ترامیم کے بعد جبری گمشدگی کو جرم قرار دینے کا بل دوبارہ قومی اسمبلی سے منظور
قومی اسمبلی نے جبری گمشدگی کو سنگین جرم قرار دینے کا بل کا دوسری مرتبہ منظور کرلیا جبکہ اس میں سے جھوٹی شکایت کرنے والوں کو سزا دینے سے متعلق متنازع دفعہ نکال دی گئی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے فوجداری قوانین (ترمیمی) بل 2022 سے متنازع سیکشن 514 کو واپس لینے پر رضامندی ظاہر کی، جب زیادہ تر حکمراں اتحاد سے تعلق رکھنے والوں سمیت متعدد قانون سازوں نے اس پر احتجاج کیا اور موجودہ شکل میں بل کے حق میں ووٹ دینے سے انکار کر دیا۔
اعظم نذیر تارڑ کے بیان کے بعد وزیر تجارت نوید قمر نے ترمیم پیش کی جس میں متنازع سیکشن کو بل سے خارج کرنے کی کوشش کی گئی جس کا مقصد پاکستان پینل کوڈ 1860 اور ضابطہ فوجداری 1898 میں ترامیم کے ذریعے جبری گمشدگیوں کو جرم بنانا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: جبری گمشدگی سے متعلق بل پر آئی ایس آئی کے ہیڈکوارٹرز میں پیش ہونے کا کہا گیا، شیریں مزاری
بعد میں بل کو ایوان سے متفقہ طور پر منظور کیا گیا جس میں ایک بار پھر واضح طور پر کورم کی کمی تھی، جس کے لیے 86 ارکان کی موجودگی (کل 342 رکنی ایوان کا ایک چوتھائی) ضروری ہے۔
حذف شدہ سیکشن میں کہا گیا تھا کہ ’جو کوئی شکایت درج کرتا ہے یا ایسی معلومات دیتا ہے جو غلط ثابت ہوتی ہے کہ اسے یا کسی دوسرے شخص کو جبری یا غیر ارادی طور پر لاپتا کیا گیا ہے، یا اس سلسلے میں کوئی کوشش کی گئی، وہ سال تک قید اور ایک لاکھ روپے تک جرمانے کےقابل سزا جرم کا مرتکب ہوگا۔
اس بل کا مسودہ سابق پی ٹی آئی حکومت نے تیار کیا تھا اور اسے سابق وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے پیش کیا تھا۔
قومی اسمبلی نے یہ بل گزشتہ سال نومبر میں منظور کیا تھا، تاہم حکومت کو اسے دوبارہ اسمبلی میں لانا پڑا کیونکہ سینیٹ نے اسے چند ترامیم کے ساتھ جمعرات کو منظور کر لیا تھا۔
مزید پڑھیں: جبری گمشدگیوں میں ریاستی اداروں کے ملوث ہونے کا تاثر ختم کریں، جسٹس اطہر من اللہ
سینیٹ کو اب ایک بار پھر اس بل کو پارلیمنٹ کا ایکٹ بنانے کے لیے منظور کرنے کی ضرورت ہے۔
جیسے ہی وزیر قانون نے وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کی جانب سے بل کو منظوری کے لیے ایوان کے سامنے پیش کیا تو اس پرحکومت اور اپوزیشن ارکان کی بڑی تعداد نے احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ دفعہ 514 نے قانون کو بے کار کردیا ہے کیونکہ اس سیکشن کی موجودگی میں کوئی شکایت کرنے کی جرات نہیں کرسکتا۔
بلوچستان نیشنل عوامی پارٹی (بی این پی) مینگل کے سربراہ سردار اختر مینگل نے مجوزہ دفعہ کے خلاف سب سے پہلے آواز اٹھائی اور کہا کہ اس طرح کے مقدمات کی ایف آئی آر (فرسٹ انفارمیشن رپورٹ) کا اندراج پہلے ہی ایک مشکل کام تھا اور جو لوگ شکایت درج کرانے کی جرأت کرتے تھے وہ ہمیشہ ڈرتے رہتے تھے کہ شاید انہیں بھی اغوا کرلیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ ایسی بہت سی مثالیں ہیں جہاں سی سی ٹی وی فوٹیج کی دستیابی کے باوجود اغوا کاروں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔
یہ بھی پڑھیں: وفاقی کابینہ نے صحافیوں کے تحفظ، جبری گمشدگیوں سے متعلق بلوں کی منظوری دے دی
جماعت اسلامی کے مولانا عبدالاکبر چترالی نے وضاحت کے بغیر کہا کہ ملک میں ہر کوئی ایسے اغوا کاروں کے بارے میں جانتا ہے۔
متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے اسامہ قادری نے بھی اختر مینگل کے نقطہ نظر کی حمایت کی اور ایسے معاملات میں شکایت کنندگان کو ’دھمکیاں دینے اور ہراساں کرنے‘ کے رواج کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔
وزیرستان سے آزاد رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ نے کہا کہ وہ پہلے ہی اس بل پر اختلافی نوٹ جمع کرا چکے ہیں جب اس پر ایوان کی کمیٹی میں بحث ہو رہی تھی۔
انہوں نے وزیر قانون سے کہا کہ وہ بل کے حق میں ووٹ دینے سے پہلے ایوان کو ملک میں درج فوجداری مقدمات کی سزا کی شرح کے بارے میں بتائیں۔
مزید پڑھیں: کسی جمہوریت میں آپ جبری گمشدگیاں نہیں کرسکتے، شیریں مزاری
وزیر قانون نے کہا کہ بل کے اس خاص حصے میں سزا تجویز کی گئی کہ اگر مناسب ٹرائل کے بعد شکایت جھوٹی یا فرضی پائی جاتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’تاہم ایسا لگتا ہے کہ (اراکین کے درمیان) اتفاق رائے ہو گیا ہے اور ایوان کا موڈ دیکھنے کے بعد ہم اب اس دفعہ 514 کو ختم کر رہے ہیں‘۔