• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

وزیر اعظم کی ایک اور مبینہ آڈیو لیک، اتحادیوں کو عہدے دینے پر تبادلہ خیال

شائع October 13, 2022
— فوٹو: شہباز شریف فیس بک
— فوٹو: شہباز شریف فیس بک

وزیر اعظم شہباز شریف کی ایک اور مبینہ آڈیو لیک ہوگئی جس میں وہ اتحادی جماعتوں کو عہدے دینے پر تبادلہ خیال کر رہے ہیں۔

وزیر اعظم آفس سے منسوب کی گئی آڈیو لیکس کے سامنے آنے کا سلسلہ جاری ہے جب کہ سوشل میڈیا پر سامنے آنے والی تازہ ترین ریکارڈنگ میں مبینہ طور پر وزیر اعظم شہباز شریف کسی شخص سے اپنے معاونین خصوصی کی تعیناتیوں کے حوالے سے گفتگو کر رہے ہیں۔

گزشتہ ماہ سے وزیر اعظم شہباز شریف، عمران خان، مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی کے اہم رہنماؤں اور دیگر عہدیداروں کی مبینہ طور پر کئی آڈیو ریکارڈنگز سامنے آچکی ہیں جس سے قومی سلامتی پر سوالیہ نشان لگ گئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: مبینہ آڈیو میں وزیر اعظم سے رشتہ دار کو 'سہولت' فراہم کرنے کی درخواست کا انکشاف

تازہ ترین سامنے آنے والی آڈیو ریکارڈنگ میں نامعلوم شخص وزیر اعظم سے کہتا ہے کہ ’ایاز صادق صاحب کہہ رہے ہیں کہ پیپلز پارٹی والے معاونین خصوصی سے بھی شیئر مانگ رہے ہیں، جس پر شہباز شریف کہتے ہیں کہ ہاں بالکل، بلاول نے بات کی تھی'۔

اس کے بعد نامعلوم شخص کہتا ہے کہ ’یہ پھر اب دیکھ لیں، پھر ہم نے ظفر محمود کو لگانا ہے اور جہانزیب صاحب کو لگانا ہے، میں پھر آپ کو ایک فائنل نمبر بتا دوں گا جس پر شہباز شریف بولتے ہیں کہ وہ ڈاکٹر سے بھی شیئر کرلیں ناں، پیپلز پارٹی ہی نہیں باقی سے بھی شیئر کر لیں‘۔

اس کے بعد نامعلوم شخص کہتا ہے کہ ’وہ پھر جے یو آئی اور ایم کیو ایم بھی مانگے گی، ایم کیو ایم کے ایک بندے کا نام ملک احمد علی بتا رہا ہے کہ یہ ساری ڈیل کرانے میں اس کا بڑا اہم کردار تھا۔‘

مبینہ آڈیو میں شہباز شریف سوال کرتے ہیں کہ ’کون؟‘ جس پر جواب دیتے ہوئے نامعلوم شخص کہتا ہے کہ ’یہ سر کراچی کا بندہ ہے۔‘

مزید پڑھیں: آڈیو لیکس بڑی کوتاہی ہے، اعلیٰ سطح کی تحقیقاتی کمیٹی بنا رہے ہیں، وزیراعظم

گزشتہ ماہ بھی وزیر اعظم شہباز شریف اور ایک سرکاری عہدیدار کے درمیان مبینہ طور پر ہونے والی مبینہ گفتگو کی آڈیو ریکارڈنگ سوشل میڈیا پر لیک ہوئی تھی۔

دو منٹ سے زیادہ طویل آڈیو کلپ میں مبینہ طور پر وزیر اعظم کی آواز کو یہ کہتے سنا جاسکتا ہے کہ مریم نواز شریف نے ان سے اپنے داماد کو بھارت سے پاور پلانٹ کے لیے مشینری کی درآمد میں سہولت فراہم کرنے کا کہا۔

آڈیو کلپ میں عہدیدار کو یہ کہتے سنا جاسکتا تھا کہ 'اگر ہم ایسا کرتے ہیں تو جب یہ معاملہ ای سی سی اور کابینہ کے پاس جائے گا تو ہمیں کافی تنقید کا سامنا کرنا پڑے گا'۔

اس پر مبینہ طور پر وزیر اعظم کی آواز میں کہا گیا تھا کہ داماد، مریم نواز کو بہت عزیز ہے، انہیں اس کے بارے میں بہت منطقی طور پر بتائیں اور پھر میں ان سے بات کروں گا۔

یہ بھی پڑھیں: 'سائفر سے صرف کھیلنا ہے'، عمران خان کی اعظم خان سے مبینہ گفتگو کی آڈیو لیک

وزیراعظم ہاؤس سے مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کی مبینہ آڈیوز لیک ہونے کے بعد سابق وزیر اعظم اور پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی مبینہ آڈیو بھی لیک ہوئی تھی، سابق وزیر اعظم عمران خان کی پرنسپل سیکریٹری اعظم خان کے ساتھ مبینہ امریکی سائفر کے حوالے سے گفتگو میں انہیں اس حوالے سے ہدایات دیتے ہوئے سنا جاسکتا تھا۔

بعد ازاں، 30 ستمبر کو بھی عمران خان کی مبینہ امریکی سائفر کے حوالے سے ایک اور مبینہ آڈیو بھی لیک ہوئی تھی جس میں پارٹی رہنماؤں کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے عمران خان کہتے ہیں کہ 'ہم نے تو امریکیوں کا نام لینا ہی نہیں ہے، کسی صورت میں، اس ایشو کے اوپر پلیز کسی کے منہ سے امریکا کا نام نہ نکلے، یہ بہت اہم ہے آپ سب کے لیے، کس ملک سے لیٹر آیا ہے، میں کسی کے منہ سے اس کا نام نہیں سننا چاہتا'۔

مزید پڑھیں: 'کسی کے منہ سے ملک کا نام نہ نکلے'، عمران خان کی مبینہ سائفر سے متعلق دوسری آڈیو لیک

کچھ روز بعد رواں ماہ کے شروع میں بھی عمران خان کی ایک مبینہ آڈیو لیک ہوئی تھی جس میں مبینہ طور پر عمران خان کہتے ہیں کہ 'اس کو کہیں کہ اگر وہ ہمیں وہ والا 5 سیکیور کردے نا، دس آجائیں نا تو گیم ہمارے ہاتھ میں ہے، اس وقت قوم الارم ہوئی وی ہے، لوگ چاہ رہے ہیں کہ کسی طرح ہم جیت جائیں، اس لیے کوئی فکر نہ کریں کہ یہ ٹھیک ہے یا غلط ہے، کوئی بھی حربہ ہو، ایک ایک بھی اگر کوئی توڑ دیتا ہے تو اس سے بھی بڑا فرق پڑتا ہے'۔

وزیراعظم شہباز شریف نے وزیراعظم ہاؤس کی آڈیو لیکس کو بڑی کوتاہی قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس کی تحقیقات کے لیے اعلیٰ سطح کی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دے رہے ہیں جو معاملے کی تہہ تک پہنچے گی۔

بعد ازاں، وزیر اعظم معاملے کی تحقیقات کے لیے اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی تشکیل دی تھی جس میں وفاقی وزرا اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے سربراہان شامل ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 21 نومبر 2024
کارٹون : 20 نومبر 2024