ہفتہ وار مہنگائی معمولی کمی کے بعد 40.58 فیصد ہوگئی
ہفتہ وار مہنگائی قدرے کم ہو کر 40.58 فیصد ہو گئی جس کی بڑی وجہ باورچی خانے کی ضروری اشیا کی قیمتوں اور توانائی کے زیادہ اخراجات ہیں۔
ٖڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پاکستان ادارہ شماریات کے اعداد و شمار کے مطابق سینسیٹو پرائس انڈیکس (ایس پی آئی) کے ذریعے پیمائش کردہ ہفتہ وار مہنگائی میں ہفتے کی بنیاد پر 0.19 فیصد کی معمولی کمی واقع ہوئی یہ کمی گزشتہ مسلسل دو ہفتوں سے نوٹ کی گئی ہے۔
اس سے پہلے سینسٹیو پرائس انڈیکس میں سالانہ سب سے زیادہ اضافہ یکم ستمبر کو ختم ہونے والے ہفتے کے لیے 45.50 فیصد اور 25 اگست کو ختم ہونے والے ہفتے کے لیے 44.58 فیصد پر ریکارڈ کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: ہفتہ وار مہنگائی نے تمام ریکارڈ توڑ دیے، 42.3 فیصد تک پہنچ گئی
پی بی ایس کے تازہ ترین اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ ہفتہ وار بنیادوں پر سینسیٹیو پرائس انڈیکس میں قدرے کمی ہوئی ہے جس کی بنیادی وجہ افغانستان اور ایران سے درآمدات کی وجہ سے خوراک کی قیمتوں مثلاً ٹماٹر اور پیازکا سستا ہونا ہے۔
کھڑی فصلوں کو پہنچنے والے نقصان اور بجلی کے نرخوں میں زبردست اضافہ بھی قیمتوں میں اضافے کا باعث بنا ہے، کھڑی فصلوں کو ہونے والے نقصان سے آنے والے ہفتوں میں سبزیوں کی قیمتوں میں اضافہ ہونے کا امکان ہے۔
حکومت نے رواں مالی سال کے لیے 11.5 فیصد افراط زر کا سالانہ ہدف پیش کیا تھا۔
تاہم فیڈرل بورڈ آف ریونیو، جو مہنگائی کو صارفین سے اضافی ٹیکس جمع کرنے کے اقدامات میں سے ایک کے طور پر استعمال کرتا ہے، نے افراط زر کی شرح 12.8 فیصد رہنے کا تخمینہ لگایا ہے۔
مزید پڑھیں: ہفتہ وار مہنگائی تاریخ کی نئی بُلند ترین سطح 45.5 فیصد پر پہنچ گئی
دوسری جانب آزاد معاشی ماہرین کا اندازہ ہے کہ افراط زر 25 سے 30 فیصد کے قریب رہے گا۔
عالمی مالیاتی فنڈ نے رپورٹ میں کہا ہے کہ رواں مالی سال میں اوسط کنزیومر پرائس انڈیکس (سی پی آئی) افراط زر 20 فیصد تک بڑھنے کی توقع ہے جبکہ توانائی کی بلند قیمتوں اور روپے کی گراوٹ کی وجہ سے بنیادی افراط زر بھی بلند رہے گی۔
سینسیٹیو پرائس انڈیکس ملک بھر کے 17 شہروں میں 50 بازاروں کے سروے کی بنیاد پر 51 ضروری اشیا کی قیمتوں پر نظر رکھتا ہے۔
زیر جائزہ ہفتے کے دوران 51 میں سے 30 اشیا کی قیمتوں میں اضافہ، 10 کی قیمتوں میں کمی اور 11 کی قیمتوں میں استحکام رہا۔
یہ بھی پڑھیں: ملک میں مہنگائی تاریخ کی نئی بلند ترین سطح 44.58 فیصد پر پہنچ گئی
لپٹن چائے ( 6.30فیصد)، دال مونگ (3.46فیصد)، انڈے (2.54فیصد)، پکا ہوا گائے کا گوشت اور دال چنا (2.53فیصد)، گندم کے آٹے (1.96فیصد)، چاول اری 9/6 (1.73فیصد)، پکی دال (1.71فیصد)، دال ماش (1.68فیصد) اور روٹی کی قیمت میں (1.45فیصد) اضافہ دیکھا گیا۔
سالانہ بنیاد پر جن اشیا کی قیمتوں میں سب سے زیادہ اضافہ ہوا ان میں ٹماٹر (170.51 فیصد)، ڈیزل ( 105.12فیصد)، پیٹرول (90.73 فیصد)، دال مسور ( 76.65فیصد)، دال چنا ( 67.11 فیصد)، سرسوں کا تیل (65.75 فیصد)، خوردنی تیل کی 5 لیٹر کی بوتل (65.45 فیصد)، صابن (61.05 فیصد)، ڈھائی کلو ویجیٹیبل گھی (6.68 فیصد)، ایل پی جی (56.61 فیصد)، فی کلو ویجیٹیبل گھی (56.46 فیصد)، دال ماش (53.41 فیصد) اور بجلی کی قیمت میں (52.04) فیصد کا اضافہ ہوا۔