• KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am
  • KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am

سیلاب نہ بھی آتا تو معاشی صورت حال گھمبیر ہوتی، وزیر اعظم

شائع September 14, 2022 اپ ڈیٹ September 15, 2022
وزیر اعظم نے کہا ہے کہ ملک دیوالیہ ہونے سے ہم نے بچایا — فوٹو: ڈان نیوز
وزیر اعظم نے کہا ہے کہ ملک دیوالیہ ہونے سے ہم نے بچایا — فوٹو: ڈان نیوز

وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ اگر سیلاب نہ بھی آتا تو پاکستان کی معاشی صورت حال بہت چیلنجنگ تھی اور سیلاب نے اسے مزید گھمبیر بنا دیا ہے۔

اسلام آباد میں وکلا کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ سیلاب اور بارشوں نے پاکستان میں جو تباہی مچائی ہے وہ کبھی نہیں دیکھی اور ایسی موسمیاتی تباہی شاید ہی دنیا میں کہیں آئی ہو۔

مزید پڑھیں: پاکستان کی تعمیر کے لیے دھرنوں کا دھڑن تختہ کریں، وزیر اعظم

انہوں نے کہا کہ پاکستان تقریباً معاشی دیوالیہ ہوچکا تھا مگر مخلوط حکومت نے اپنی محنت سے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچا لیا جس کے بعد معاشی عدم استحکام کسی حد تک کنٹرول میں آیا۔

ان کا کہنا تھا کہ مہنگائی اپنے عروج پر ہے اور کسی کو اس پر شک نہیں ہونا چاہیے اور یہ سب کو یاد ہے کہ جب 11 اپریل کو میں نے یہ ذمہ داری سنبھالی تو اس کے ڈیڑھ مہینے تک ہم پریشانی کا شکار تھے کہ قیمتیں مقرر کریں یا نہ کریں۔

انہوں نے کہا کہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ جو معاہدہ کیا گیا تھا اس کی پاسداری نہیں کی گئی اور اس معاہدے کی بری طرح دھجیاں بکھیری گئی تھیں، جس پر آئی ایم ایف نے ہمیں آڑے ہاتھوں لیا اور ناک سے لکیریں نکلوائیں اور وہ شرائط جو گزشتہ حکومت نے طے کی تھیں، ان کو آٹو پر لگایا کہ اگر گزشتہ شرائط پر عمل نہ کیا گیا تو خود ہی یہ پروگرام رک جائے گا۔

وزیر اعظم نے کہا کہ قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے ایک بڑا خواب دیکھا اور علامہ اقبال کے ساتھ مل کر اس خواب کی تکمیل کی اور لاکھوں لوگوں کی قربانیوں کے بعد پاکستان وجود میں آیا مگر آج 75 برس بعد بھی پاکستان کس مقام پر کھڑا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: شیخ تمیم کی دعوت پر وزیر اعظم شہباز شریف دو روزہ دورے پر کل قطر روانہ ہوں گے

انہوں نے کہا کہ اگر سیلاب نہ بھی آتا تو پاکستان کی معاشی صورت حال بہت چیلنجنگ تھی اور سیلاب نے اسے مزید گھمبیر بنا دیا ہے۔

شہباز شریف نے کہا کہ میں 15 دن پہلے بھی بلوچستان گیا تھا جہاں ابھی تک سیلابی تباہی جاری ہے اور آج بھی وہاں سے ہوکر آیا تو پانی وہاں خاموش تباہی مچا رہا ہے اور وہاں کے لوگ بڑی مشکلات سے دوچار ہیں، جن کے پاس پینے کا پانی تک نہیں اور لاکھوں لوگ کھلے آسمان تلے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 75 برس گزرنے کے باوجود بھی ہم ایک محدود دائرے میں چل رہے ہیں، ہم ایٹمی طاقت ضرور بنے ہیں اور اگر ایٹمی طاقت نہ ہوتے تو ہمارے معاملات اور بھی الجھے ہوئے ہوتے مگر ایٹمی طاقت نے پاکستان کی سرحدوں کو محفوظ کردیا ہے جس کی وجہ سے کوئی دشمن بھی پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا، مگر باقی میدانوں میں کیا ہوا جہاں چونٹی نما ممالک معاشی اور سماجی دوڑ میں ہم سے کافی آگے نکل گئے مگر ہم آج بھی کشکول لے کر گھوم رہے ہیں۔

مزید پڑھیں: 'پاک بھارت پرامن تعلقات ناگزیرہیں'، وزیر اعظم شہباز شریف کا بھارتی ہم منصب کو خط

انہوں نے کہا کہ اب سردیاں آنے والی ہیں، جس میں صنعتکاروں، فیکٹریوں، گھروں اور دیگر شعبوں کو گیس کی ضرورت ہوگی مگر وہ لوگ جو اس وقت کھلے آسمان تلے بیٹھے ہیں ان کا کیا ہوگا، یہ وہ سوالات ہیں جو قوم مجھ سے، کابینہ اور صاحب اقتدار سے پوچھتی ہے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ ہم آج بھی غربت کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں مگر وہ ممالک جن کے ساتھ ہمارا مقابلہ تھا جس طرح بھارت کسی زمانے میں لوہے میں ہم سے آگے تھا تو ہم ٹیکسٹائل میں آگے تھے اور اس کے روپے کی قدر پاکستانی روپے سے کم تھی۔

انہوں نے کہا کہ عام آدمی اب پوچھتا ہے کہ ہمارا مستقبل کیا ہے، میں گزشتہ دو مہینوں سے پورا پاکستان گھوم کر آیا ہوں، لوگوں کی زندگی اجیرن بن چکی ہے جن کے پاس ایک وقت روٹی کے لالے پڑے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: دنیا ایک اور سرد جنگ کی متحمل نہیں ہوسکتی، وزیر اعظم شہباز شریف

ان کا کہنا تھا کہ جب گیس سستی مل رہی تھی تو ہم سوئے رہے، اب میں چار دن سے سوچ رہا ہوں کہ ہمیں گیس کہاں سے ملے گی اور ایک دو جگہ سے مثبت جواب آیا بھی تو مہنگی قیمت پر مگر جنہوں نے وقت پر معاہدے کیے وہ اب سستی گیس خرید رہے ہیں اور اپنی قوم کو ترقی کی طرف لے جارہے ہیں۔

وزیر اعظم نے کہا کہ ہم جب ہر طرف دیکھتے ہیں تو قرضہ نظر آتا ہے اور جب ہم کسی دوست ملک کے پاس جاتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ ’آئیں ہیں مانگنے کے لیے‘ اور جب کسی کو ٹیلی فون کرتے ہیں تو وہ سمجھتے ہیں کہ مانگیں گے تو لاکھوں لوگوں نے اس لیے تو اتنی بڑی قربانی نہیں دی تھی۔

انہوں نے بار اراکین کو پلاٹس الاٹ ہونے پر مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ آج سب ان لاکھوں لوگوں کے بارے میں ضرور سوچیں جو اس وقت سیلاب میں گھرے ہوئے ہیں اور ان لاکھوں لوگوں کے بارے میں بھی سوچیے گا جن کے گھر مکمل طور پر تباہ ہوچکے ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024