اسلامی نظریاتی کونسل نے ٹرانس جینڈر ایکٹ کی متعدد دفعات کو غیر شرعی قرار دے دیا
اسلامی نظریاتی کونسل نے کہا ہے کہ ٹرانس جینڈر ایکٹ میں متعدد دفعات شرعی اصولوں کے ساتھ ہم آہنگ نہیں اور یہ نت نئے معاشرتی مسائل پیدا کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔
اسلامی نظریاتی کونسل کی جانب سے جاری پریس ریلیز کے مطابق آج اعلیٰ سطح کا اجلاس منعقد ہوا۔
پریس ریلیز میں بتایا گیا کہ اجلاس میں حقیقی انٹر سیکس افراد (خنثیٰ) کے حقوق کے تحفظ کی ضرورت پر زور دیا۔
اسلامی نظریاتی کونسل نے حکومت کو تجویز دی کہ ٹرانس جینڈر افراد کے بارے میں موجودہ ٹرانس جینڈر پرسنز (پروٹیکشن آف رائٹ) ایکٹ کا جائزہ لینے کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل، علما، ماہرین قانون اور ماہرین طب پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی جائے جو خواجہ سراؤں کے بارے میں موجودہ قانون کا تفصیلی جائزہ لے سکے۔
یہ بھی پڑھیں: ٹرانس جینڈر ایکٹ پر شرعی عدالت کا فیصلہ حتمی ہوگا، وفاقی وزیرقانون
مزید بتایا گیا کہ تاکہ اس مسئلے کے ہر پہلو کو سامنے رکھتے ہوئے جامع قانون سازی کی جاسکے۔
اسلامی نظریاتی کونسل نے کہا کہ موجودہ ایکٹ میں مجموعی طور پر متعدد دفعات کو شرعی اصولوں کے ساتھ ہم آہنگ نہیں اور یہ نت نئے معاشرتی مسائل پیدا کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔
پریس ریلیز میں بتایا گیا کہ کونسل نے نیب ترمیمی قانون 2022 کو مستحسن قرار دیتے ہوئے کہا کہ نیب قانون سے متعلق کونسل کی دیگر سفارشات کو بھی شامل کیا جائے۔
خیال رہے کہ 26 ستمبر کو سینیٹ میں مخنث افراد کے حقوق اور تحفظ سے متعلق پیش کیا گیا ترمیمی بل 2022 متعلقہ کمیٹی کے سپرد کردیا گیا تھا۔
چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی زیر صدارت ایوان کا اجلاس ہوا جہاں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی سینیٹر فوزیہ ارشد نے ٹرانس جینڈر ترمیمی بل پیش کیا، جو کمیٹی کے سپرد کردیا گیا تھا۔
مزید پڑھیں: سینیٹ اجلاس: ٹرانس جینڈر ترمیمی بل 2022 کمیٹی کے سپرد
سینیٹ میں خطاب کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے سینیٹر محسن عزیز نے ٹرانس جینڈر ایکٹ پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم اللہ سے معافی مانگیں، ہم نے اس ایوان میں بیٹھ کر غلطی کی، ماضی میں بل کی منظوری کے وقت میں بھی موجود تھا، غلطی ہوگئی اس وقت مخالفت نہیں کی۔
ان کا کہنا تھا کہ ٹرانس جینڈرز خواجہ سرا نہیں ہیں، خواجہ سرا اللہ کی مخلوق ہیں، جلدی قانون میں تبدیلی کی جائے۔
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا تھا کہ ہمیں شریعت، دین اور آئین کو سامنے رکھ کر بات کرنی چاہیے، یہ قانون 4 سال پہلے بنا تھا، چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل کو بھی سنا گیا اور انہوں نے بھی حمایت کی تھی۔
انہوں نے کہا تھا کہ یہ ایک حساس معاملہ ہے، یہ اللہ ہی کی مخلوق ہیں، ان کا احترام کیا جائے، سپریم کورٹ نے کہا کہ انہیں شناختی کارڈ اور نوکریاں دی جائیں، ترامیم آئی ہوئی ہیں، کمیٹی میں بیٹھ کر بات ہوگی۔
