فیصل واڈا کا ایک اور جھوٹ سامنے آگیا، جسٹس منصور علی شاہ
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما فیصل واڈا کی تاحیات نااہلی ختم کرنے کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے ہیں کہ فیصل واڈا کا ایک اور جھوٹ سامنے آگیا ہے۔
سابق وفاقی وزیر فیصل واڈا نے رواں سال جنوری میں اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے نااہلی کے خلاف درخواست مسترد کرنے کے بعد سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے سابق سینیٹر کی درخواست پر سماعت کی۔
یہ بھی پڑھیں: فیصل واڈا کیس میں غلطی تسلیم کی گئی، نااہلی بنتی ہے مگر تاحیات نہیں، چیف جسٹس
تاحیات نااہلی کے خلاف فیصل واڈا کی اپیل پر آج سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی، دوران سماعت فیصل واڈا کے وکیل نے کہا کہ ریٹرننگ افسر نے منسوخ امریکی پاسپورٹ دیکھ کر تسلی کی۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ جس منسوخ شدہ پاسپورٹ پر آپ انحصار کر رہے ہیں وہ تو پہلے ہی زائد المیعاد تھا، ریٹرننگ افسر کو پاسپورٹ 2018 میں دکھایا گیا تھا، ریٹرننگ افسر کو دکھایا جانے والا پاسپورٹ 2015 میں ایکسپائر ہوچکا تھا۔
جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ نیا پاسپورٹ بنوائیں تو پرانے پر منسوخی کی مہر لگتی ہے، منسوخ شدہ پاسپورٹ شہریت چھوڑنے کا ثبوت کیسے ہو سکتا ہے؟ اس دوران چیف جسٹس نے کہا کہ یہ معاملہ تو بہت سنجیدہ ہوگیا ہے۔
ان سوالات کے جواب آپ کو آئندہ ہفتے بھی نہیں ملنے، جسٹس منصور علی شاہ
اس موقع پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ فیصل واڈا کا ایک اور جھوٹ سامنے آگیا ہے، وکیل فیصل واڈاکے وکیل نے کہا کہ بیان حلفی کا متن تھا کہ کسی دوسرے ملک کا پاسپورٹ نہیں ہے، جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ بیان حلفی میں پاسپورٹ کا مطلب دوسرے ملک کی شہریت ہونا تھا۔
جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ جو پاسپورٹ ریکارڈ پر ہے اس کا اور منسوخ شدہ کے نمبر مختلف ہیں، مختلف نمبرز سے واضح ہے کہ زائد المیعاد ہونے کے بعد نیا پاسپورٹ بھی جاری ہوا، وکیل فیصل واڈا کے وکیل نے مؤقف اپنایا کہ الیکشن کمیشن کے پاس تاحیات نااہلی کا اختیار نہیں ہے۔
مزید پڑھیں: تاحیات نااہلی کا آرٹیکل 62 ون ایف کالا قانون ہے، چیف جسٹس
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ ہائی کورٹ کے پاس تاحیات نااہل کرنے کا اختیار موجود ہے، اس موقع پر فیصل واڈا کے وکیل وسیم سجاد نے تیاری کے لیے وقت مانگ لیا جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ ان سولات کے جواب آپ کو آئندہ ہفتے بھی نہیں ملیں گے۔
اس کے ساتھ ہی عدالت عظمٰی نے کیس کی مزید سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی کردی۔
فیصل واڈا نااہلی کیس
یاد رہے کہ الیکشن کمیشن نے فیصل واڈا کے خلاف دوہری شہریت پر نااہلی کی درخواستوں پر فیصلہ 23 دسمبر 2021 کو محفوظ کیا تھا۔
محفوظ شدہ فیصلہ سناتے ہوئے الیکشن کمیشن نے فیصل واڈا کو آئین کے آرٹیکل 62 (ون) (ایف) کے تحت تاحیات نااہل قرار دیا تھا جبکہ انہیں بطور رکن قومی اسمبلی حاصل کی گئی تنخواہ اور مراعات دو ماہ میں واپس کرنے کا حکم بھی دیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ: تاحیات نااہلی کے خلاف فیصل واڈا کی درخواست مسترد
اس کے علاوہ ای سی پی نے فیصل واڈا کے بطور سینیٹر منتخب ہونے کا نوٹی فکیشن بھی واپس لے لیا تھا جبکہ ان کی جانب سے بحیثیت رکن قومی اسمبلی، سینیٹ انتخابات میں ڈالے گئے ووٹ کو بھی 'غلط' قرار دیا گیا تھا۔
فیصل واڈا پر الزام تھا کہ انہوں نے 2018 کے عام انتخابات میں کراچی سے قومی اسمبلی کی نشست پر الیکشن لڑتے ہوئے اپنی دوہری شہریت کو چھپایا تھا۔
فیصل واڈا نااہلی کیس 22 ماہ سے زائد عرصے تک زیر سماعت رہا، مذکورہ کیس پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھی کیس پر سماعت ہوئی۔
فیصل واڈا کی دوہری شہریت کے خلاف قادر مندوخیل کی جانب سے 2018 میں درخواست دائر کی گئی تھی۔
درخواست میں کہا گیا تھا کہ جس وقت فیصل واڈا نے قومی اسمبلی کے انتخاب کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرائے تھے اس وقت وہ دوہری شہریت کے حامل اور امریکی شہری تھے۔
یہ بھی پڑھیں: فیصل واڈا کی نااہلی کے خلاف درخواست سماعت کے لیے مقرر
درخواست میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ فیصل واڈا نے انتخابات میں حصہ لیتے ہوئے الیکشن کمیشن میں ایک بیانِ حلفی دائر کیا تھا کہ وہ کسی دوسرے ملک کے شہری نہیں ہے۔
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ چونکہ انہوں نے جھوٹا بیانِ حلفی جمع کرایا تھا اس لیے آئین کی دفعہ 62 (1) (ف) کے تحت وہ نااہل ہیں۔
درخواست کی سماعت کے دوران سابق وزیر کے وکیل کا کہنا تھا کہ فیصل واڈا نے کوئی جھوٹ نہیں بولا، کاغذات نامزدگی جمع کروانے سے قبل انہوں نے اپنا غیر ملکی پاسپورٹ منسوخ کروا دیا تھا۔
سماعت کے دوران فیصل واڈا کے وکیل بیرسٹر معید نے ان کا پیدائشی سرٹیفکیٹ کمیشن میں جمع کروایا اور بتایا تھا کہ فیصل واڈا امریکی ریاست کیلی فورنیا میں پیدا ہوئے تھے اور پیدائشی طور پر امریکی شہری تھے۔