سندھ میں بلدیاتی انتخابات کو دو مرحلے میں کرانے کی درخواست زیر غور ہے، الیکشن کمیشن
جوائنٹ صوبائی الیکشن کمشنر علی اصغر سیال نے کہا ہے کہ سندھ کے بقیہ اضلاع میں بلدیاتی انتخابات منعقد کرنے کی درخواست زیر غور ہے۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق کراچی میں سینٹر فار پیس اینڈ ڈیولپمنٹ اورفریڈرک نعمان فاؤنڈیشن فار فریڈم کے تعاون سے اسٹیک ہولڈرز ڈائیلاگ کی تقریب منعقد کی گئی۔
یہ بھی پڑھیں: حکومت سندھ کا کراچی کے بلدیاتی انتخابات ملتوی کرنے لیے الیکشن کمیشن کو خط
تقریب میں شرکا نے سندھ حکومت سے مطالبہ کیا کہ سندھ میں بلدیاتی حکومت کے نظام کو مستحکم کیا جائے، اس کے علاوہ انتخابات کے دوسرے مرحلے کو فوری طور پر شروع کیا جائے۔
جوائنٹ صوبائی الیکشن کمشنر علی اصغر سیال نے کہا کہ سیکیورٹی اہلکاروں کی کمی کی وجہ سے بلدیاتی انتخابات مزید دو مرحلوں میں ہو سکتے ہیں۔
تقریب میں رکن صوبائی اسمبلی، مقامی حکومت کے منتخب نمائندگان، چیف سیکیورٹی افسر، الیکشن کمیشن آف پاکستان کے نمائندگان اور میڈیا نے شرکت کی۔
تقریب میں نمائندگان نے سندھ میں بلدیاتی انتخابات کی صورتحال اور اس کے انعقاد کے عمل میں خلا کی موجودگی کے ساتھ ساتھ اس قانون میں بہتری اور آنے والے چیلنجز کے حوالے سے بھی تبادلہ خیال کیا۔
مزیدپڑھیں: حکومت سندھ کا تیسری مرتبہ بلدیاتی انتخابات ملتوی کرنے کا مطالبہ
پاک سرزمین پارٹی کے سینئر سیاستدان اور وکیل سید حافظ الدین نے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ کا جزو 112 میں صوبائی حکومت کو لازمی قرار دیا ہے کہ وہ ہر 4 سال بعد صوبائی مالیاتی کمیشن (پی ایف سی) ایوارڈ منعقد کروائے اور صوبائی ریوینیو کے فارمولے کے مطابق تمام اضلاع اور مقامی حکومت ایجنسی کو ان کے مالیاتی حصے تقسیم کیے جائیں۔
انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت گزشتہ 15 سالوں میں صوبائی ریونیو کی تقسیم کے طریقہ کار کو حتمی شکل دینے میں ناکام رہی ہے، قومی مالیاتی کمیشن (این ایف سی ) کے طریقہ کار کے تحت یہ مسئلہ فوری طور پر حل ہونا چاہیے۔
پاکستان مسلم لیگ (فنکشنل) کے شہریار خان مہر نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 140-اے کے تحت بلدیاتی حکومت کے نظام کو بااختیار بنانے کی فوری ضرورت ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ صوبائی حکومت سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ (ایس ایل جی اے) 2013 پر عمل نہیں کررہی، صوبے میں سیلاب اور اس سے ہونے والی تباہی سے نمٹنے کے لیے منصوبہ بندی بنانے کے حوالے سے بنیادی کردار بلدیاتی حکومت کا ہے لیکن بلدیاتی حکومت کے پاس اختیارات نہ ہونے کی وجہ سندھ حکومت ریلیف اور بحالی کا کام سرانجام نہیں دے سکی۔
یہ بھی پڑھیں: سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے کا شیڈول جاری
سابق وفاقی وزیر اور سینئر سیاستدان رضا ہارون نے اس بات پر زور دیا کہ بلدیاتی نظام کے تحفظ کے لیے آئین میں ترمیم کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ بھارت کے پاس بہترین بلدیاتی نظام موجود ہے اور اس نظام پر پاکستان میں بھی عمل درآمد کیا جانا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ میٹروپولیٹن اور ضلعی حکومت کے لیے جہاں تک میئر یا چیئرمین کے ماتحت میونسپل اور شہری کاموں کے لیے بلدیاتی قیادت کو آئین کے باب 4 میں لاگو کرنے کی ضرورت ہے۔
سینئرمعاشی ماہر قیصر بنگالی نے کہا کہ کراچی کی سیاسی قیادت اور سول سوسائٹی سندھی قیادت ساتھ مل کرمضبوط اور بااختیار بلدیاتی حکومت بنانے کے لیے مہم شروع کرنی چاہیے۔
متحدہ قومی مومنٹ کے رکن صوبائی اسمبلی منگلا شرما نے کہا کہ بلدیاتی حکومت کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا لیکن بغیر کسی تاخیر کے انتخابات ہونے چاہیے، انہوں نے بلدیاتی حکومت میں خواتین کی شرکت میں اضافے، عوامی محکمے اور مذہبی اقلتیوں کے تحفظ پر بھی زور دیا۔
مزید پڑھیں: الیکشن کمیشن کا کراچی میں بلدیاتی انتخابات ایک بار پھر ملتوی کرنے کا فیصلہ
سندھ سروس اور لوکل گورنمنٹ اکیڈمی کے ڈائریکٹر عبدالناصر صدیق نے کہا کہ بلدیاتی حکومت کی سطح پر شکایت سیل بنانے کے لیے سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ (ایس ایل جی اے) 2013 میں ترمیم کی جائے۔
عبدالناصر صدیق نے کہا کہ بلدیاتی حکومت کی سطح پر شکایت سیل نہ ہونے کی وجہ سے شہر وفاقی سطح پر بنائے گئے شکایت سیل پر رابطہ کررہے ہیں۔
این ای ڈی یونیورسٹی کراچی کے پروفیسر ڈاکٹر نعمان احمد نے کہا کہ بلدیاتی حکومت کے بغیر جمہوریت مستحکم نہیں ہوسکتی، بلدیاتی حکومت تمام جمہوریتی ڈھانچوں کا مرکز ہے، منتخب بلدیاتی نظام کی وجہ سے ہی مضبوط، قطعی اور مخلص قیادت ظاہر ہوتی ہے۔
سی پی ڈی آئی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر مختار احمد علی نے بتایا کہ جامعہ کراچی میں سال 2013 میں انتظامی اور بلدیاتی ڈپلومہ پروگرام شروع ہوا تھا لیکن بعد میں بغیر کسی وجہ کے پروگرام میں داخلے بند کردیے گئے۔