صومالیہ میں الشباب کا حملہ، کار بم دھماکوں میں اعلیٰ حکام سمیت 9 افراد ہلاک
صومالیہ میں 2 کار بم دھماکوں میں حکومتی وزیر اور ایک کمشنر سمیت 9 افراد ہلاک ہوگئے اور شدت پسند گروپ ’الشباب‘ نے حملے کی ذمہ داری قبول کرلی ہے۔
ڈان اخبار میں شائع غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق دھماکا خیز مواد دو کاروں میں نصب تھا، دونوں دھماکے حکومتی دفاتر سے چند قدم کے فاصلے پر کیے گئے۔
یہ بھی پڑھیں: صومالیہ: موغادیشو میں ہوٹل پر حملہ، 9 افراد ہلاک
صومالیہ کے دارالحکومت موغادیشو میں القاعدہ سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسندوں گروہ صومالیہ کے کئی علاقوں میں قابض ہیں۔
مقامی پولیس کمانڈر معلم علی نے بتایا کہ ’ابتدائی معلومات کے مطابق دھماکوں سے ریاستی وزیر اور کمشنر سمیت 9 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔‘
مقامی پولیس افسر نے مزید بتایا کہ ہرشابیلا ریاست کے وزیر صحت اور ضلع کے ڈپٹی کمشنر بھی ہلاک افراد میں شامل ہیں، انہوں نے کہا کہ دھماکے میں کُل 10 افراد زخمی ہوئے ہیں۔
حالیہ ہفتوں میں صومالیہ فورسز اور بین الاقوامی سیکیورٹی پارٹنر نے مشترکہ طور پر ملک میں عسکریت پسندوں کے خلاف بغاوت کا اعلان کرتے ہوئے ملک کے جنوب میں مشترکہ فضائی حملے کیے، جس کے بعد صومالیہ کی حکومت نے الشباب کے سرکردہ کارکن عبدللہ یارے کی ہلاکت کا اعلان کیا تھا۔
وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ الشباب کا لیڈر گروپ کا سرکردہ لیڈر اور سب سے بدنام اور مطلوب دہشت گرد تھا۔
مزید پڑھیں: صومالیہ: موغادیشو میں صدارتی محل کے قریب خود کش حملے میں 8 افراد ہلاک
وزیر اطلاعات نے الشباب کے نائب صدر کے سر کی قیمت 3 کروڑ ڈالر رکھی ہوئی تھی اور عبداللہ یارے کے بارے میں خیال کیا جاتا تھا کہ گروپ کے سربراہ احمد دیری کے بعد وہ اس تحریک کی قیادت کریں گے۔
امریکی افریقی کمانڈر کا کہنا تھا کہ دو روز قبل صومالیہ کی حکومت کی مدد سے الشباب گروپ پر ڈرون سے حملے کیے گئے۔
انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ ’کمانڈ کا ابتدائی نشانہ الشباب کے سربراہ کو ہلاک کرنا تھا جبکہ شہریوں اور آبادی کو کوئی نقصان نہیں ہوا۔‘
صومالیہ کے دارالحکومت موغادیشو میں 21 افراد کے ہلاک ہونے کے بعد نومنتخب صدر حسن شیخ محمد نے گروپ کے خلاف ہر قسم کی جنگ کا عزم ظاہر کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: صومالیہ: الشباب کے خودکش حملے میں 7 افراد ہلاک
صومالیہ کے صدر نے تمام شہریوں کو ہدایات جاری کی ہیں کہ وہ الشباب کے زیر کنٹرول علاقوں سے دور رہیں، صدر کا کہنا تھا کہ مقامی قبائلی ملیشیا کی حمایت یافتہ حکومتی فورسز نے ہیران کے علاقے میں دہشت گردوں کی جانب سے جارحیت جاری ہے۔
عینی شاہد محمد عدو نے بتایا کہ ’دھماکے کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ بیشتر عمارتوں کو شدید نقصان پہنچا‘۔
انہوں نے کہا کہ میں نے کئی لاشوں کو دیکھا جن کی شناخت نہیں ہوسکی تھی جبکہ کئی لوگوں کو ہسپتال کی جانب بھاگتے دیکھا۔
امریکا نے بھی حالیہ دھماکوں کی مذمت کی ہے اور موغادیشو میں امریکی سفارتخانے نے ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا کہ ’خطے میں امن قائم کرنے کے لیے کام کرنے والے سرکاری اہلکاروں اور طبی عملے کے کارکنوں کو بھی نشانہ بنایا گیا‘
مزید پڑھیں: صومالیہ کے دارالحکومت میں کار بم دھماکا، 3 افراد ہلاک
دوسری جانب الشباب گروپ نے ان دھماکوں کی ذمہ داری قبول کی ہے، پچھلے 15 سالوں کے دوران صومالیہ کی حکومت پر الشباب گروپ نے کئی شدت پسند دھماکے کیے اور افریقی یونین آپریشن کے خلاف بھی سرگرم رہے ہیں۔
سال 2011 میں الشباب کے جنگجوؤں کو صومالیہ کے دارالحکومت سے نکال دیا تھا لیکن جنگجو صومالیہ کے وزرا، فوجیوں اور شہریوں کو مسلسل نشانہ بناتے رہے۔
اس سے قبل موغادیشو سے 30 کلومیٹر دور الشباب گروپ کے زیر کنٹرول گاؤں بُرسا میں دھماکے سے صومالیہ کے اعلیٰ پولیس افسر کے قتل کا اعتراف کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔
امریکی افواج نے ماضی میں دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں میں افریقی یونین کے فوجیوں اور صومالی فوجیوں کے ساتھ شراکت داری کی تھی اور صومالیہ میں الشباب کے تربیتی کیمپوں پر چھاپے اور ڈرون حملے بھی کیے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: صومالیہ کے آرمی چیف خودکش حملے میں بال بال بچ گئے
دوسری جانب گزشتہ ماہ امریکی فوج کا کہنا تھا کہ انہوں نے صومالیہ کی فوج کی حمایت کرتے ہوئے ملک کے وسطی علاقے میں فضائی حملے کے دوران الشباب کے 27 جنگجوؤں کو ہلاک کردیا۔
واضح رہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن نے رواں سال مئی میں شدت پسندوں سے لڑنے کے لیے صومالیہ میں امریکی فوج کی موجودگی کی بحالی کا فیصلہ کیا تھا۔