پارلیمانی کمیٹی نے جسٹس اطہر من اللہ کی بطور سپریم کورٹ جج منظوری دے دی
قومی اسمبلی کی پارلیمانی کمیٹی نے جسٹس اطہر من اللہ کی بطور سپریم کورٹ جج کے لیے نام کی منظوری دے دی۔
اعلیٰ عدلیہ میں ججز کی تقرریوں کے حوالے سے قائم پارلیمانی کمیٹی کا فہمیدا مرزا کی زیر صدارت اجلاس ہوا، جہاں سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے لیے جوڈیشل کمیشن کی سفارشات کا جائزہ لیا گیا۔
مزید پڑھیں: جوڈیشل کمیشن کی جسٹس اطہرمن اللہ اور 2 جونیئر ججز کی سپریم کورٹ میں تعیناتی کی سفارش
پارلیمانی کمیٹی نے سپریم کورٹ کے ججز اور چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کے نام کی منظوری پر بحث کے بعد جسٹس اطہر من اللہ کے بطور سپریم کورٹ جج کے لیے نام کی منظوری دے دی۔
پارلیمانی کمیٹی نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے نئے چیف جسٹس کے لیے جسٹس عامر فاروق کے نام کی منظوری بھی دی۔
سپریم کورٹ کے لیے جسٹس شاہد وحید اور جسٹس سید حسن اظہر کے ناموں کی منظوری 10 نومبر کو ہونے والے اجلاس میں دی جائے گی۔
واضح رہے کہ جوڈیشل کمیشن نے سپریم کورٹ کے لیے جسٹس شاہد وحید، جسٹس سید حسن اظہر کے ناموں کی بھی سفارش کر رکھی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا چیف جسٹس کو خط، جونیئر ججز کی نامزدگی واپس لینے کی درخواست
24 اکتوبر کو جوڈیشل کمیشن آف پاکستان (جے سی پی) نے ساڑھے 3 گھنٹے تک جاری رہنے والے اجلاس کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کو سپریم کورٹ میں ترقی دینے کی تجویز متفقہ طور پر منظور کی تھی، جبکہ ہائی کورٹ کے 3 ججوں میں سے 2 کی ترقی کی منظور اور ایک امیدوار کا نام مسترد کردیا تھا۔
جوڈیشل کمیشن کے اجلاس کی صدارت چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال نے کی تھی۔
اجلاس میں 5 ارکان میں سے وفاق کے 2 نمائندوں سمیت 4 ارکان کی اکثریت نے لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شاہد وحید اور سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس سید حسن اظہر رضوی کے ناموں کی منظوری دی تھی، دونوں اپنی متعلقہ عدالتوں کی سنیارٹی لسٹ میں چوتھے نمبر پر ہیں، جبکہ سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس محمد شفیع صدیقی کا نام خارج کردیا گیا تھا۔
سپرم کورٹ کے سینئر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس سید منصور علی شاہ اور پاکستان بار کونسل (پی بی سی) کے نمائندے اختر حسین نے سپریم کورٹ میں ترقی کے لیے ان تینوں ججز کی نامزدگی کی مخالفت کی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ میں ترقی کیلئے 3 ججوں کے ناموں پر نظرثانی، بار کونسلز کا اعتراض
تاہم چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن، ریٹائرڈ جسٹس سرمد جلال عثمانی، اٹارنی جنرل اشتر اوصاف اور وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے ان نامزدگیوں کی حمایت کی۔
سندھ ہائی کورٹ کی سنیارٹی لسٹ میں چھٹے نمبر پر موجود جسٹس محمد شفیع صدیقی کا نام اس وقت خارج کردیا گیا جب اجلاس کے دوران ریٹائرڈ جسٹس سرمد جلال عثمانی نے توجہ دلائی کہ سندھ ہائی کورٹ کے تیسرے سینئر ترین جج جسٹس عقیل احمد عباسی زیادہ قابل ہیں اور ان کی کارکردگی دیگر کے مقابلے میں بہت بہتر ہے۔
اجلاس کے آخر میں جسٹس اطہر من اللہ کے نام پر غور کیا گیا اور اتفاق رائے سے منظوری دی گئی۔
جوڈیشل کمیشن کے اجلاس کا بیشتر وقت اس گرما گرم بحث میں گزر گیا تھا کہ جب جوڈیشل کمیشن کے 28 جولائی کو ہونے والے اجلاس میں ان ناموں کو پہلے ہی مسترد کیا جاچکا تھا تو وہی نام دوبارہ کیوں تجویز کیے گئے۔
مزید پڑھیں: ججز کی تعیناتی پر چیف جسٹس کی جلد بازی سوالیہ نشان ہے، جسٹس فائز عیسیٰ
ایک موقع پر اٹارنی جنرل کو وضاحت کرنا پڑی کہ 28 جولائی کو ہونے والے اجلاس میں انہوں نے امیدواروں کے نام واضح طور پر مسترد کرنے کے بجائے اجلاس ملتوی کرنے کی تجویز دی تھی۔
ملاقات سے چند روز قبل جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایک اور خط کے ذریعے چیف جسٹس سے ان 3 جونیئر ججوں کے نام واپس لینے کی درخواست کی تھی جنہیں جوڈیشل کمیشن کی جانب سے 28 جولائی کو ہونے والے اجلاس میں پہلے ہی مسترد کیا جا چکا ہے۔