• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm

فسٹولا کیوں اور کیسے بنتا ہے؟

شائع November 2, 2022

خبر ہے جنوبی پنجاب اور سندھ میں 85 فیصد عورتیں گھروں میں زچگی کے عمل سے گزرتی ہیں اور ان کی بڑی تعداد زچگی کے بعد فسٹولا کا شکار ہوجاتی ہیں۔

فسٹولا والی عورتیں عموماً طلاق دے کر گھر سے نکال دی جاتی ہیں۔ پیشاب و پاخانے پر جسم کا کنٹرول نہ ہونے سے جو تعفن پھیلتا ہے اسے اردگرد والے بھلا کیوں برداشت کریں؟

تو فسٹولا آخر ہے کیا؟

ہوسکتا ہے آپ نے پرانے وقتوں میں دو گھروں کے بیچ بنی دیوار میں ایک سوراخ دیکھا ہو جو دونوں طرف کے مکینوں میں رابطے کا ذریعہ ہو۔ کبھی گپ شپ، کبھی ساگ اور کبھی لسی، ادھر سے اُدھر اور پھر اُدھر سے ادھر۔

فسٹولا ایک ایسے ہی سوراخ کا نام ہے جو رحم (بچے دانی یا uterus)، مثانے(urinary bladder)، ویجائنا (vagina) اور مقعد (Rectum) کے درمیان بن کر پیشاب اور پاخانے پر انسانی کنٹرول ختم کردیتا ہے۔

مزید پڑھیے: دائی کی سلائی !

خواتین میں فسٹولا بننے کی سب سے بڑی وجہ پیٹ میں موجود بچے کا سر ہے۔ چھوٹے فٹبال جیسی گول ہڈی جسے بچے دانی، مثانے اور مقعد کے درمیان سفر کرتے ہوئے دنیا میں جنم لینا ہے۔

انسانی پیٹ کے نچلے حصے میں مثانہ اور مقعد اس لیے رکھا گیا ہے کہ فضلات آسانی سے باہر خارج کیے جاسکیں۔ عورت کے پیٹ میں مثانے اور مقعد کے بیچ میں بچے دانی جس کا منہ نیچے ویجائنا میں کھلتا ہے، اس کا مقصد بھی یہی ہے یعنی آسانی سے ماہواری کے خون کا اخراج اور پھر زچگی میں بچے کی آمد۔

9 ماہ کے اختتام پر نارمل حمل وہ سمجھا جاتا ہے جس میں بچے کا سر نیچے ہو اور ٹانگیں اوپر۔ درد زہ کے دوران بچے دانی کے منہ پر بچے کا سر وزن ڈال کر اسے کھلنے میں مدد دیتا ہے۔

تصور کیجیے کہ ہڈی سے بنے ہوئے اس سر نے ایک ایسا سفر طے کرنا ہے جس میں اگلی طرف مثانہ ہے اور پچھلی طرف مقعد۔ سر کا وزن یہ دونوں اعضا زچگی کے عمل میں یوں برداشت کرتے ہیں کہ بچے کا سر انہیں بُری طرح پچکا کر رکھتا ہے، خون کم دورہ کرتا ہے اور نتیجتاً پہنچنے والی آکسیجن نارمل سے کم ہوجاتی ہے۔

زچگی کے 3 مراحل ہوتے ہیں جن کا دورانیہ سالہا سال کی ریسرچ سے متعین کیا جا چکا ہے۔

زچگی کی پہلی اسٹیج میں درد زہ شروع ہوتا ہے جس کا نارمل دورانیہ 8 سے 12 گھنٹے کا ہوتا ہے۔ اس مرحلے کے بھی 2 حصے ہیں۔ پہلے حصے میں درد زہ بے باقاعدہ اور کم تکلیف کے ساتھ آتا ہے۔ کم تکلیف والے اس حصے کا دورانیہ ہر عورت کے لیے مختلف ہوتا ہے۔ کسی کے لیے چند گھنٹے اور کسی کے لیے ایک یا 2 دن۔ لیکن جب تک بچے دانی کا منہ 3 سے 4 سینٹی میٹر نہ کھل جائے، اسے زچگی کا باقاعدہ آغاز نہیں سمجھا جاتا۔ یہ وہ حصہ ہے جب خاتون شکایت کرتی ہے کہ شاید زچگی کا عمل شروع ہونے کو ہے، ہلکا ہلکا درد، کافی وقفے کے بعد۔

مزید پڑھیے: چھاتی کا سرطان کیا ہے اور اس سے بچنا کیا ممکن ہے؟

جب درد زہ کی تکلیف بڑھ جائے اور ان کے درمیان کا وقفہ گھٹنے لگے تب جان لیجیے کہ پہلے مرحلے کا دوسرا حصہ شروع ہوگیا۔ ڈاکٹرز اس حصے کی پہچان بچے دانی کا منہ 4 سینٹی میٹر کھل جانے سے کرتے ہیں۔ اس کے لیے ویجائنا کے راستے 2 انگلیاں ڈال کر بچے دانی کے منہ یا سروکس کو ٹٹول کر دیکھا جاتا ہے اور ٹٹولنے کے اس عمل کو پی وی (PV) کہتے ہیں۔ گائناکالوجسٹ کی زندگی میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والا لفظ، پی وی ہے۔

پی وی سے یاد آیا کہ فون پر لیبر روم اسٹاف سے ہمارا یہ سوال کہ پی وی کی کہ نہیں سن سن کر ہماری صاحبزادی بھی سیکھ گئیں۔ معنی تو نہیں سمجھی مگر یہ جان گئی کہ ڈاکٹر کے لیے پی وی کا استعمال بہت ضروری ہے۔ سو جب اپنی گڑیوں کے ساتھ ڈاکٹر ڈاکٹر کھیلتی تو یہ ضرور پوچھتی، پی وی کی کہ نہیں؟

