• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:12pm
  • LHR: Zuhr 12:01pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:26pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:12pm
  • LHR: Zuhr 12:01pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:26pm

عمران خان پر حملہ: پنجاب پولیس نے جے آئی ٹی کیلئے افسران کے نام تجویز کردیے

شائع November 9, 2022
نوٹی فکیشن جاری ہونے کے بعد جے آئی ٹی ہائی پروفائل کیس کی تحقیقات شروع کرے گی — فائل فوٹو: عون جعفری
نوٹی فکیشن جاری ہونے کے بعد جے آئی ٹی ہائی پروفائل کیس کی تحقیقات شروع کرے گی — فائل فوٹو: عون جعفری

وزیر آباد میں سابق وزیر اعظم عمران خان پر ہونے والے حملے کی باضابطہ تحقیقات کے سلسلے میں پنجاب پولیس نے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی تشکیل کے لیے 3 افسران کے نام صوبائی حکومت کو تجویز کر دیے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسی کیس سے متعلقہ ایک اور پیش رفت میں پنجاب حکومت نے صوبائی پولیس سربراہ کی حیثیت سے فیصل شاہکار کی کارکردگی پر 'عدم اعتماد' کا اظہار کرتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن اسلام آباد سے ان کی خدمات فوری طور پر واپس لینے کی درخواست کردی۔

یہ بھی پڑھیں: وزیر آباد: لانگ مارچ میں کنٹینر پر فائرنگ، عمران خان سمیت کئی رہنما زخمی، حملہ آور گرفتار

سینئر پولیس اہلکار نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے تصدیق کی کہ محکمہ پولیس نے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان پر قاتلانہ حملے کی تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی کے لیے پنجاب کے ایڈیشنل انسپکٹر جنرل ریاض نذیر گرہ، ڈپٹی انسپکٹر جنرل (انویسٹی گیشن) ناصر ستی اور اسسٹنٹ انسپکٹر جنرل (مانیٹرنگ) احسان الحق کے نام تجویز کیے ہیں۔

پنجاب پولیس کی جانب سے جے آئی ٹی کے لیے نام انسپکٹر جنرل آف پولیس (آئی جی پی) پنجاب فیصل شاہکار کی منظوری کے بعد تجویز کیے گئے ہیں۔

اہلکار نے کہا کہ قواعد کے تحت محکمہ داخلہ پنجاب کے پاس تجویز کردہ پینل کو قبول یا مسترد کرنے اور ان ناموں میں سے کسی نام کو نکالنے اور کسی دوسرے افسر کو شامل کرنے کا اختیار حاصل ہے، اور اسی طرح جے آئی ٹی میں انٹیلی جنس حکام کو شامل کرنا بھی صوبائی حکومت کی صوابدید ہے۔

مزید پڑھیں: عمران خان پر حملے کی تحقیقات کیلئے چیف جسٹس جوڈیشل کمیشن بنائیں، وزیراعظم

اہلکار نے کہا کہ نوٹی فکیشن جاری ہونے کے بعد جے آئی ٹی ہائی پروفائل کیس کی تحقیقات شروع کرے گی، واقعے کے بعد گرفتار ہونے والے مشتبہ افراد جن میں جائے وقوع سے پکڑا گیا ایک شخص بھی شامل ہے، وہ سب پوچھ گچھ کے لیے محکمہ انسداد دہشت گردی کی تحویل میں ہیں۔

پولیس اہلکار نے دعویٰ کیا کہ سینٹرل پولیس آفس (سی پی او) یا وزیر آباد پولیس کو پی ٹی آئی قیادت کی جانب سے پولیس کی جانب سے درج ایف آئی آر پر تحریری اعتراض موصول نہیں ہوا۔

دوسری جانب آئی جی پنجاب کے تبادلے کے معاملے کے حوالے سے صوبائی حکومت نے وفاقی حکومت کو باضابطہ طور پر محکمہ سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن کی جانب سے لکھے گئے خط کے ذریعے آگاہ کیا ہے کہ پی ٹی آئی لانگ مارچ سے غلط طریقے سے نمٹنے اور عمران خان پر حملے کی وجہ سے صوبے کو ان پر اعتماد نہیں رہا۔

صوبائی حکومت کی جانب سے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن اسلام آباد کو لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ صوبائی کابینہ نے 4 نومبر کو ہونے والے اجلاس میں متفقہ طور پر صوبائی پولیس چیف فیصل شاہکار کی کارکردگی، لانگ مارچ سے نمٹنے کے لیے ان کی جانب سے کیے گئے حفاظتی انتظامات و اقدامات پر اور وزیر آباد میں 3 نومبر کو پیش آنے والے واقعے کے بعد عدم اعتماد کا اظہار کیا۔

یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم کا عمران خان کے الزامات پر چیف جسٹس سے فل کورٹ کمیشن بنانے کا مطالبہ

صوبائی حکومت نے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو فیصل شاہکار کی جانب سے وفاقی حکومت کو لکھے گئے خط میں آئی جی کی جانب سے ان کی خدمات واپس لینے کی درخواست کا بھی حوالہ دیا۔

خط میں کہا گیا ہے کہ ’مذکورہ بالا وجوہات کے پیش نظر درخواست کی جاتی ہے کہ صوبائی پولیس چیف فیصل شاہکار کی خدمات صوبہ پنجاب سے واپس لی جائیں۔'

دوسری جانب وفاقی حکومت نے سی سی پی او لاہور کو چوتھا خط لکھا جس میں کہا گیا ہے کہ انہوں نے گزشتہ نوٹی فکیشن کے مطابق اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو رپورٹ نہیں کیا، خط میں انہیں کہا گیا کہ وہ فوری طور پر اپنے عہدے کا چارج چھوڑ دیں۔