وزیر قانون نے کہا تھا کہ اس معاملے پر سیاست نہ کریں، نیت سب کی ٹھیک ہے، ہم بھی اتنے ہی مسلمان ہیں جتنے اس ہاؤس سے باہر بیٹھے لوگ ہیں، اس ملک میں شدت پسندی کی پہلے کوئی کمی نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ٹرانس جینڈر ایکٹ کے خلاف وفاقی شرعی عدالت میں سماعت، متعدد افراد کو فریق بننے کی اجازت
جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے کہا تھا کہ خواجہ سراؤں سے متعلق بل پر ترامیم لایا، جس کے بعد میرے خلاف ایک مہم شروع ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ اس قانون کے بارے میں کہا گیا ہے کہ موجودہ قانون اسلام کے منافی ہے، اس لیے ان ترامیم کی منظوری کا عمل تیز کیا جائے، حکومت نے بھی کہا ہے کہ موجودہ قانون میں خرابی ہے۔
چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے کہا تھا کہ خواجہ سراؤں سے متعلق قانون سیاست کی نذر ہو چکا ہے، محسن عزیز نے بھی ایک بل دیا ہے وہ بھی کمیٹی کے سپرد کرتے ہیں۔
یاد رہے کہ یہ قانون 25 ستمبر 2012 کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد بنایا گیا تھا، اس قانون میں کہا گیا تھا کہ خواجہ سراؤں کو وہ تمام حقوق حاصل ہیں جن کی آئین ضمانت دیتا ہے، خواجہ سرا معاشرے کے دیگر افراد کی طرح حسب معمول زندگی گزار سکتے ہیں۔
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری، جسٹس جواد ایس خواجہ اور جسٹس خلجی عارف حسین پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے یہ فیصلہ سنایا تھا، یہ درخواست اسلامی ماہر قانون ڈاکٹر محمد اسلم خاکی کی طرف سے دائر کی گئی تھی، جس میں ’ہرمافروڈائٹ بچوں‘ کی آزادی کی درخواست کی گئی تھی تاکہ وہ بھیک مانگنے، ناچنے اور جسم فروشی کے بجائے ’باعزت طریقے‘ سے زندگی بسر کر سکیں۔
مزید پڑھیں: لڑکی کی جنس تبدیلی کی درخواست، عدالت کا خصوصی میڈیکل بورڈ تشکیل دینے کا حکم
سماعت کے دوران قائم مقام چیف جسٹس نے مشاہدہ کیا تھا کہ کیس کا اصل مقصد ٹرانسجینڈر کمیونٹی کو ’حقیقی تحفظ اور حقوق‘ فراہم کرنا ہے، قانونی حقوق اُن لوگوں کو ملنے چاہئیں جو اس کے مستحق ہیں۔
قومی اسمبلی نے ٹرانس جینڈر کو قانونی شناخت دینے کے لیے ٹرانس جینڈر پرسنز (پروٹیکشن آف رائٹ) ایکٹ منظور کیا تھا، اس ایکٹ کے تحت خواجہ سراؤں کے ساتھ کسی بھی قسم کا امتیازی سلوک کرنے والا شخص سزا کا مرتکب ہوگا۔
گزشتہ ہفتے وفاقی شرعی عدالت میں ٹرانس جینڈر ایکٹ کو ’اسلامی احکام کے منافی‘ قرار دینے کے لیے چیلنج کردیا گیا تھا اور اس کے بعد متعدد افراد نے کیس میں فریق بننے کی اجازت طلب کرتے ہوئے کہا تھا کہ 2018 میں نافذالعمل ہونے والے اس قانون کا مستقبل غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہوگیا ہے۔
ٹرانس جینڈر ایکٹ 2018 کے خلاف دائر کردہ درخواست میں پیپلز پارٹی کے سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر، جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد اور خواجہ سرا الماس بوبی نے استدعا کی تھی کہ درخواستوں پر سماعت کے دوران انہیں دلائل دینے کی اجازت دی جائے۔