دائرہ اختیار کا تنازع، ایف بی آر ڈائریکٹوریٹ کے اختیارات بحال
اسلام آباد ہائی کورٹ (آئی ایچ سی) نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے ذیلی ادارے ’انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن ڈائریکٹوریٹ‘ کے اختیارات کو بحال کرتے ہوئے فیصلہ دیا ہے کہ انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کی کسی بھی شق کے نفاذ کے لیے سیکشن 175 (ایک) کے تحت ڈائریکٹوریٹ کے پاس نوٹس لینے اور جاری کرنے کا قانونی دائرہ اختیار موجود ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک ڈویژن بینچ نے ایف بی آر کے انٹیلی جنس اور تفتیشی ڈائریکٹوریٹ کی انٹرا کورٹ اپیل کو قبول کرتے ہوئے 18 مارچ 2016 کے سنگل جج کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا۔
یہ بھی پڑھیں: ایف بی آر نے ٹریک اور ٹریس سسٹم کے لیے معاہدے پر دستخط کردیے
دوران سماعت بینچ کے سامنے ’انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن ڈائریکٹوریٹ‘ کی نمائندگی ایڈووکیٹ احسن احمد کھوکھر نے کی۔
قبل ازیں ٹیکس دہندہ ’کے کے آئل اینڈ گھی‘ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے سامنے 23 جون 2015 کا ایک نوٹس چیلنج کیا تھا جو انکم ٹیکس آرڈیننس کی دفعہ 175 کے تحت ڈائریکٹوریٹ کی جانب سے جاری کیا گیا تھا۔
درخواست گزار نے دعویٰ کیا کہ یہ نوٹس ’غیر قانونی‘ تھا، دائرہ اختیار اور قانون کے غلط استعمال کی بنیاد پر اسے مسترد کیا جانا لازم ہے۔
ایک رکنی بنچ نے رٹ دائرہ اختیار میں ٹیکس دہندگان کے دلائل کو قبول کیا اور 18 مارچ 2016 کے فیصلے کے ذریعے ایف بی آر کے خلاف فیصلہ دیا، جج نے کہا کہ انکم ٹیکس آرڈیننس کی دفعہ 175 کے تحت ڈائریکٹوریٹ کی جانب سے جاری کیا گیا نوٹس دائرہ اختیار سے باہر تھا۔
مزید پڑھیں: ایف بی آر کی جانب سے ٹیکس وصولی میں اضافے کی حکمت عملی پر غور
بعدازاں ایف بی آر کے ڈائریکٹوریٹ نے انٹرا کورٹ اپیل کے ذریعے متنازع فیصلے کو اسلام آباد ہائی کورٹ ڈویژن بینچ کے سامنے چیلنج کیا۔
ایف بی آر کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ انکم ٹیکس آرڈیننس کے سیکشن 230 کے تحت ڈائریکٹوریٹ قائم کیا گیا تھا جس میں ٹیکس سے متعلق تمام مسائل سے نمٹنے اور ٹیکس چوری، مالیاتی فراڈ اور ریونیو لیکیج سے متعلق معلومات اکٹھی کرنے کی ذمہ داری تھی اور اسی کے مطابق ایف بی آر نے 9 فروری 2015 کو نوٹس جاری کیا جس میں انکم ٹیکس آرڈیننس کی مختلف دفعات کے حوالے سے مزید تفصیلی کاموں کے حوالے سے سیکشن 175 کو بھی شامل کیا گیا۔
وکیل کے مطابق جواب دہندہ ٹیکس دہندگان کو جاری کیا گیا نوٹس قانونی اور دائرہ اختیار میں تھا، انہوں نے دلیل دی کہ ٹیکس دہندگان نے انکم ٹیکس آرڈیننس کے سیکشن 159 کے ساتھ پڑھے گئے آرڈیننس کے سیکشن ڈی 65 کے تحت غلط استثنیٰ کا دعویٰ کیا جس سے ملکی خزانے کو نقصان پہنچا۔
انہوں نے مزید استدلال کیا کہ اگرچہ سیکشن ڈی 65 میں ٹیکس میں چھوٹ دی گئی تھی لیکن اسے سرمایہ کاری اور اسی سیکشن میں تجویز کردہ کچھ دیگر تقاضوں کے ساتھ ہونا لازمی تھا جبکہ موجودہ کیس میں ان تقاضوں کو پورا نہیں کیا گیا بلکہ اس کی خلاف ورزی کی گئی۔
یہ بھی پڑھیں: ایف بی آر کی ٹیکس وصولیوں میں اضافہ، ریٹرن جمع کرانے کی تاریخ میں توسیع
دوسری جانب ٹیکس دہندگان کے وکیل نے اصرار کیا کہ ایف بی آر کا انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن ڈائریکٹوریٹ، آرڈیننس کی دفعہ 175 کے تحت ٹیکس دہندگان کو نوٹس جاری نہیں کرسکتا اور سنگل رکنی بینچ کا دیا گیا حکم قانون کے عین مطابق ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے ڈویژن بینچ نے دونوں جانب سے دلائل سننے کے بعد کہا کہ عدالت کے سامنے واحد زیربحث مسئلہ یہ ہے کہ کیا ایف بی آر کے ڈائریکٹوریٹ آف انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن کی جانب سے آرڈیننس کی دفعہ 175 کے تحت جاری کیا گیا نوٹس قانون کے مطابق تھا یا یہ ایک پروسیجرل سیکشن تھا جسے کسی مخصوص معاملے یا آرڈیننس کی بنیادی دفعہ تک محدود نہیں کیا جا سکتا۔
عدالت نے کہا کہ ایف بی آر کا ذیلی ادارہ ’انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن ڈائریکٹوریٹ‘ انکم ٹیکس آرڈیننس کی کسی شق کو نافذ کرنے کے لیے آرڈیننس 2001 کے سیکشن 175 (ایک) کے تحت کارروائی شروع کر سکتا ہے۔