برطانیہ میں ’رشی راج‘ پر برٹش پاکستانی کیا رائے رکھتے ہیں؟
رواں سال اکتوبر کا آخری ہفتہ برطانیہ میں تاریخی اہمیت کا حامل تھا جب برطانوی تاریخ کے کم عمر ترین اور پہلے غیر سفید فام شخص، 42 سالہ رشی سوناک کو برطانیہ کا وزیرِاعظم چنا گیا۔ وہ محض 45 دن تک وزیرِاعظم رہنے والی لز ٹرس کے مستعفی ہونے کے بعد وزیرِاعظم منتخب ہوئے اور یوں برطانیہ ایک نئے دور میں داخل ہوگیا۔
عقیدے کے لحاظ سے ہندو اور خاندان کے بھارتی پس منظر کی وجہ سے بھارتی اخبارات نے اس واقعہ کو واضح اور انوکھی کوریج دی۔ اس نئے دور کو ’رشی راج‘ کہہ کر پکارا گیا اور اس خبر کو دیوالی کا سب سے بڑا تحفہ قرار دیا گیا۔
برطانیہ میں رہنے والی بھارتی اور ہندو برادری نے بھی اس خبر پر کُھل کر خوشی کا اظہار کیا اور اسے ایک نئے دور کا آغاز قرار دیا۔ رشی سوناک خود بھی ہندو مذہب کے باعمل پیروکار کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں اور وہ اپنے عقیدے کے اظہار سے ہچکچاتے نہیں۔ وزیرِاعظم بننے سے قبل اور بعد میں بھی وہ اپنے رسوم و رواج پر عمل کرتے رہے ہیں۔
رشی سوناک وزیرِاعظم بننے سے قبل وزیرِ خزانہ رہ چکے ہیں اور اپنی معاشی پالیسیوں کی وجہ سے خبروں میں بھی رہے ہیں لیکن وزارتِ عظمٰی کی مہم کے دوران انہوں نے انتہا پسندی کے حوالے سے بھی اپنی پالیسی واضح کی اور ملک کو ’اسلامی انتہاپسندی‘ سے بچانے کے لیے بھرپور کردار ادا کرنے اور انتہا پسندی کی تعریف کو وسعت دینے کے منصوبہ کا بھی اعلان کیا۔ البتہ وزیرِاعظم بننے کے بعد انہوں نے تاحال اس حوالے سے کوئی پالیسی اختیار نہیں کی اور سرکردہ برطانوی مسلم کمیونٹی رہنماؤں نے بھی ان کے اس اعلان کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔
مزید پڑھیے: رشی سوناک، کینیا اور ’نیا برطانیہ‘
وزیرِاعظم بننے سے قبل بورس جانسن بھی مسلم خواتین سے متلعق ایک انتہائی متنازع بیان دے چکے ہیں جس کی بازگشت ان کے دورِ اقتدار میں بھی سنی جاتی رہی لیکن بطور وزیرِاعظم انہوں نے کسی قسم کی بے احتیاطی کا مظاہرہ نہیں کیا اور دیگر کمیونٹیز کے تہواروں کی طرح برطانوی مسلم کمیونٹی کے تہواروں پر بھی مبارکباد کے بھرپور پیغامات دیے اور گاہے بگاہے ان تہواروں میں شریک بھی ہوتے رہے۔
اس قسم کے عمل کا مظاہرہ کرنا برطانیہ جیسے کثیر الثقافتی و کثیر الجہتی معاشرے میں ویسے بھی بہت ضروری ہے تاکہ تمام کمیونٹیز کو آپس میں جوڑ کر رکھا جاسکے۔ یوں امید کی جارہی ہے کہ رشی سوناک بھی کسی خاص کمیونٹی کے نمائندہ وزیرِاعظم بننے کے بجائے پورے برطانیہ کے وزیرِاعظم بننا پسند کریں گے اور اپنی معاشی پالیسیوں کے ساتھ ساتھ سماجی پالیسیوں کے انتخاب میں بھی احتیاط سے کام لیں گے۔
اس حوالے سے لندن کے میئر صادق خان کی مثال یقیناً قابلِ تقلید ہے جو برطانوی معاشرے کی ہر اکائی کے تہواروں میں بھرپور شریک ہوتے ہیں اور انہیں لندن کی تعمیر و ترقی کے لیے اپنے ساتھ جوڑ کر رکھتے ہیں۔