سرکاری ذرائع نے بتایا کہ آئی جی پنجاب نے منگل کے روز اپنی سرکاری ذمہ داریاں دوبارہ شروع کیں جب کہ انہوں نے وفاقی حکومت سے صوبے سے اپنی خدمات واپس لینے کی درخواست کی تھی، تاہم انہوں نے سی پی او کا دورہ نہیں کیا اور لاہور میں اپنی سرکاری رہائش گاہ سے ملحق کیمپ آفس سے کام کیا اور پولیس افسران کو ہدایات جاری کیں۔

عمران خان پر حملے کے مقدمے کی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش

ادھر آئی جی پنجاب پولیس نے سپریم کورٹ کے حکم پر عمل کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان پر حملے کی ایف آئی آر درج کرکے رپورٹ عدالت عظمیٰ جمع کرادی۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ کی مداخلت کے بعد بالآخر عمران خان پر حملے کی ایف آئی آر درج

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے عمران خان کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کے دوران آئی جی پنجاب پولیس کو 24 گھنٹوں میں سابق وزیراعظم پر حملے کا مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا تھا اور رپورٹ طلب کی تھی۔

سپریم کورٹ کے حکم پر عمل کرتے ہوئے آئی جی پنجاب نے عمران خان پر قاتلانہ حملہ کی ایف آئی آر اندراج کی رپورٹ جمع کرائی، رپورٹ میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ کے حکم کی روشنی میں عمران خان پر قاتلانہ حملے کا مقدمہ درج کرلیا گیا۔

رپورٹ کے مطابق قاتلانہ حملہ کے مقدمہ میں اقدام قتل کی دفعہ 302 کے ساتھ دہشت گردی کی دفعات 324 بھی شامل کی گئی ہیں، مقدمہ وزیر آباد کے سٹی پولیس اسٹیشن میں درج کیا گیا ہے۔

رپورٹ آئی جی پنجاب کی جانب سے سپریم کورٹ کی لاہور رجسٹری میں رپورٹ جمع کرائی۔

پس منظر

خیال رہے کہ 3 نومبر کو پی ٹی آئی کے لانگ مارچ کے دوران عمران خان پر حملہ ہوا تھا، تاہم اس واقعے کی ایف آئی آر تاحال درج نہیں کی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: ایف آئی آر پر ڈیڈ لاک، عمران خان پر حملے کی تحقیقات میں قانونی پیچیدگیاں آڑے آگئیں

پی ٹی آئی، پولیس کی جانب سے ایف آئی آر درج کرنے میں مبینہ ہچکچاہٹ پر سوالات اٹھا رہی ہے جبکہ پولیس، پارٹی رہنماؤں کی جانب سے اب تک ایف آئی آر درج کرنے کی کوئی درخواست موصول ہونے سے انکار کر رہی ہے۔

سابق وزیر اعظم کی جانب سے ایک اعلیٰ فوجی افسر، وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کے خلاف مقدمہ درج کرنے کے اصرار پر پنجاب کی حکمراں اتحادی جماعتوں (پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ق) کے درمیان ڈیڈلاک برقرار ہے۔

عمران خان نے ایک پریس کانفرنس کے دوران بتایا تھا کہ جن 3 لوگوں پر انہوں نے اپنے قتل کی منصوبہ بندی کرنے کا الزام عائد کیا ہے ان تینوں کے خلاف ایف آئی آر بھی درج نہیں کی جارہی ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ جب تک وزیر اعظم شہباز شریف، وزیر داخلہ رانا ثنااللہ اور ایک اعلیٰ فوجی افسر مستعفی نہیں ہوتے اس وقت تک شفاف تحقیقات نہیں ہو سکتی۔

مزید پڑھیں: اعلیٰ افسر کے خلاف عمران خان کے الزامات بے بنیاد اور ناقابل قبول ہیں، آئی ایس پی آر

شاہ محمود قریشی نے بھی ایک بیان میں کہا تھا کہ عمران خان پر حملے کی ایف آئی آر کے حوالے سے کچھ لوگ بے بس دکھائی دیتے ہیں، سابق وزیراعظم پر حملہ ہوا اور تھانہ لیت و لعل سے کام لے رہا ہے، اگر آئی جی پنجاب، عمران خان پر حملے کی ایف آئی آر درج نہیں کرا سکتے تو عہدہ چھوڑ دیں۔

اس دوران یہ افواہیں بھی گرم ہوئیں کہ ایف آئی آر کے اندراج میں ہچکچاہٹ پر صوبائی حکومت انسپکٹر جنرل آف پولیس (آئی جی پی) فیصل شاہکار کا تبادلہ کرنے جارہی ہے۔

گزشتہ روز فیصل شاہکار نے عہدہ چھوڑنے سے متعلق وفاق کو خط لکھ دیا جس میں انہوں نے لکھا کہ ذاتی وجوہات کی بنیاد پر کام جاری نہیں رکھ سکتا۔

ذرائع کے مطابق فیصل شاہکار نے وزیر اعلیٰ پنجاب کو آگاہ کیا کہ عمران خان پر حملے کی ایف آئی آر کے اندراج میں تاخیر پر بلاجواز تنقید اور اس کے بعد شاہ محمود قریشی کے نفرت انگیز ریمارکس محکمہ پولیس کے لیے ناقابل قبول ہیں۔

واضح رہے کہ وزارت داخلہ نے 25 مئی کے عدالتی حکم کی خلاف ورزی پر عمران کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کرنے کے لیے گزشتہ ہفتے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا، اس درخواست میں حکومت نے سابق وزیر اعظم کو لانگ مارچ کے ذریعے ریاست کے خلاف جہاد کے نام پر امن و امان کی صورت حال بگاڑنے سے روکنے کا حکم بھی طلب کیا تھا۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024