• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کا گردشی قرضوں میں اضافے پر اظہار تشویش

شائع November 9, 2022
قائمہ کمیٹی کا کہنا تھا کہ گزشتہ 7 ماہ سے وفاقی وزر توانائی اجلاس میں شرکت نہیں کر رہے — فائل فوٹو: سینیٹ ویب سائٹ
قائمہ کمیٹی کا کہنا تھا کہ گزشتہ 7 ماہ سے وفاقی وزر توانائی اجلاس میں شرکت نہیں کر رہے — فائل فوٹو: سینیٹ ویب سائٹ

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے توانائی نے اجلاس میں وفاقی وزیر برائے توانائی خرم دستگیر خان کی مسلسل غیر حاضری پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے گردشی قرضوں میں اضافے اور توانائی کے شعبے میں غیر متعلقہ افراد کی تعیناتی پر تشویش کا بھی اظہار کیا۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق سینیٹر سیف اللہ ابڑو کی زیر قیادت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں حکومتی بل ’تعزیرات پاکستان (ترمیمی) بل 2022 کا معاملہ اٹھایا گیا جو اس سے قبل 8 اگست کو سابق وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کی جانب سے پیش کیا گیا تھا اور قومی اسمبلی میں منظور ہوا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: سینیٹ قائمہ کمیٹی: احترام رمضان سے متعلق بل کی منظوری

اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ کمیٹی صرف اس صورت میں اس بل پر غوروفکر کرے گی جب وفاقی وزیر توانائی خرم دستگیر خان اجلاس میں شرکت کریں گے۔

قائمہ کمیٹی نے خرم دستگیر خان کی اجلاس میں عدم موجودگی پر غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ 7 ماہ سے وفاقی وزیر توانائی اجلاس میں شرکت نہیں کر رہے ہیں۔

سینیٹر سیف اللہ ابڑو نے کہا کہ وفاقی وزیر ٹی وی ٹاک شوز میں موجود ہوتے ہیں لیکن افسوس کی بات ہے کہ وہ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں شرکت نہیں کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پچھلے تین برسوں میں توانائی کے شعبے نے اپنی اجارہ داری سے عوام کو تباہ حال کردیا ہے، ہم حیران ہیں کہ وزیراعظم کے مشیر امیر مقام کس صلاحیت کی بنیاد پر پشاور میں الیکٹرک سپلائی کمپنی میں موجود ہیں۔

کے-الیکٹرک کی جانب زیر التوا گردشی قرضے کی ادائیگی پر بات کرتے ہوئے سیف اللہ ابڑو نے کہا کہ ملک میں توانائی کے شعبے کا گردشی قرضہ 2 کھرب 40 ارب روپے تک پہنچ چکا ہے۔

مزید پڑھیں: سینیٹ قائمہ کمیٹی کی افغان ٹرانزٹ تجارت پر سخت پالیسی لاگو کرنے کی ہدایت

ان کا کہنا تھا کہ توانائی کے دو شعبوں میں کام نہ کرنے کی وجہ سے ملکی خزانے کو 42 ارب روپے کا نقصان ہوچکا ہے جبکہ پیداواری صلاحیت میں اضافے کے بجائے ایک سال کے دوران ان کمپنیوں کی موجودہ صلاحیت 7 ہزار میگاواٹ سے کم ہو کر 2 ہزار 100 میگاواٹ تک پہنچ گئی ہے۔

پاور ڈویژن کے تحت مختلف اداروں کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی فہرست کا جائزہ لینے کے دوران کمیٹی کے چیئرمین نے مشاہدہ کیا کہ بورڈز کے اراکین کی تقرری میرٹ کے بغیر کی گئی ہے۔

سینیٹر سیف اللہ ابڑو نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ تمام بورڈ اراکین کی ’سی ویز‘ ایک شخص نے تیار کی ہیں۔

کمیٹی نے پاور ڈویژن میں غیر متعلقہ تعیناتیوں پربرہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر اس طرح کے افراد شعبے میں شامل کیے گئے تو گرڈ اسٹیشنز تباہ ہوجائیں گے۔

سیف اللہ ابڑو نے کہا کہ ملتان الیکٹرک پاور کمپنی کے دو اراکین کا اس شعبے سے کوئی تعلق نہیں ہے، ان میں سے ایک شخص سی این جی اسٹیشن کا مالک ہے جبکہ باقی افراد کے پاس فیکٹریاں ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ تقسیم کار کمپنیوں کے بورڈ کی نمائندگی کرنسی ڈیلرز اور رئیل اسٹیٹ آپریٹرز کر رہے ہوں تو گردشی قرضے میں اضافہ حیرانی کی بات نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کی ایم ڈی کیٹ کے امتحانات دوبارہ لینے کی سفارش

پاور ڈویژن کے حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد ہی بورڈ اراکین کی تعیناتی کی گئی۔

سینیٹر فدا محمد کا کہنا تھا کہ وفاقی وزیر توانائی کی عدم موجودگی میں بیوروکریٹ سے بحث کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے کیونکہ وہ لوگ صرف سیاسی شخصیات کی ہدایت پر عمل کرتے ہیں اور وفاقی وزیر جب تک اجلاس میں شرکت نہیں کریں گے بورڈ میں غیر متعلقہ افراد کی موجودگی کا معاملہ حل نہیں ہوسکے گا۔

اجلاس میں وفاقی وزیر توانائی کی مسلسل عدم موجودگی کا معاملہ وزیر اعظم کی مداخلت کے لیے چیئرمین سینیٹ کے حوالے کردیا گیا۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024