برطانیہ میں رشی سوناک کے وزیرِاعظم بننے کے بعد ہم نے خاص طور پر برطانیہ میں مقیم پاکستانی برٹش کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے افراد سے گفتگو کی اور جاننے کی کوششش کی کہ وہ اس امر کو کیسے دیکھتے ہیں اور اس بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں۔
راجہ ذیشان ایک سماجی کارکن ہیں اور گزشتہ ایک عشرے سے برطانیہ میں مقیم ہیں۔ ذیشان رشی سوناک کے برطانوی وزیرِاعظم بننے کو ایک تاریخی لمحہ قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایک غیر سفید فام کا برطانوی وزیرِاعظم بن جانا غیر معمولی واقعہ ہے اور اس کا سہرا کنزرویٹو پارٹی کے سر جاتا ہے۔ وہ رشی سوناک کے وزیرِاعظم بننے کو برطانوی معاشرے کا حُسن سمجھتے ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ اس عمل سے کنزرویٹو پارٹی نے خود پر سے فقط سفید فام دائیں بازو کی جماعت ہونے کے لیبل کو دھونے کی بھی کوشش کی ہے۔
مزید پڑھیے: لز ٹرس کا اچانک استعفیٰ: برطانیہ میں آخر ہو کیا رہا ہے؟
رشی سوناک کے آنے سے برطانوی معیشت کو کچھ سنبھالا ملے گا یا نہیں؟ اس بارے میں ذیشان سمجھتے ہیں کہ رشی سوناک سے بہت زیادہ امیدیں نہیں باندھ لینی چاہئیں کیونکہ وہ اس سے پہلے چانسلر کے عہدے یعنی خزانہ کے انچارج بھی رہ چکے ہیں اور برطانیہ کی معاشی سمت جس طرف جارہی ہے اس میں کچھ قصور یقیناً رشی سوناک کی پالیسیوں کا بھی ہے۔
دوسری طرف 45 سالہ برطانوی شہری محمد افضل کا کہنا ہے کہ برطانیہ ایک کثیر القومی معاشرہ ہے اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یہاں کے وزیرِاعظم کا رنگ اور مذہب کیا ہے۔ اگر وہ عوام کو ریلیف دے سکتا ہے تو بہت خوب لیکن اگر وہ عوام کی مشکلات میں اضافے کا سبب بنتا ہے تو کسی کو بھی اس کے رنگ و صورت سے کچھ لینا دینا نہیں۔
محمد افضل کے خیال میں رشی سوناک کی پہلی کوشش ہوگی کہ وہ لڑکھڑاتی ہوئی برطانوی معیشت کو سہارا دیں اور عوام کو عارضی ریلیف دینے کے فوراً بعد عام انتخابات کروائیں تاکہ ان کی اقتدار پر گرفت مضبوط ہوسکے۔
یاد رہے کہ برطانوی میڈیا میں اکثر تجزیہ نگار اس بات کا اظہار کرچکے ہیں کہ رشی سوناک نے ایک مشکل وقت میں اقتدار سنبھالا ہے اور اگر وہ معاشی حالات میں معمولی سی بھی بہتری لاکر عام انتخابات کی جانب جاتے ہیں تو یہ اگلے انتخابات میں ان کی کامیابی کا باعث بن سکتا ہے۔ اس سے قبل بورس جانسن بھی یہ قدم اٹھا چکے ہیں اور تھریسا مے کے استعفے کے بعد جب انہوں نے اقتدار سنبھالا تو ایک واضح اور عوامی مینڈیٹ کے حصول کے لیے بورس جانسن عوام کے پاس گئے اور کنزرویٹو پارٹی کو ایک تاریخی فتح دلوائی۔
