• KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am
  • KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am

’قدرتی آفات سے نمٹنے کیلئے پاکستان معاوضہ نہیں، ماحولیاتی انصاف چاہتا ہے‘

شائع September 24, 2022
بلاول بھٹو نے کہا کہ پاکستان میں سیلاب سے ہونے والے نقصانات کا دائرہ وسیع اور شدت بہت زیادہ ہے—فوٹو : پی پی آئی
بلاول بھٹو نے کہا کہ پاکستان میں سیلاب سے ہونے والے نقصانات کا دائرہ وسیع اور شدت بہت زیادہ ہے—فوٹو : پی پی آئی

وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے پاکستان معاوضہ نہیں بلکہ حقیقت پسندانہ ماحولیاتی انصاف کا خواہاں ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے نیویارک میں اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر میں ایک پریس کانفرنس کے دوران صحافیوں کو بتایا کہ یہ معاوضہ حاصل کرنے میں تاحال کوئی بھی کامیاب نہیں ہوا ہے، یہ ایک طویل المدتی سوال ہے، ہم حقیقت پسندانہ ماحولیاتی انصاف کے خواہاں ہیں۔

وزیر خارجہ نے سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ کی جانب سے ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے حالیہ تجویز کا بھی حوالہ دیا جنہوں نے ماحولیاتی تباہ کاریوں کے شکار ممالک کے قرض دہندگان کو یہ قرض امداد میں تبدیل کرنے کا مشورہ دیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: اقوام متحدہ کے قرض معطلی کے مطالبے پر پاکستان کی معاشی مشکلات میں اضافے کے خدشات

وزیر خارجہ کا یہ بیان یو این ڈی پی کی اس حالیہ رپورٹ کے تناظر میں سامنے آیا ہے جس میں دعویٰ کیا گیا کہ مالی مشکلات کے شکار پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچنے کے لیے اپنے قرضوں کی ادائیگی میں سہولت درکار ہے۔

بلاول بھٹو زرداری نے وضاحت کی کہ پاکستان اپنے قرضوں کی ادائیگی میں سہولت کا خواہاں نہیں ہے، یہ قیاس کیا جا رہا ہے کہ پاکستان دیوالیہ ہونے جا رہا ہے، میں یہ واضح کردوں کہ ہم ہرگز دیوالیہ پن کے نزدیک نہیں ہیں‘۔

معاوضے اور ماحولیاتی انصاف کے درمیان فرق کی وضاحت کرتے ہوئے بلاول بھٹو کا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب قوم کے دکھوں کو اجاگر کرنے پر مرکوز رہا۔

مزید پڑھیں: سیلاب کی تباہ کاریوں پر عالمی ردعمل 'قابل ستائش لیکن ناکافی ہے‘، وزیراعظم

وزیر خارجہ نے کونسل آن فارن ریلیشنز (سی ایف آر) میں امریکی اسکالرز اور ماہرین کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان میں سیلاب زدگان کے لیے دنیا کا تعاون طلب کیا۔

انہوں نے کہا کہ ’پاکستان میں سیلاب سے ہونے والے نقصانات کا دائرہ وسیع اور شدت بہت زیادہ ہے، بحالی اور تعمیر نو کی کوششوں کے لیے عالمی برادری کی مدد ناگزیر ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ مالی امداد سے زیادہ پاکستان کو اپنے بنیادی انفرااسٹرکچر اور معیشت کی تعمیر نو کے لیے ماحولیاتی انصاف اور ’گرین پلان‘ کی ضرورت ہے۔

’پہلی بار کسی وزیراعظم کو جمہوری عمل کے ذریعے ہٹایا گیا‘

پی ٹی آئی حکومت کے خاتمے کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ‘ہمارے ملک کی تاریخ میں پہلی بار کسی وزیر اعظم کو پھانسی یا جلاوطنی کے ذریعے نہیں بلکہ تحریک عدم اعتماد جیسے آئینی اور جمہوری اقدام کے ذریعے عہدے سے ہٹایا گیا‘۔

انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم حکومت نے ایک توازن پیدا کیا ہے اور ملک میں جمہوری اور پرامن نظام قائم کیا ہے لیکن بدقسمتی سے وہ طاقتیں جو پاکستان میں کبھی جمہوریت نہیں چاہتیں، وہ مسلسل اس پیش رفت کو کمزور کرنے اور اسے الٹانے کی کوشش کر رہی ہیں‘۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان فوج، انٹیلی جنس ایجنسیوں اور عدلیہ کو اپنے ذاتی کنٹرول میں لانا چاہتے ہیں۔

مزید پڑھیں: انسانی حقوق کے عالمی ماہرین کا سیلاب متاثرین کی امداد میں اضافے کا مطالبہ

حالیہ سیلابوں کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان ماحولیاتی تبدیلیوں کے خطرات کا سب سے زیادہ سامنا کرنے والے ممالک میں آٹھویں نمبر پر ہے، سیلاب کی حالیہ تباہ کاریوں کے سبب ابتدائی تخمینے میں 30 ارب ڈالر سے زائد کے نقصانات کی نشاندہی کی گئی ہے۔

سیلاب زدگان کے لیے امریکا کی جانب سے تعاون کو سراہتے ہوئے وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان امریکا کے ساتھ اپنے دیرینہ تعلقات کو اہمیت دیتا ہے اور اس دوطرفہ تعلقات کو مزید تقویت دینے کے عزم کا اعادہ کرتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان میں امن، ترقی اور استحکام کے حصول کے لیے پاکستان عالمی برادری کے ساتھ مل کر کام کرتا رہے گا۔

یہ بھی پڑھیں: سیلاب کی تباہ کاریاں، اقتصادی ترقی کی شرح 2 فیصد رہ جانے کا خدشہ

امن کے لیے پاکستان کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ ہندوتوا کے متشدد انتہا پسند نظریے کے زیراثر بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک اور ظلم و ستم انتہائی تشویشناک ہے۔

انہوں نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت آبادیاتی تبدیلیاں کر رہا ہے اور انتخابی حلقوں کی ازسرنو تشکیل کر کے مسلمانوں کو حق رائے دہی سے محروم کر رہا ہے۔

انہوں نے بھارت سے 5 اگست 2019 کے غیر قانونی اور یکطرفہ اقدامات کو واپس لینے کا مطالبہ کیا اور امید ظاہر کی کہ خطے میں امن و استحکام کے لیے سازگار حالات پیدا ہوں گے۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024