ سے مراد کسی میزائل کو دوبارہ قابلِ استعمال بنانا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ میزائل میں لگی بیٹریاں اور دیگر آلات قابلِ استعمال نہیں رہتے جنہیں تبدیل کرکے میزائل کو دوبارہ قابلِ استعمال بنالیا جاتا ہے یوں پورے میزائل کو تبدیل کرنے سے بچا جاسکتا ہے۔

   آئیڈیاز 2022ء میں نمائش کے لیے موجود الضرار ٹینک اور دیگر بکتر بند گاڑیاں— تصویر: وائٹ اسٹار
آئیڈیاز 2022ء میں نمائش کے لیے موجود الضرار ٹینک اور دیگر بکتر بند گاڑیاں— تصویر: وائٹ اسٹار

دفاعی شعبے میں ہتھیاروں کا ہونا ہی کافی نہیں ہے بلکہ اس کے لیے افواج کے اندر جوش، جذبے، نظم و ضبط کے ساتھ ساتھ ان ہتھیاروں کو بہتر طریقے سے چلانا سب سے زیادہ ضروری ہے۔ پاکستانی مسلح افواج نے بری، بحری اور فضائی جنگ کی تربیت کے جو مراکز قائم کیے ہیں وہ خطے میں سب سے زیادہ بہترین تصور کیے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ متعدد دوست ملکوں کے فوجی افسران پاکستان میں تربیت پاکر اپنی اپنی مسلح افواج میں اعلیٰ ترین عہدوں پر پہنچ چکے ہیں۔

پاکستان میں بری افواج کی تربیت کے لیے سب سے مشہور پاکستان ملٹری اکیڈمی ہے۔ جبکہ بری افواج کے اعلیٰ افسران کی تربیت کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج کوئٹہ میں کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ اسٹریٹجک تربیت کے لیے نیشنل ڈیفنس یورنیورسٹی قائم ہے۔ پاک فضائیہ کے پائلٹس، افسران اور ایئر مینز کی تربیت کے لیے رسالپور میں تربیتی مرکز قائم ہے جبکہ نیوی کے پی این ایس ہمالیہ، نیوی وار کالج اور سمندری غوطہ غوری کے جیسے مراکز قائم ہیں۔

اس صدی میں اقوام کو دہشتگردی کا بھی سامنا ہے۔ اس میں شہروں کے اندر لڑائی یعنی Urban Warfare کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ لڑائی روایتی جنگ سے یکسر مختلف اور دشوار ہوتی ہے۔ پاکستان نے چند سال کے قلیل عرصے میں دہشتگردی کے خلاف جنگ میں کامیابی حاصل کی ہے اور دنیا کی تاریخ میں پاکستان وہ واحد ملک ہے جس نے اندرونی خلفشار کو ختم کیا۔ مگر اس جنگ سے یہ سبق بھی سیکھا کہ بیرونی دشمن کے ساتھ ساتھ اندرونی دشمن کے خلاف بھی تیاری مکمل رکھنی چاہیے۔

اس کام کے لیے پبی میں نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم سینٹر (این سی ٹی سی) قائم کیا گیا ہے جہاں انسداد دہشتگردی کی مکمل تربیت دی جاتی ہے۔ آپریشن ضربِ عضب کی کامیابی کے بعد دوست ملکوں کی جانب سے اپنی مسلح افواج کی یہاں تربیت کی درخواست کی گئی ہے۔ پاکستان، سعودی عرب، بحرین چین اور اردن کے ساتھ انسدادِ دہشتگردی کی تربیت اور مشترکہ مشقیں کررہا ہے۔

   گزشتہ��� سال پاکستان اور چین کے فوجی دستوں نے این سی ٹی سی میں مشترکہ مشقیں کیں— اسکرین گریب: ریڈیو پاکستان
گزشتہ سال پاکستان اور چین کے فوجی دستوں نے این سی ٹی سی میں مشترکہ مشقیں کیں— اسکرین گریب: ریڈیو پاکستان

پاکستان دنیا کو دفاعی شعبے میں کم قیمت اور قابل بھروسہ دفاعی ہتھیار ہی نہیں بلکہ مکمل دفاعی نظام فراہم کرنے کے قابل ہوگیا ہے۔ اب ملکوں کو سرحدی دفاع کے ساتھ ساتھ اندرونی خلفشار پر قابو پانے جیسے مسائل کا سامنا ہے جس میں پاکستان دنیا کو اپنے تجربات سے روشناس کروانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ پاکستان کی یہ صلاحیت دنیا میں قیامِ امن کے لیے بہت اہم ہے کیونکہ اگر ملکوں کے درمیان طاقت کا توازن برقرار نہیں رہے گا تو اس سے عالمی امن کو خطرات لاحق رہیں گے۔ اس لیے امن کے لیے ہتھیار اور جنگ کی تیاری سب سے اہم ہے۔

راجہ کامران

راجہ کامران نیو ٹی وی سے وابستہ سینئر صحافی ہیں۔ کونسل آف اکنامک اینڈ انرجی جرنلسٹس (CEEJ) کے صدر ہیں۔ آپ کا ٹوئٹر ہینڈل rajajournalist@ ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (3) بند ہیں

Masood Ahmed Nov 14, 2022 07:44pm
زبردست
Mamoon Nov 15, 2022 09:57am
Very informative topic. Thank you
Raja imran Nov 17, 2022 09:10am
Informative and easy to understand even for layman. Keep it up.