مغربی لندن میں مقیم 36 سالہ سعدیہ، رشی سوناک کو درپیش چیلنجز کے حوالے سے کہتی ہیں کہ انہیں ایشیائی پس منظر رکھنے کے باوجود ملک کا وزیرِاعظم منتخب کیا جانا خوش آئند ہے لیکن صرف اتنا ہی کافی نہیں بلکہ رشی سوناک کو چاہیے کہ وہ برطانیہ میں موجود تمام اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ خاص کر گزشتہ عرصے میں جس طرح برطانوی معاشرے میں اسلاموفوبیا بڑھ رہا ہے اور لوگوں کو ان کے عقیدے کی وجہ سے نشانہ بنایا جارہا ہے، امید ہے کہ رشی سوناک اس جانب بھی توجہ دیں گے۔
لندن ہی سے تعلق رکھنے والے سہیل ضرار، رشی سوناک کے وزیرِاعظم منتخب ہونے پر کافی پُرجوش ہیں۔ سہیل کا کہنا ہے کہ وہ ایشیائی پس منظر سے تعلق رکھنے والے شخص کو ملک کا وزیرِاعظم بنتا دیکھ کر کافی خوش ہیں اور انہیں فخر ہے کہ وہ ایک ایسے ملک کا حصہ ہیں جہاں کوئی بھی شخص اپنی صلاحیت کی بنیاد پر آگے بڑھ سکتا ہے اور ملک کا سب سے اہم عہدہ بھی حاصل کرسکتا ہے۔
مزید پڑھیے: آبادیاتی تبدیلی یورپی سیاست پر کس طرح اثر انداز ہوسکتی ہے؟
سہیل کے خیال میں رشی سوناک کا وزیرِاعظم بننا دراصل ہر ایشیائی شخص کے لیے خوشی کا باعث ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ رشی سوناک کے وزیرِاعظم بننے کے دُور رس نتائج سامنے آئیں گے اور انہیں امید ہے کہ جس طرح رشی سوناک خود اور ان کا خاندان ایک اچھا کاروباری خاندان ہے ویسے ہی وہ برطانیہ کی بگڑتی ہوئی معیشت کو بھی سنبھالا دے کر اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔
لیبر پارٹی سے تعلق رکھنے والے کونسلر معظم علی سندھو، سہیل سے الگ رائے رکھتے ہیں۔ معظم اگرچہ رشی سوناک کے وزیرِاعظم کے عہدہ پر پہنچنے کو خوش آئند سمجھتے ہیں اور انہیں اس میں ملک کی دیگر اکائیوں کے لیے ایک امید کی کرن دکھائی دے رہی ہے لیکن ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگرچہ رشی سوناک دیکھنے میں بظاہر ہم جیسے ہیں لیکن وہ ہمارے طبقے سے تعلق نہیں رکھتے۔ انہیں عام افراد کی مشکلات کا ادراک نہیں اور وہ نہیں جانتے کہ دودھ، چینی اور دیگر ضروریاتِ زندگی کی قیمتیں کس انتہا کو چُھو رہی ہیں۔
معظم علی سندھو کے خیال میں برطانیہ کے روز بروز بڑھتے مسائل کا فوری حل عام انتخابات ہیں تاکہ عوامی رائے اور مینڈیٹ سے نئی حکومت بنے اور وہ تمام معاملات خاص کر معاشی معاملات کو حل کرنے کے لیے واضح حکمتِ عملی اپنا سکے۔
ملک کی دیگر اکائیوں کی طرح پاکستانی پس منظر سے تعلق رکھنے والے افراد کی بڑی تعداد بھی رشی کی آمد کو مثبت انداز میں دیکھتے ہیں۔ رشی سوناک کا برطانیہ کے اہم ترین عہدے پر پہنچنا اگرچہ ایک تاریخی لمحہ ہے اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے اسے سراہا ہے لیکن یہ حالیہ برطانوی تاریخ میں واحد واقعہ نہیں۔ اس سے قبل صادق خان کا برطانوی دارالحکومت کا میئر منتخب ہونا یا پھر گزشتہ حکومتوں کے دوران کابینہ میں ایشیائی اور سیاہ فام ممبران کو اہم ذمہ داریاں دینا اس بات کا ثبوت ہے کہ آج کا برطانیہ ہر عقیدے، رنگ اور نسل سے تعلق رکھنے والے افراد کے لیے اپنی بانہیں پھیلائے کھڑا ہے۔