’احتساب کا قانون آج تک وقتی ضرورت کے مطابق آگے بڑھا‘
قومی احتساب بیورو (نیب) کے قانون ترامیم کے خلاف چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کی درخواست پر سماعت کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ آج تک احتساب کا قانون وقتی ضرورت کے مطابق آگے بڑھا ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے نیب قانون میں ترامیم کے خلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت کی۔
سماعت کے آغاز میں چیف جسٹس نے عمران خان کے وکیل خواجہ حارث سے استفسار کیا کہ آپ اپنے دلائل اور معروضات کب تک مکمل کر لیں گے؟ وکیل نے عدالت میں جواب دیا کہ میں 2 دن میں اپنے دلائل مکمل کر لوں گا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم آج 3 بجے تک کیس کی سماعت کریں گے، ہم آئندہ 2 روز بھی یہ کیس سنیں گے، جمعرات کے بعد آئندہ ہفتے پھر کیس کی سماعت ہوگی۔
خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ گزشتہ سماعت پر وفاق کو جواب جمع کرانے کا کہا گیا تھا، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ وفاق نے ابھی جواب جمع نہیں کرایا، اٹارنی جنرل عدالت میں موجودہ نہیں ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: سابق وزیر اعظم عمران خان نے نیب قانون میں ترامیم سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا
خواجہ حارث نے دلائل دیے کہ نیب قوانین میں ترامیم سے متعدد کرپشن کے کیسز واپس ہوگئے ہیں، زیر التوا نیب انکوائریوں کو بھی روک دیا گیا ہے، حکومت نے کرپشن چھپانے کے لیے نیب عدالتوں کے اختیارات کم کیے۔
خواجہ حارث نے مزید کہا کہ ابھی تو نیب کا مؤقف آنا بھی باقی ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ نیب نے کہا تھا کہ وہ اٹارنی جنرل کے دلائل کو اپنائیں گے۔
اس دوران جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ نیب نے زبانی کہا تھا، ابھی تحریری کچھ نہیں آیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ صرف بنیادی حقوق اور آئین کی خلاف ورزی کو دیکھنا ہے۔
عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ نیب قانون میں مختلف شقوں کے ذریعے عوامی عہدیداروں کو ڈیل کیا گیا، اسفند یار ولی کیس میں تمام شقوں کا جائزہ لیا گیا ہے۔
انہوں نے دلائل دیتے ہوئے مزید کہا کہ احتساب کے قانون کی تاریخ 1947 سے شروع ہوتی ہے، جب نیب احتساب آرڈیننس آیا تو وہ اس کا ہی ایکسٹینشن تھا، اس پر جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ یعنی آج تک احتساب کا قانون وقتی ضرورت کے مطابق آگے بڑھا۔
بعد ازاں سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت کل دوپہر ساڑھے 12 بجے تک ملتوی کردی۔
مزید پڑھیں: اتحادی حکومت کے رہنماؤں کےخلاف دائر کرپشن کیسز عملی طور پر بند ہوگئے
واضح رہے کہ 26 جون کو سابق وزیر اعظم عمران خان نے نیب آرڈیننس میں موجودہ مخلوط حکومت کی جانب سے ترامیم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا، خواجہ حارث کے توسط سے دائر نیب ترامیم کے خلاف آرٹیکل 184/3 کی درخواست تیار کی گئی، درخواست میں وفاق اور نیب کو فریق بنایا گیا۔
درخواست میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ نیب قانون کے سیکشن 2، 4، 5، 6، 25، 26، 14، 15، 21، 23 میں کی ترامیم آئین کے منافی ہیں، نیب قانون میں یہ ترامیم آئین کے آرٹیکل 9، 14، 19 اے, 24, 25 کے بنیادی حقوق کے برعکس ہیں، عدالت سے استدعا ہے کہ نیب قانون میں کی گئی ان تمام ترامیم کو کالعدم قرار دیا جائے۔
عمران خان کی جانب سے دائر کی گئی مذکورہ درخواست کو عدالت عظمیٰ کے رجسٹرار آفس نے اعتراض لگا کر واپس بھیج دیا تھا، تاہم 7 جولائی کو سپریم کورٹ نے یہ درخواست سماعت کے لیے مقرر کرنے کا حکم دیا تھا، بعد ازاں درخواست پر سماعت کے لیے چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ تشکیل دیا گیا تھا۔
نیب ترامیم
خیال رہے کہ رواں سال جون میں مسلم لیگ (ن) کی زیر قیادت اتحادی حکومت نے نیب آرڈیننس میں 27 اہم ترامیم متعارف کروائی تھیں لیکن صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے ان کی منظوری نہیں دی تھی، تاہم اس بل کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں منظور کیا گیا اور بعد میں اسے نوٹیفائی کیا گیا تھا۔
نیب (دوسری ترمیم) بل 2021 میں کہا گیا ہے کہ نیب کا ڈپٹی چیئرمین، جو وفاقی حکومت کی جانب سے مقرر کیا جائے گا، چیئرمین کی مدت ملازمت پوری ہونے کے بعد بیورو کا قائم مقام چیئرمین بن جائے گا، بل میں چیئرمین نیب اور بیورو کے پراسیکیوٹر جنرل کی 4 سال کی مدت بھی کم کر کے 3 سال کردی گئی ہے۔
قانون کی منظوری کے بعد نیب وفاقی، صوبائی یا مقامی ٹیکس کے معاملات پر کارروائی نہیں کر سکے گا، مزید یہ کہ ملک میں کام کرنے والے ریگولیٹری اداروں کو بھی نیب کے دائرہ کار سے باہر نکال دیا گیا ہے۔
مزید پڑھیں: پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس، الیکشن ایکٹ ترمیمی بل اور نیب آرڈیننس ترمیمی بل منظور
بل میں کہا گیا ہے کہ اس آرڈیننس کے تحت افراد یا لین دین سے متعلق زیر التوا تمام پوچھ گچھ، تحقیقات، ٹرائلز یا کارروائیاں متعلقہ قوانین کے تحت متعلقہ حکام، محکموں اور عدالتوں کو منتقل کی جائیں گی، بل نے احتساب عدالتوں کے ججوں کے لیے 3 سال کی مدت بھی مقرر کی ہے، یہ عدالتوں کو ایک سال کے اندر کیس کا فیصلہ کرنے کا پابند بھی بنائے گا۔
مجوزہ قانون کے تحت نیب کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ ملزم کی گرفتاری سے قبل اس کے خلاف شواہد کی دستیابی کو یقینی بنائے، بل میں شامل کی گئی ایک اہم ترمیم کے مطابق یہ ایکٹ قومی احتساب آرڈیننس 1999 کے شروع ہونے اور اس کے بعد سے نافذ سمجھا جائے گا۔