پہلے مرحلے کا اختتام تب ہوتا ہے جب پی وی پر 2 انگلیاں جان لیتی ہیں کہ بچے دانی کا منہ 10 سینٹی میٹر کھل گیا اور بچہ دنیا میں آنے کو تیار ہے۔ پہلے مرحلے کے کسی بھی حصے میں، پہلا حصہ ہو یا دوسرا، زچہ کو زور لگانے کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ رحم کا منہ 10 سینٹی میٹر کھلا ہی نہیں ہوتا اور بچے کو نیچے دھکیلنے کی ضرورت ابھی نہیں ہوتی۔

10 سینٹی میٹر ایک اشارہ ہے کہ زچگی کا دوسرا مرحلہ شروع ہونے کو ہے۔ اس مرحلے میں بچے کو رحم سے سرکتے ہوئے نیچے ویجائنا میں آنا ہے اور اب اسے ماں کی مدد چاہیے۔

زچہ کو اب زور لگانا ہے، نیچے کی طرف۔ رحم تو بچے کو نیچے دھکیل ہی رہا ہے مگر ماں کا پوری قوت سے زور لگانا بھی اسی مرحلے کا ایک حصہ ہے۔ زور لگوانے کی کہانی آپ کو پہلے سنائی جا چکی ہے، دُفعی دُفعی دُفعی۔

اس مرحلے کا عمومی دورانیہ 2 سے 3 گھنٹے ہے جس میں بچہ ہر درد کے ساتھ تھوڑا تھوڑا نیچے سرکتا ہے۔ اندازہ کیجیے کہ 4 انچ لمبی ویجائنا کا سفر اس سر کو تقریباً 2 سے 3 گھنٹے میں طے کرنا ہے۔ زندگی کا پہلا سفر، وہ بھی اس قدر جان لیوا!

پہلا بچہ ہو تو ویجائنا میں بچے کا سر ڈھائی سے 3 گھنٹے تک پھنسا رہتا ہے۔ تنگ سرنگ جیسی ویجائنا درد زہ کے نتیجے میں دھکیلے جانے والے سر کو راستہ تو دیتی ہے لیکن خود لہولہان ہو جاتی ہے۔

اب تھوڑا حساب کتاب کر لیں کہ کتنے گھنٹے کا عمل ہے درد زہ؟

پہلے مرحلے کا دوسرا حصہ: 4 سینٹی میٹر سے 10 سینٹی میٹر۔ ایک سینٹی میٹر ایک گھنٹے میں کھلنا چاہیے سو 6 سینٹی میٹر ہوئے 6 گھنٹے۔

دوسرا مرحلہ: 2 سے 3 گھنٹے

کل مدت زچگی: 6 جمع 3 یعنی 9 گھنٹے۔

یاد رہے کہ یہ پہلے بچے کی زچگی کا دورانیہ ہے۔ دوسرے، تیسرے بچے میں یہ وقت کم ہو جاتا ہے۔

مزید پڑھیے: عورت کے لیے شیلف لائف نامی لفظ استعمال کرنے والوں کو شرم نہیں آتی؟

جب کسی بھی وجہ سے زچگی کا دورانیہ ان گھنٹوں سے بڑھ جائے تو بچے کے سخت سر کا پریشر بچے دانی، مثانے، ویجائنا اور مقعد کی دیواروں کو پہنچنے والی خون کی سپلائی کم کرتے کرتے روک دیتا ہے۔ زندہ عضو کو خون کے ذریعے آکسیجن نہ ملے تو اس عضو یا عضو کے اس حصے کی موت واقع ہونے لگتی ہے جہاں پچھلے 12، 14 گھنٹوں سے دباؤ پڑ رہا ہے۔

مثانے، مقعد، ویجائنا اور رحم کا مردہ حصہ زچگی کے بعد کچھ ہی دنوں میں جھڑ کر وہاں پر ایک سوراخ بنا دیتا ہے۔ لیجیے مثانے کے بیگ میں جو پیشاب جمع ہوتا رہتا تھا اور اس کا خروج مثانے کی مالکن کے ہاتھ میں تھا، اب اس پیشاب کو باہر آنے کے لیے کسی مالکن کی ضرورت نہیں رہی۔ پیشاب اور پاخانہ جب بھی مثانے یا مقعد تک پہنچے گا، بنا کسی رکاوٹ کے ویجائنا سے ہوتے ہوئے باہر کو بہنا شروع کر دے گا۔

یہ ہے زچگی کی سب سے بڑی پیچیدگی جو عورت کو جیتے جی مار دیتی ہے۔

زچگی کیوں مشکلات کا شکار ہوتی ہے؟ اور اس کا وقت کیوں بڑھ جاتا ہے؟ اس کا جواب اگلے بلاگ میں۔

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی پیشے کے اعتبار سے کنسلٹنٹ گائناکالوجسٹ ہیں۔ آپ اردو بلاگ نگاری اور پنجابی زبان میں شاعری بھی کرتی ہیں۔ آپ کی دو کتابیں بعنوان 'مجھے فیمینسٹ نہ کہو' اور 'کنول پھول اور تتلیوں کے پنکھ' بھی شائع ہوچکی ہیں۔ آپ نے گائنی فیمنزم کا خیال پیش کیا ہے۔ آپ سمجھتی ہیں کہ خواتین کو اس وقت تک بااختیار نہیں بنایا جاسکتا جب تک وہ معاشرتی ممنوعات کو توڑتے ہوئے اپنے جسم کے بارے میں کھل کر بات نہ کرسکیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024